نمروز -- صوبہ نمروز کے صدر مقام زرنج کا مرکزی حلقہ، اکٹھا ہونے کے ایک مرکزی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں افغان نوجوان، غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کرنے سے پہلے، روزانہ اکٹھے ہوتے ہیں۔
نوجوان، جن میں نوعمر افراد اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں، غیر قانونی طور پر ایران جانے کے لیے، دوسرے صوبوں سے انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں اور اسمگلروں کی مدد سے، نمروز آتے ہیں۔
اگرچہ نمروز سے ایران جانے والے افغانوں کی صحیح تعداد کے بارے میں واضح معلومات موجود نہیں ہے، لیکن مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ہر روز تقریباً 1,000 افراد، غیر قانونی طور پر ایران جانے سے پہلے، صوبے میں داخل ہوتے ہیں۔
بے روزگاری، غربت اور نامعلوم مستقبل کا خوف ان کی نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔
قندوز کے رہائشی 23 سالہ نبی اللہ، جنہوں نے 20 فروری کو زرنج کا سفر کیا تھا، نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر ایران جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے لیے اور ان کے نوجوان دوستوں کے لیے، ہجرت ہی واحد قابل عمل انتخاب ہے۔
"افغانستان میں کوئی کام نہیں ہے اور معاشی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے کام کرنے اور اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کے لیے ایران جانا چاہیے۔ ہمارے معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں اور میرے پاس ملک چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "میں دیگر 15 نوجوانوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ اقتصادی بحران کے باعث ہوٹل کا کاروبار سست پڑ گیا ہے اور ہم میں سے 13 کو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔"
نبی اللہ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ ایران جاتے ہوئے راستے میں فوت بھی ہو سکتا ہے لیکن اس نے مزید کہا کہ اسے بے روزگاری اور معاشی مشکلات سے بچنے کے لیے خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔
صوبہ ہرات کے ضلع گوزارہ کے رہائشی نثار احمد جن کی عمر 15 سال ہے، نے 20 فروری کو سلام ٹائمز کو بتایا کہ وہ زرنج شہر میں کسی ایسے شخص کو تلاش کر رہے ہیں جو ان کے گروپ کو ایران لے جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب میں غیر قانونی راستے سے ایران جا رہا ہوں۔ میں خوفزدہ ہوں اور سفر میں میرے ساتھ میرا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں زندہ ایران پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "میرے والد ایک کسان ہیں۔ اس سال خشک سالی کی وجہ سے ہماری فصل اچھی نہیں ہوئی۔ ہم نے زیادہ کمائی نہیں کی ہے اور ہم غربت میں ڈوب گئے ہیں۔ میرے والد نے مجھے ایران بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔"
گمشدہ تمنائیں
بہت سے ایسے افغان نوجوان جنہوں نے اپنا ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے، تعلیم یافتہ ہیں۔
ایمل پسرلائی جن کی عمر 21 سال ہے، ان میں سے ایک ہیں۔
پسرلائی کا تعلق ننگرہار سے ہے اور انہوں نے دو سال قبل ننگرہار یونیورسٹی کے اسکول آف سائنس سے گریجویشن کی تھی لیکن اس کے بعد سے وہ نوکری تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "نوجوان اور تعلیم یافتہ افغانوں کے لیے روزگار کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ میں نے اپنی پوری زندگی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے وقف کر دی لیکن میرے پاس [ایران ہجرت کرنے کے علاوہ] کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔"
پسرلائی نے کہا کہ "مجھے امید ہے کہ میں غیر قانونی راستے سے بحفاظت ایران پہنچ جاؤں گا اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے روزی کما سکوں گا۔"
انہوں نے کہا کہ بہت سے پڑھے لکھے افغان نوجوانوں کے پاس ملک چھوڑنے اور غیر قانونی راستوں سے پڑوسی ممالک کا سفر کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
