جرم و انصاف

ایران میں القاعدہ رہنماء کی موجودگی ملی بھگت کا ثبوت

از پاکستان فارورڈ

21 فروری کو تہران کے ایک تجارتی علاقے میں لوگ چہل قدمی کر رہے ہیں۔ [عطاء کنارے/ اے ایف پی]

21 فروری کو تہران کے ایک تجارتی علاقے میں لوگ چہل قدمی کر رہے ہیں۔ [عطاء کنارے/ اے ایف پی]

ایک بار پھر، القاعدہ کے ساتھ ایران کی ملی بھگت اقوام متحدہ (یو این) کی ایک رپورٹ کے بعد منظر عام پر آئی ہے، جس میں القاعدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار سیف العدل کا نام لیا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تنظیم کے عملی اور بلا مقابلہ امیر کی حیثیت سے ایران میں موجود ہے۔

القاعدہ کے سابق امیر ایمن الظواہری کی گزشتہ جولائی میں افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد، گروپ نے کبھی بھی ان کی موت کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اس نے سرکاری طور پر کسی جانشین کا نام ظاہر کیا ہے۔

اقوام متحدہ (یو این) کے مطابق، العدل، مصر کی سپیشل فورسز کا ایک سابق افسر اور اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی ہے، جس کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام ہے، اسے سرکاری طور پر امیر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے زیادہ تر رکن ممالک کو شبہ ہے کہ القاعدہ کی خاموشی کے پیچھے ایک "اہم عنصر" شیعہ اکثریتی ایران میں العدل کی مسلسل موجودگی ہے۔

سیف العدل امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی 'انتہائی مطلوب' دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔[ایف بی آئی/اے ایف پی]

سیف العدل امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی 'انتہائی مطلوب' دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔[ایف بی آئی/اے ایف پی]

9 جون 2006 کو نشر ہونے والی ایک ویڈیو سے حاصل کردہ تصویر میں ایمن الظواہری کو ایک نئی ویڈیو ٹیپ میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے ایک دن بعد امریکہ اور اردن کی مشترکہ کارروائی میں عراق میں القاعدہ کے سربراہ ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ الظواہری مبینہ طور پر 2022 میں کابل میں امریکی حملے میں مارا گیا تھا۔ [الجزیرہ/اے ایف پی]

9 جون 2006 کو نشر ہونے والی ایک ویڈیو سے حاصل کردہ تصویر میں ایمن الظواہری کو ایک نئی ویڈیو ٹیپ میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس کے ایک دن بعد امریکہ اور اردن کی مشترکہ کارروائی میں عراق میں القاعدہ کے سربراہ ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت ہوئی تھی۔ الظواہری مبینہ طور پر 2022 میں کابل میں امریکی حملے میں مارا گیا تھا۔ [الجزیرہ/اے ایف پی]

واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ "اس سے القاعدہ کے لیے مشکل مذہبی اور عملی سوالات اٹھ گئے ہیں"، جو طویل عرصے سے شیعہ مسلمانوں کو مرتد کے طور پر دیکھتی رہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے 15 فروری کو کہا کہ "ہمارا اندازہ اقوامِ متحدہ سے ہم آہنگ ہے -- کہ القاعدہ کا نیا ڈی فیکٹو امیر سیف العدل ایران میں مقیم ہے"۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک کا غالب نظریہ یہ ہے کہ العدل اب گروپ کا امیر ہے، جو "ابھی کے لیے تسلسل کی نمائندگی کرتا ہے"۔

حیرت کی بات نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے اقوامِ متحدہ کے لیے نمائندے کے دفتر نے العدل کی ایران میں موجودگی کی تردید کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی جانب سے العدل کو باضابطہ طور پر اپنا امیر قرار نہ دینے کی ایک اور وجہ افغان حکام کے خدشات کے حوالے سے حساسیت سے باہر ہے، جنہوں نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ الظواہری کو گزشتہ سال کابل میں مار دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں زور دیا گیا، "اس کا محلِ وقوع ایسے سوالات کو جنم دیتا ہے جو داعش ['دولتِ اسلامیہ'] کے چیلنجوں کے پیشِ نظر عالمی تحریک کی قیادت پر زور دینے کے القاعدہ کے عزائم پر اثرانداز ہوتے ہیں"۔

شیعہ ایران کیوں؟

سنہ 1980 کی دہائی میں مصر میں اسلامی جہاد میں شامل ہونے کے بعد، العدل کو گرفتار اور پھر رہا کر دیا گیا تھا، آخر کار وہ افغانستان پہنچا اور القاعدہ میں شامل ہو گیا۔

