معاشرہ

قیمتوں میں اضافہ سے غیر مطمئن ایرانی نئے سال میں پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج دوبارہ شروع

پاکستان فارورڈ

14 مارچ کو ایران کی ایک گلی میں ایک لڑکی بنا حجاب آگ کا روائتی تہوار منا رہی ہے۔ وہ ایک نعرے کے سامنے کھڑی ہے، جس میں لکھا ہے، 'ہم بدھ کی عید کو اپنے حجاب جلا دیں گی'۔ [ٹویٹر]

14 مارچ کو ایران کی ایک گلی میں ایک لڑکی بنا حجاب آگ کا روائتی تہوار منا رہی ہے۔ وہ ایک نعرے کے سامنے کھڑی ہے، جس میں لکھا ہے، 'ہم بدھ کی عید کو اپنے حجاب جلا دیں گی'۔ [ٹویٹر]

جیسا کہ دوبارہ بھڑک اٹھنے والے احتجاج اور ذاتی قوتِ خرید میں ایک تیز تنزلی کے دوران پیر (20 مارچ) کو فارسی سالِ نو، نورز پر ایرانی دوبارہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، متعدد کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی صورتِ حال سے بددل ہو گئے ہیں۔

سالِ نو بہار کے وسط کے لمحہ سے شروع ہوتا ہے، اور یہ ایک امّید کا وقت ہونا چاہیئے، جس میں مختلف رسوم ہوتی ہیں جن میں آگ سے پھلانگنے، رقص، شاعری اور بزرگوں کی طرف جانا شامل ہیں، جو کم عمر اہلِ خانہ کے لیے تحائف خریدتے ہیں۔

لیکن اس اسلامی جمہوریہ کی معاشی اور معاشرتی حکمت ہائے عملی نے رواں برس ایک ویٹرنری ٹیکنیشن ہینگامیہ سمیت متعدد کے لطف و انبساط کو لوٹ لیا ہے۔

ہینگامیہ نے کہا کہ اس نے کبھی اس درجہ معاشی مشکلات نہیں دیکھیں۔

نوروز کے قبل کے ایام میں آگ کے روائتی تہوار کے دوران دوبارہ بھڑک اٹھنے والے احتجاج میں آئی آر جی سی قدس فورس کے مرحوم کمانڈر قاسم سلیمانی کی ایک تصویر کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔ [سکرین گریب/ سوشل میڈیا]

نوروز کے قبل کے ایام میں آگ کے روائتی تہوار کے دوران دوبارہ بھڑک اٹھنے والے احتجاج میں آئی آر جی سی قدس فورس کے مرحوم کمانڈر قاسم سلیمانی کی ایک تصویر کو نذرِ آتش کیا جا رہا ہے۔ [سکرین گریب/ سوشل میڈیا]

فارسی سالِ نو سے قبل مارچ کے وسط میں لوگ نوروز کے لیے اشیاء خرید رہے ہیں۔ [آئی آر آئی بی]

فارسی سالِ نو سے قبل مارچ کے وسط میں لوگ نوروز کے لیے اشیاء خرید رہے ہیں۔ [آئی آر آئی بی]

افراطِ زر کی وجہ سے نوروز 2023 سے قبل متعدد ایرانی بازار مصروف نہیں رہے۔ [ورانداز]

افراطِ زر کی وجہ سے نوروز 2023 سے قبل متعدد ایرانی بازار مصروف نہیں رہے۔ [ورانداز]

اس نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگرچہ میں اور میرا خاوند، دونوں پورا دن کام کرتے ہیں، تاہم ہم نے گزشتہ برس اتنی جدوجہد کی جتنی ہم نے پہلے کبھی نہیں کی۔"

اس نے کہا، "میں نے بہت سوچا کہ اپنی 8 سالہ بیٹی کے لیے کیا خریدوں اور متعدد مرتبہ اپنا خیال تبدیل کیا، آخر کار خوردہ اشیاء پر ہی اکتفا کیا جو کہ اس کی خواہشات کی فہرست میں بھی نہ تھیں۔"

تازہ ترین حکومتی اندازہ 19 فروری کو اختتام پذیر ہونے والے 30 روزہ عرصہ کے لیے 47.7 فیصد شرحِ افراطِ زر کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ اسی عرصہ کی نقطہ سے نقطہ کی شرحِ افراطِ زر کا اندزہ 53.4 فیصد لگایا گیا ہے۔

گزشتہ برس میں سبکدوش اور حاضر ملازمت حکومتی ملازمین اور تیل کے کارکنان نے گزشتہ برس کے دوران وقفے وقفے سے ملک بھر میں اپنی کم پنشنوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

انہی میں ایک 75 سالہ سبکدوش انجنیئر فاریبورز شامل ہے، جس کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کی بیوی، جو کہ خود بھی سبکدوش ہے، نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے پوتوں، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کو بتائیں گے کہ اس نوروز پر وہ ان کے لیے تحائف خریدنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا، "ہمیں اس کی بے حد تکلیف ہے اور یہ بہت باعثِ شرمندگی ہے، لیکن ہم واقعی ہی اس خرچہ کی استعداد نہیں رکھتے۔ ہر چیز گزشتہ برس کی نسبت کہیں زیادہ مہنگی ہے، اور ہم نے گزشتہ برس بھی کافی کوشش کی تھی۔"

