مشاہدین کا کہنا ہے کہ چین کے اندر حالیہ احتجاج کی تعداد اور شدت – اور یہ حقیقت کے پہلے تو یہ وقوع پذیر ہی ہوئے – چینی شہریوں کے مابین عدم اطمینان کے بڑھتے ہوئے درجہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
حال ہی میں فروری کے وسط میں وُوہان، چین میں ابتدائی طور پر سبک دوش چینیوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔
سینکڑوں بزرگ شہری یہ مطالبہ کرنے کے لیے گلیوں میں نکل آئے کہ حکام ان کے طبّی بیمہ میں اصلاحات کے منصوبے کو واپس لیں، جن کے نتیجہ میں بیمہ صارف کو ماہانہ ادائگیوں میں شدید کمی آئی۔
ویڈیو ریکارڈنگز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں باوردی پولیس ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن بزرگوں نے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ قریبی مظاہرین نے "دی انٹرنیشنل" جیسے نغمے بھی گائے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ کمیونسٹ پارٹی اپنی نظریاتی جڑوں سے ہٹ رہی ہے۔
عینی شاہدین نے خبر دی کہ پولیس نے متعدد احتجاج کنندگان کو ذدوکوب کیا۔ ایک نامعلوم تعداد کو مشتبہ الزامات پر گرفتار کیا گیا۔
یہ احتجاج بڑے پیمانے کے اس احتجاج کے چند ہی ماہ بعد سامنے آیا جو حرکت، سفر اور معاشرتی تعامل سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر چین بھر میں بھڑک اٹھا۔
یہ احتجاج گزشتہ نومبر میں شمال مغربی ژنجیانگ خطے میں آتشزدگی کی وجہ سے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کی بالائی منازل کے تباہ ہو جانے کے بعد شروع ہوئے، جبکہ متعدد نے دعویٰ کیا کہ متاثرین کو اس لیے بروقت نہ بچایا گیا کیوںکہ وہ مسلمان تھے۔
بیجنگ پر شدّت پسندی کے خلاف ایک برس طویل کریک ڈاؤن کے جزُ کے طور پر حراستی مراکز اور جیلوں کے ایک خفیہ نیٹ ورک میں ایک ملین سے زائد یوگر اور بعید مشرقی خطے کے دیگر مسلمان اکثریتی ترک الزبان باشندوں کو زیرِ حراست رکھنے کا الزام ہے ۔
لیکن مظاہرین نے وسیع تر سیاسی اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا، جبکہ چند نے اعلیٰ قیادت کو مستعفی ہونے کا بھی کہا۔
ایک وقت وانگ ڈان، جسے جیل میں رکھا گیا اور 1989 میں تیانانمین جمہوریت موافق تحریک کے کچلے جانے کے بعد رہا کر دیا گیا، نے کہا تھا کہ یہ ترقی "احتجاج کے نئے دور" کی علامت ہو سکتی ہے۔
احتجاج کنندگان میں کسی منتظم یا رہنما کی غیر موجودگی حکومت کے لیے کسی فردِ واحد کو دبا کر یا گرفتار کر کے مظاہروں کو قابو میں لانا مشکل بنا رہی ہے۔
'احساسِ محرومی'
چند ہی ماہ میں "سفید کاغذ کے انقلاب" سے "سفید بالوں والوں کے احتجاج" تک جو چینی 1989 سے اب تک آواز اٹھانے سے خوفزدہ تھے، اپنے عدم اطمینان کے عوامی سطح پر اظہار کے زیادہ سے زیادہ عادی ہوتے جا رہے ہیں۔
متعدد مشاہدین پوچھ رہے ہیں کیوں۔
سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں ایک ماہرِ معاشرتی علوم اور چین کے ایک سکالر منگ ژیا نے کہا کہ عمرانیاتی نقطۂ نگاہ سے تازہ ترین احتاج کی وجہ "احساسِ محرومی" ہے۔
"عمومی طور پر بات کی جائے تو جن لوگوں سے بغاوت کا امکان ہوتا ہے وہ ان میں سے نہیں ہوتے 'جنہیں ذلیل کیا جاتا ہے یا جن پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے'، کیوںکہ جو سب سے زیادہ کمزور، بلا سہارا، معاشرتی و معاشی وسائل کے بغیر ہوتے ہیں، بیماری اور بھوک کے سامنے ان کے احتجاج کے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔"
ژیا نے کہا کہ اصل میں یہ اس لیے ہے کہ احتجاج کرنے والے سبک دوش افراد نے کبھی نظام سے فائدہ حاصل کیا اور وہ ادائگیوں میں کسی بھی قسم کی کمی کی وجہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے پاس ابھی بھی وسائل ہیں اور وہ مکمل طور پر غربت اور بھوک میں نہیں گرے، جس سے ان سبک دوش افراد کو ایک خاص مقدار میں اعتماد حاصل ہوتا ہے۔ اگر ان کے فوائد کم کر دیے جائیں، انہیں ناانصافی اور محرومی کا ایک شدید احساس ہو گا۔ ان کے اس کے خلاف لڑنے کے امکانات ہیں۔"
ژیانگ نے کہا کہ جن بزرگان نے احتجاج میں شرکت کی وہ حالیہ برسوں میں نسبتاً مطمئن رہے ہیں۔ اچانک محرومی کے احساس نے ان میں مزاحمت کو بھڑکا دیا ہو گا۔
"چین میں، خواہ مسئلہ طبّی بیمہ کو ہو یا پینشن کا، یہ ایک ملک گیر رجحان ہے۔ ریاستی مالی معاونت کی رسد کم ہے، اور مقامی حکومتوں کے قرضے بھاری ہیں۔ مرکزی حکومت نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ مقامی مالیات کی ادائگی نہیں کرے گی۔ اگر مقامی مالیات نسبتاً اچھی حالت میں ہیں، تو وہ ]مقامی حکومتیں[ کچھ عرصہ تک قائم رہ سکتی ہیں، لیکن اگر ان کی حالت خراب ہے تو دباؤ بہت زیادہ ہے۔"
اس کے ساتھ ساتھ، "آبادی کی عمر" چینی معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور یہ بھی ان بزرگ شہریوں کی زندگیوں پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔
ژیا نے کہا، "اپنی 50ویں یا 60ویں دہائی میں اکثر بزرگوں کے ایک ہی بچہ ہے، پورے معاشرے پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جب بزرگ شہریوں کو کسی بحران کا سامنا ہوتا ہے، تو ان کے پاس خاندان کے اندر کوئی حل تلاش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔"
پریشان کن خارجہ پالیسی رجحانات
جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے، ہو سکتا ہے کہ چند چینی شہری دنیا بھر میں اپنی حکومت کی جانب سے جارحیت کے بڑھتے ہوئے مظاہرے کی وجہ سے بھی تنگی محسوس کرتے ہوں۔
تائیوان کو چین کی اشتعال انگیزی اور دھمکیاں حالیہ مہینوں میں مزید واضح ہو گئی ہیں، اور یوکرین پر روس کے حملے نے تائیوان میں ان پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بیجنگ بھی اس جزیرے کو اپنے اندر ضم کرنے کے لیے اسی طرح کی کاروائی کرے۔
بیجنگ خودمختار جمہوری تائیوان کو اپنے علاقۂ عملداری کا ایک حصّہ تصور کرتا ہے، جسے ایک روز – اگر ضرورت پڑی تو بزورِ قوت—حاصل کر لیا جائے گا اور یہ جزیرہ چینی حملے کے مسلسل خوف میں رہتا ہے۔
اے ایف پی کی ڈیٹا بیس کے مطابق 2022 میں 2021 کے 969 حملوں سے بڑھ کر چین نے تائیوان کے فضائی دفاع کے شناختی علاقہ (اے ڈی آئی زیڈ) میں 1,700 حملے کیے ۔ تائیوان کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس نے 2020 میں 380 حملے ریکارڈ کیے۔
تائیوان کے گرد کے پانیوں میں چین کی عسکری مشقوں – جن میں سے تازہ ترین 8 جنوری کو منعقد ہوئیں – نے بھی عالمی بحری راستوں کو متاثر کیا ہے۔
درایں اثناء، چین اور جاپان کے درمیان تناؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کیوںکہ بیجنگ مشرقی بحیرۂ چین میں جاپان کے زیرِ انتظام غیر آباد سلسلہ، جزائر سینکاکو کا دعویدار ہے۔
چین تقریباً تمام تر جنوبی بحیرۂ چین کا بھی دعویدار ہے، جس کے ذریعے سالانہ کھربوں ڈالر کی تجارت گزرتی ہے، جبکہ اس کے مقابلہ میں برونائی، ملائشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام کے بھی دعوے ہیں۔