دہشتگردی

داعش کے پے در پے حملوں کے بعد افغان شہر چوکس

از پاکستان فارورڈ

11 مارچ کو ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب میں بم دھماکے کے بعد زخمی صحافیوں کو ایک گاڑی پر افغانستان کے مزار شریف میں ایک ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

11 مارچ کو ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب میں بم دھماکے کے بعد زخمی صحافیوں کو ایک گاڑی پر افغانستان کے مزار شریف میں ایک ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

کابل -- مزار شریف "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے دو دہشت گرد حملوں سے لرز رہا ہے جن میں افغان شہر کو تیزی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

داعش نے اتوار (12 مارچ) کے روز ایک بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں ہفتے کے روز ذرائع ابلاغ کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں تین افراد جاں بحق اور صحافیوں اور بچوں کا ایک گروہ زخمی ہو گیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں تبیان ثقافتی مرکز پر حملے میں ایک سیکیورٹی گارڈ جاں بحق جبکہ متعدد صحافی اور تین بچے زخمی ہوئے۔

افغان انڈیپنڈنٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن (اے آئی جے اے) کے مطابق، صحافی حسین نادری اور اکمل نامی صحافت کا ایک طالب علم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔ اس نے بتایا کہ مزید 14 میڈیا کارکن زخمی ہوئے۔

11 مارچ کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک ثقافتی مرکز میں ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب میں بم دھماکے سے کچھ لمحے پہلے بچے گانا گا رہے ہیں۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

11 مارچ کو افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک ثقافتی مرکز میں ذرائع ابلاغ کی یادگاری تقریب میں بم دھماکے سے کچھ لمحے پہلے بچے گانا گا رہے ہیں۔ [عاطف آریان/اے ایف پی]

داعش کی خراسان شاخ (داعش-کے) کی پراپیگنڈہ ایجنسی اعماق کے مطابق، یہ حملہ ایک "پارسل بم" کی وجہ سے ہوا جسے داعش کے جنگجو اس تقریب میں رکھنے اور اڑا دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔.

بیان میں کہا گیا، "دھماکے میں ایک شیعہ مرکز کے اندر اُن کئی صحافیوں کو انعام سے نوازنے کے لیے منعقدہ ریلی کو نشانہ بنایا گیا تھا جو داعش کے خلاف جنگ اور لوگوں کو اکسانے میں ملوث ایجنسیوں میں کام کر رہے تھے"۔

دھماکے میں زخمی ہونے والے افغان صحافی عاطف آریان نے بتایا کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب بچوں کا ایک گروہ ترانہ گا رہا تھا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "میں نے ایک بڑے زوردار دھماکے کی آواز سنی... پھر افراتفری مچ گئی کیونکہ ہر کوئی بھاگنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں تھا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "چند صحافی شدید زخمی ہیں"۔

ہفتے کے روز ہونے والا یہ بم دھماکا داعش کے ایک خودکش بمبار کے مزار شریف میں واقع ان کے دفتر میں صوبہ بلخ کے گورنر کو ہلاک کرنے کے صرف دو دن بعد ہوا ہے۔

وسیع پیمانے پر مذمت

افغان صحافیوں اور بچوں کو نشانہ بنانے والے تازہ ترین حملے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی اور حفاظتی اقدامات بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا۔

اے آئی جے اے نے ایک بیان میں کہا کہ صحافی افغان عوام کی حقیقی آواز ہیں۔ صحافیوں کی زندگیوں پر حملہ آزادیٔ اظہار اور افغان عوام پر حملہ ہے۔

کمیٹی برائے تحفظِ صحافیان کے ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر بہ لیہ یی نے کہا، "بہادر افغان صحافی پہلے ہی انتہائی مشکل حالات میں فرائض ادا کر رہے ہیں"۔

صحافیوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کے دوران صحافیوں کو نشانہ بنانا قابلِ نفرت اور بزدلانہ فعل ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے بھی "صحافیوں پر نفرت انگیز حملے" کی مذمت کرتے ہوئے مزید کہا، "افغان رپورٹرز بے پناہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے"۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے کہا، "صحافیوں پر یہ حملہ افغانستان میں آزادیٔ اظہار کے لیے ایک اور دھچکا ہے اور تحفظ میں اضافہ ضروری ہے"۔

افغانستان میں یورپی یونین کی ناظم الامور رافیلہ آیوڈس نے کہا، "اس فساد کو روکنے کی ضرورت ہے۔ صحافی اپنے کام کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ وہ نشانہ نہیں ہوتے!"

افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ نے کہا کہ وہ "تبیان ثقافتی مرکز میں صحافیوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے سے شدید غمزدہ ہیں"۔

انہوں نے ٹویٹ کیا، "ہم تشدد کی ان مسلسل، جنونی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم افغان عوام کی لچک اور بحالی کی ان کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں"۔

افغان صحافیوں نے بھی اپنے کام میں تحفظ کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک صحافی مصطفیٰ شہریار نے طلوع نیوز کو بتایا، "اگر صحافیوں کو کئی دیگر مسائل کے علاوہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے"۔

ایک اور صحافی، رقیب فیاض نے کہا، "یہ انتہائی تشویشناک ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ "صحافیوں کی حفاظت کے لیے ایک واضح طریقۂ کار کی ضرورت ہے"۔

داعش کے حملوں میں اضافہ

تقریباً ڈیڑھ سال قبل سے افغانستان بھر میں داعش کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے.

ایس آئی ٹی ای انٹیلیجنس گروپ، جو دہشتگرد نیٹ ورکس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق داعش-خراسان نے اگست 2021 سے اگست 2022 کے درمیان افغانستان میں 224 دہشت گرد حملے کیے ہیں۔

11 جنوری کو، داعش کے ایک خودکش بمبار نے کابل میں وزارتِ خارجہ کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس میں حکام اور عینی شاہدین کے مطابق، کم از کم پانچ افراد جاں بحق اور 40 دیگر زخمی ہوئے۔

دسمبر میں، کم از کم پانچ چینی شہری اس وقت زخمی ہوئے جب داعش کے بندوق برداروں نے کابل میں چینی تاجروں میں مشہور ہوٹل پر دھاوا بول دیا۔

اسی مہینے، داعش نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس کی اسلام آباد نے اپنے سفیر پر "قاتلانہ حملے کی کوشش" کے طور پر مذمت کی۔

30 نومبر کو سمنگان کے صوبائی دارالحکومت ایبک میں ایک مدرسے میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 16 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوئے۔ ایک مقامی معالج کے مطابق "یہ سب بچے اور عام لوگ ہیں"۔

اکتوبر میں، کابل میں وزارتِ داخلہ کے گراؤنڈ میں ایک مسجد پر حملے میں چار افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے تھے، بچ جانے والوں نے بتایا کہ یہ ایک خودکش دھماکہ تھا۔

داعش نے 5 ستمبر کو کابل میں روسی مشن کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں روسی سفارت خانے کے عملے کے دو ارکان جاں بحق ہوئے تھے.

اسی مہینے، کم از کم 54 افراد -- بشمول 51 لڑکیاں اور نوجوان خواتین -- اس وقت جاں بحق ہو گئے جب ایک خودکش بمبار نے کابل میں کاج اعلیٰ تعلیمی مرکز میں ایک دیسی بم سے دھماکہ کیا تھا۔

اس بم دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تاہم افغان حکام نے بعد میں داعش کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

أحسنتم

جواب

دائش پر افغان حکومت نے ہلکا ھاتھ صرف مزار شریف تک رکھا ہے۔ مزار شریف کی آبادی شیعہ ہے اور طالبان نے دائش کو صرف اور صرف یہیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی چھٹی دے رکھی ہے۔

جواب