غائب ہوتا درمیانہ طبقہ

ایک ایران اساسی معاشیات دان نے اپنی شناخت خفیہ رکھی جانے کی شرط پر المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ آہ و بکا ان خاندانوں میں شدید طور پر محسوس کی جا سکتی ہے جو کبھی اپنے آپ کو درمیانے طبقے میں تصور کرتے تھے – ایک ایسا طبقہ جو ایران میں تیزی سے غائب ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درمیانے طبقے کے متعدد خاندان بمشکل کرایہ ہی ادا کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ وہ روزمرہ اخراجات سے نبردآزما ہیں، نوروز کی روایت کے طور پر نئے کپڑے اور جوتے خریدنا رواں برس متعدد کے لیے ایک قریباً ناممکن کارنامہ بن چکا ہے۔

اس معاشیات دان نے کہا، "ضروریات پوری کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد عوام کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے اور نوروز کے جشن کو کرکرا کر دیتی ہے، بطورِ خاص اس لیے کہ نوروز میں زیادہ تر اخراجات ہیں۔"

انہوں نے کہا، "آپ 15 روزہ چھٹی کے دوران اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ جاتے ہیں، لیکن نوروز کی مخصوص اشیاء، میوہ جات اور پیسٹریاں، نئے کپڑے اور جوتے، بال بنوانا، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو زیادہ تر ایرانیوں کی استطاعت سے باہر ہیں۔"

سفر بھی ایرانی درمیانے طبقے کے لیے ایک تعیش بن چکا ہے۔

اگرچہ ٹریول ایجنسیاں مسلسل ایسی ڈٰیلز پیش کر رہی ہیں جو ان کے دعویٰ کے مطابق، "سستی" ہیں، لیکن بجٹ خدشات کی وجہ سے کم ہی لوگ رواں برس سفر کر سکے ہیں۔

گزشتہ برسوں میں چند خاندان، بطورِ خاص نوجوان خاندان ترکی یا دبئی میں اپنی نوروز کی چھٹیاں مناتے تھے، جبکہ نوجوان افراد کا مقصد کلبز اور بارز میں اپنا وقت صرف کرنا ہوتا تھا، جو ایران میں نہیں ہیں۔

چند لاس اینجلس اساسی ایرانی گلوکاروں کی جانب سے منعقدہ کنسرٹس کے لیے سفر کرتے تھے۔

تاہم، رواں برس، نسبتاً کم لوگوں نے سفر کی منصوبہ بندی کی، کیوںکہ گزشتہ برس ڈالر کے مقابلہ میں ریال کی قیمت تیزی سے گری اور فروری میں تو شدید گراوٹ دیکھی گئی۔

ریال کے دوبارہ اوپر جانے نے – چین کی جانب سے مصالحت شدہ ایران-سعودی معاہدے کے بعد مارچ کے وسط تک تقریباً 18 فیصد تک – چند ایرانیوں میں امیّد پیدا ہوئی، لیکن اشیاء اور خدمات کی قیمتیں بلند ہی رہیں۔

فائر فیسٹیول پر احتجاج

نوروز سے قبل ایرانیوں نے نئے سال میں دوبارہ سے اٹھنے کا ایک تاریخ ساز عمل شروع کر دیا جس کے ساتھ انہوں نے سال کے آخری بدھ (رواں برس 15 مارچ) کو منایا، جو کہ منگل کو سرِ شام شروع ہوتا ہے اور اس میں آگ سے پھلانگنا بھی شامل ہوتا ہے۔

حکومتِ ایران نے حسبِ روایت آگ کے تہوار کو کچلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

اس سال یہ تہوار چھ ماہ قبل "اخلاقی پولیس" کی حراست میں ایک نوجوان خاتون ماشا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مسلسل احتجاج کا نقطۂ ارتکاز تھا۔

متعدد احتجاج کنندگان نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ جہاں بھی وہ آگ کے تہوار کا جشن مناتے ہیں وہاں وہ احتجاج کریں گے اور تین روز تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

منگل کو جشن کے لیے جمع خواتین نے اپنے حجاب جلا تے ہوئے نعرہ بازی کی، "ہم اپنے حجاب جلا دیں گی"۔ چند نے دیواروں پر نعرے لکھے۔

متعدد نے گانے گائے اور رقص کیا۔ رقص اس تہوار کا ایک روایتی جزُ ہے لیکن اس اسلامی جمہوریہ نے اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

نعرے لگاتے ہوئے چند نے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامیٔ کی قدس فورس (آئی آر جی سی – کیو ایف) کے مرحوم کمانڈر قاسم سلیمانی سمیت ایرانی رہنماؤں کی تصاویر اور پوسٹر نذرِ آتش کیے ۔

اس سے قبل بھی متعدد مواقع پر ایران بھر میں سلیمانی کی تصاویر اور ان کے مجسمے نذرِ آتش کیے جا چکے ہیں۔

ایرانی عدلیہ کی جانب سے گزشتہ ماہ میں گرفتار ہونے والے 20,000 احتجاج کنندگان کو رہا کیے جانے کے ایک ہی روز بعد، حکومت نے اعلان کیا کہ پولیس نے آگ کے تہوار کے جشن پر "درجنوں احتجاج کنندگان" کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایک ایران اساسی عمرانیات کے پروفیسر نے المشرق کو بتایا کہ ایران احتجاج کی قوت اور طوالت عوام کی ناراضگی اور غصہ کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت اس بارے میں قطعی طور پر کچھ نہیں کر سکتی، چاہے وہ مزید افراد کو حراست میں لے لے،" انہوں نے کہا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500