صوبہ کابل کے قرہ باغ ضلع کے رہائشی 22 سالہ معروف نے تین سال قبل کابل یونیورسٹی سے گریجویشن کی تھی۔ وہ زرنج شہر کے ایک ہوٹل میں رہ رہا ہے اور اس نے کہا کہ وہ غیر قانونی طور پر ایران جانے کی تیاری کر رہا ہے۔
معروف نے 19 فروری کو کہا کہ اس نے نوکری تلاش کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن اب وہ اپنا گھر اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "میں ایران اور وہاں سے ترکی جانا چاہتا ہوں۔ یہ سفر بہت خطرناک ہے اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اپنی آخری منزل تک زندہ پہنچ سکوں گا۔"
معروف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "میں ایک تعمیراتی ادارے میں کام کرتا تھا لیکن معاشی بحران کی وجہ سے وہ بند ہو گیا ہے۔ مجھے اپنی ملازمت کھوئے ہوئے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ میرے پاس ہجرت کر کے ملازمت تلاش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تاکہ میں اپنے خاندان کی کفالت کر سکوں"۔
انہوں نے کہا کہ اپنا آبائی ملک چھوڑنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا اور وہ اپنے خاندان سے الگ رہنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ تاہم، بے روزگاری اور غیر یقینی صورتحال نے اسے خطرناک راستوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
خطرناک سفر
انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے، ایران جانے کے لیے جو راستہ استعمال کرتے ہیں وہ دشوار گزار اور خطرناک خطوں سے گزرتا ہے۔
نمروز سے وہ پہلے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں اور پھر پہاڑوں کے راستے سے پیدل چلتے ہوئے ایران میں داخل ہوتے ہیں۔ سڑکیں خطرناک ہیں اور اکثر وہاں مسلح ڈاکو موجود ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں، ایرانی فوجی بھی گشت کر رہے ہوتے ہیں۔
غزنی صوبہ کے مقور ضلع کے رہائشی محمد نبی، جن کی عمر 23 سال ہے اور جنہوں نے خود بھی 20 فروری کو شروع ہونے والے سفر میں شمولیت اختیار کی تھی، نے بتایا کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے لوگ جس راستے سے ایران جاتے ہیں وہ پہاڑی ہے اور وہاں پر مسافروں کے لیے موت ہمیشہ چھپی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ہم سے بھاری رقم لیتے ہیں لیکن ہماری جان ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ وہ 20 سے 25 لوگوں کو ایک ٹویوٹا میں لاد کر میدانی اور پہاڑی علاقوں میں تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہیں۔"
نبی نے کہا کہ "جب ہم پاکستان پہنچتے ہیں تو ہمیں ایران میں داخل ہونے کے لیے پہاڑوں کے درمیان 24 گھنٹے تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ وہاں نہ پانی ہے اور نہ ہی روٹی اور کچھ ایسے بچے اور بوڑھے جو قافلے سے پیچھے رہ جاتے ہیں، اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ افغان نوجوان بے روزگاری اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی وجہ سے جان لیوا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
صوبہ ہرات کے ضلع شیندند کے رہائشی 26 سالہ سید احمد حسینی نے صوبہ نمروز سے اس وقت بات چیت کی جب کہ وہ ایک سال میں ایران پہنچنے کے لیے دوسری بار کوشش کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
اپنے پہلے سفر میں وہ ایران کے شہر کرمان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
انہوں نے چار ماہ تک ایران میں کام کیا لیکن بعد میں ایرانی پولیس نے اسے حراست میں لے کر ملک بدر کر دیا۔
انہوں نے نے بے روزگاری سے بچنے کے لیے، ایک بار پھر غیر قانونی طور پر ایران جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میں غیر قانونی طور پر سفر کرنے کے خطرات اور کسی بھی لمحے موت کا شکار ہونے کے امکان سے آگاہ ہوں لیکن میرے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ہر لمحے ۔۔۔ تشدد کا نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی مر جایا جائے۔"
"میں مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ایران جاتا ہوں۔ افغان معیشت تباہ ہو چکی ہے اور یہاں کسی کو نوکری نہیں مل سکتی۔ جب روزگار کے مواقع نہیں ہوتے تو نوجوان پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔"