سفارتکاری

چین کی یوکرین جنگ میں خود کو 'غیر جانبدار' ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش پر ملامت

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

روسی صدر ولادیمیر پوٹن، 22 فروری کو ماسکو میں چین کے دفتر برائے مرکزی خارجہ امور کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی (انتہائی بائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [انتون نووڈیریزکن/اسپوتنک/اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پوٹن، 22 فروری کو ماسکو میں چین کے دفتر برائے مرکزی خارجہ امور کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی (انتہائی بائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [انتون نووڈیریزکن/اسپوتنک/اے ایف پی]

بیجنگ -- یوکرین پر روس کے حملے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر، چین نے ایک متنازعہ عہدے کے ساتھ، تنازعہ پر ہونے والی بات چیت میں خود کو داخل کرنے کی کوشش کی ہے اور خود کو ایک ایسے "غیر جانبدار" ثالث کے طور پر تجویز کیا ہے جو جنگ کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جمعہ (24 فروری) کو جاری ہونے والی چین کی 12 نکاتی دستاویز میں زیادہ تر تنازعے پر بیجنگ کے موجودہ موقف کا اعادہ کیا گیا ہے، جبکہ کریملن کے حامی ملک کو ایک غیر جانبدار فریق کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور دونوں فریقوں پر امن مذاکرات میں داخل ہونے پر زور دیا گیا ہے۔

یہ دستاویز جو کہ حملے کی سالگرہ کے موقع پر سامنے آئی ہے، میں تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ "وہ ایک ہی سمت میں کام کرنے اور جلد از جلد براہ راست بات چیت دوبارہ شروع کرنے میں، روس اور یوکرین کی حمایت کریں"۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے تنازع میں ماسکو کے جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی دھمکی کے بعد، اس دستاویز میں نہ صرف جوہری ہتھیاروں کے استعمال بلکہ ان کی تعیناتی کی دھمکی کے خلاف، اپنی مخالفت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

زائرین 28 ستمبر 2021 کو چین کے شہر زوہائی میں 13ویں چائنا انٹرنیشنل ایوی ایشن اور ایرو اسپیس نمائش میں چینی فضائیہ کے ڈبلیو زیڈ -7 ڈرون کے سامنے تصاویر لے رہے ہیں۔ ڈیراسپیگل نے اس ہفتے خبر دی ہے کہ چین، روس کو ڈرون فراہم کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ [نوئیل سیلس/اے ایف پی]

زائرین 28 ستمبر 2021 کو چین کے شہر زوہائی میں 13ویں چائنا انٹرنیشنل ایوی ایشن اور ایرو اسپیس نمائش میں چینی فضائیہ کے ڈبلیو زیڈ -7 ڈرون کے سامنے تصاویر لے رہے ہیں۔ ڈیراسپیگل نے اس ہفتے خبر دی ہے کہ چین، روس کو ڈرون فراہم کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔ [نوئیل سیلس/اے ایف پی]

دستاویز کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ "تمام ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھا جانا چاہیے"۔

لیکن چین نے اس بات کو واضح کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے کہ اس کا یوکرین کی جنگ کی مخصوص تفصیلات سے کیا تعلق ہے، جو اس وقت شروع ہوئی جب ماسکو کی افواج نے اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ اس دستاویز پر ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ "یہ اپنے پہلے ہی نقطہ پر رک سکتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یوکرین روس پر حملہ نہیں کر رہا تھا۔ نیٹو روس پر حملہ نہیں کر رہا تھا۔ امریکہ روس پر حملہ نہیں کر رہا تھا"۔

انہوں نے سی این این کو بتایا کہ جنگ "کل ختم ہو سکتی ہے اگر روس یوکرین پر حملہ بند کر دے اور اپنی افواج کو واپس بلا لے"۔

'غیر جانبداری' کی تعریف کریں

جہاں چین نے یوکرین کی "مکمل خودمختاری" کا دفاع کیا ہے وہاں وہ روس کے اپنے پڑوسی ملک پر حملے، بار بار کیے جانے والے روسی پروپیگنڈ اور جنگ کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کی مذمت کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے ان مغربی اقتصادی پابندیوں کی سختی سے مخالفت کی ہے جن کا مقصد کریملن کی، اپنی جنگی کارروائیوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی اہلیت کو روکنا ہے۔

بیجنگ کے غیرجانبداری کے دعوے پر، امریکہ اور یوکرین کے دیگر اتحادیوں نے سوال اٹھایا ہے جبکہ روس اور چین نے حملے سے چند ہفتے قبل اپنے دوطرفہ تعلقات کو بیان کرتے ہوئے انہیں "لامحدود" قرار دیا تھا۔

نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے جمعے کے روز ایسٹونیا کے شہر تالن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ "چین کی طرف سے پیش کردہ تجاویز اور نکات پر، سب سے پہلے: چین کی ساکھ زیادہ مضبوط نہیں ہے کیونکہ وہ یوکرین پر غیر قانونی حملے کی مذمت کرنے میں ناکام رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اور انہوں نے حملے سے چند دن پہلے روس کے ساتھ ایک لامحدود شراکت داری کے معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔"

جرمنی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ اگرچہ "ہر ایسی تعمیری تجویز جو ہمیں منصفانہ امن کے راستے پر قریب لاتی ہے، انتہائی خوش آئند ہے... اس بارے میں شکوک موجود ہیں کہ کیا عالمی طاقت چین، اس طرح کا تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے یا نہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین کو "صرف ماسکو کے ساتھ ہی نہیں بلکہ کیئف کے ساتھ بھی بات کرنی چاہیے"۔

بدھ کے روز، اعلیٰ چینی سفارت کار وانگ یی نے ماسکو میں، پوٹن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ جنگ سے متعلق بات چیت کی۔

دونوں فریقوں نے کہا کہ انہوں نے تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی طریقوں پر بات چیت کی ہے اور روس نے چین کے "متوازن نکتہِ نظر" کا خیرمقدم کیا ہے۔

لیکن جب اقوام متحدہ (یو این) نے جمعرات کو ووٹوں کی بھاری اکثریت سے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین سے "فوری طور پر" اور "غیر مشروط طور پر" اپنی فوجیں واپس بلائے، تو چین نے ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا۔

جمعہ کو بیجنگ میں ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں، یوکرین اور یورپی یونین (ای یو) کے سفارت کاروں نے، چین پر زور دیا کہ وہ روس پر تنازع کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔

چین میں یورپی یونین کے سفیر جارج ٹولیڈو نے کہا کہ بیجنگ پر، امن کو برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے "خصوصی ذمہ داری" عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کیا یہ غیر جانبداری کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، مجھے علم نہیں ہے؛ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ غیر جانبداری کا کیا مطلب ہے"۔

چین کی نکتہِ نظر کی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام فریقوں کو "سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کر دینا چاہیے" جو کہ چینی سفارت کاری کا ایک مستقل نعرہ ہے۔

نیٹو پر، پوشیدہ طور پر کی جانے والی تنقید میں، مقالے نے اس بات کی پر زور دیا کہ "کسی خطے کی سلامتی، فوجی بلاکس کو مضبوط کر کے یا انہیں توسیع دے کر حاصل نہیں کی جانی چاہیے" اور یہ کہ "تمام ممالک کے جائز سیکورٹی مفادات اور خدشات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے"۔

اس نکتہِ نظر کو تائیوان میں، چین کے عزائم کے تحفظ کے لیے ایک پردے کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔

بیجنگ خود مختار، جمہوری تائیوان کو اپنی سرزمین کا ایک حصہ سمجھتا ہے، جسے ایک دن -- ضرورت پڑنے پر طاقت سے لے لیا جائے گا -- اور یہ جزیرہ چینی حملے کے مسلسل خوف میں رہتا ہے۔

روس کو مسلح کرنا

جب سے روسی ٹینک، یوکرین کی سرحد پار کر کے ملک کے اندر داخل ہوئے ہیں، چین نے پوٹن کو سفارتی اور مالی مدد کی پیشکش کی ہے لیکن وہ واضح فوجی مداخلت یا مہلک ہتھیار بھیجنے سے گریز کرتا رہا ہے۔

واشنگٹن نے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہ چین روس کو ہتھیار فراہم کرنے کا منصوبہ بنا سکتا ہے، دعویٰ کیا ہے کہ شاید اب تبدیلی آنے والی ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس ایک چینی ڈرون بنانے والے ادارے کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ وہ خود کو دھماکہ خیز ڈرون فراہم کر سکے جو کہ یوکرین میں تعینات کیے جا سکتے ہیں جس سے بیجنگ کا مبینہ طور پر "غیر جانبدار" موقف مزید کمزور ہو جائے گا۔

جرمن رسالے ڈیر سپیگل نے جمعہ کو خبر دی کہ اس نے ایسی معلومات دیکھی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی فوج، چینی ڈرون بنانے والی کمپنی ژیان بنگو انٹیلیجنٹ ایوی ایشن ٹیکنالوجی کے ساتھ، ماسکو کے لیے بڑے پیمانے پر، خود سے دھماکہ کرنے والے، ڈرون تیار کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی کارخانہ دار نے اپریل 2023 تک روس کو فراہم کرنے سے پہلے ایک سو، زیڈ ٹی -180 پروٹوٹائپ ڈرون بنانے اور ان کی جانچ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ہر ڈرون مبینہ طور پر 35 سے 50 کلو گرام دھماکہ خیز مواد لے جانے کے قابل ہے۔

اس میں کہا گیا کہ یہ ڈرون، ایران کے شہید- 136 ڈرون سے ملتا جلتا ہے، جس سے روس نے یوکرین پر ان گنت حملے کیے ہیں۔

ایک اگلے قدم کے طور پر، بینگو مبینہ طور پر روس کو پرزے بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور ماسکو کو ایک ماہ میں 100 تک ڈرون بنانے کا علم بھی دے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500