انسدادِ انتہاء پسندی پراجیکٹ (سی ای پی) کے مطابق، اسے سنہ 2003 میں ایران میں گرفتار کیا گیا تھا اور سنہ 2015 میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا تھا۔ اس پر الظواہری کے اہم نائبین میں سے ایک کے طور پر سنہ 2018 میں ایران میں ہونے کا شبہ تھا۔

انسدادِ دہشت گردی کے ماہر علی صوفان کی طرف سے تحریر کردہ مبینہ دہشت گرد گروہ کے رہنماء کے شخصی خاکے کے مطابق، "سیف دنیا بھر میں جہادی تحریک کے سب سے تجربہ کار پیشہ ور سپاہیوں میں سے ایک ہے، اور اس کے جسم پر جنگ میں لگے زخموں کے نشان ہیں"۔

"جب وہ کارروائی کرتا ہے، تو بے رحمی سے کرتا ہے،" صوفان نے سی ٹی سی سینٹینل کے لیے سنہ 2021 کے ایک مضمون میں لکھا تھا، جو یو ایس ملٹری اکیڈمی میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے مرکز کی جانب سے شائع کیا گیا تھا۔

صوفان نے کہا کہ العدل کی ایران میں مسلسل موجودگی عملیت پسندی کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، "شیعہ حکمرانی کے تحت زندگی گزارنے کی کراہت آمیز ضرورت کے باوجود، العدل کے زندہ رہنے کا بہترین موقع، اور اسی وجہ سے جہاد میں مسلسل تاثیر، ایران واپسی میں ہی ہے"۔

ایران کے شیعہ حکمران سرکاری طور پر القاعدہ کی مخالفت کرتے ہیں، اس کے باوجود ایران پر بارہا الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ اس نیٹ ورک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور اس کے رہنماؤں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔

سی ای پی کے ڈائریکٹر ہنس جیکب شنڈلر کے لیے، العدل "ایک ذمہ داری ہے بلکہ ایرانی حکومت کے لیے ایک اثاثہ بھی ہے"۔

اپنے مفادات کے مطابق تہران اسے امریکہ کے حوالے کرنے یا اسے مغرب پر حملہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

سنہ 2017 میں القاعدہ کے ساتھ ایران کے تعلقات کے بارے میں، اس وقت کے امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے کہا، "تعلقات رہے ہیں، رابطے بھی ہیں۔ کئی بار ایرانیوں نے القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے"۔

امریکی محکمۂ خزانہ اور محکمۂ خارجہ کے ماضی کے جائزوں میں بارہا کہا گیا ہے کہ ایرانی حکومت القاعدہ کو اپنی سرزمین پر "بنیادی سہولت کاری پائپ لائن" کو برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔

دہشت گردوں کو پناہ دینے کی تاریخ

مصر میں اسلامی جہاد کے ایک بانی رکن نبیل نعیم، جنہوں نے انتہاء پسندی کو ترک کر دیا ہے، کے مطابق، القاعدہ اور ایران کے درمیان تعلقات اس دور میں شروع ہوئے جب بن لادن اس گروہ کا سربراہ تھا۔

اس نے سنہ 2018 میں المشارق کو بتایا کہ بن لادن کی موت کے بعد بھی یہ تعلق برقرار ہے۔

سنہ 2020 میں، القاعدہ کے سیکنڈ ان کمانڈ عبداللہ احمد عبداللہ -- عرف ابو محمد المصری -- کو تہران میں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کر دیا تھا۔

مبینہ طور پر ایرانی حکام نے اسے تہران کے ایک اعلیٰ مضافاتی علاقے میں برسوں تک تحفظ فراہم کیا۔

المصری، جس پر سنہ 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں اس کے سفارت خانوں پر بم دھماکوں کے الزامات کے سلسلے میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، کو سنہ 2020 کے موسم گرما میں تہران میں واشنگٹن کے حکم پر موٹر سائیکل پر سوار خفیہ اسرائیلی کارندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، نیو یارک ٹائمز نے اسی سال نومبر میں یہ خبر دی تھی۔

المصری القاعدہ کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ الظواہری کے بعد تنظیم کی قیادت کرنے والوں کی پہلی صف میں تھا۔

دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق، ایران میں المصری نے حمزہ بن لادن (اسامہ بن لادن کا بیٹا) کی سرپرستی کی، جسے تنظیم سنبھالنے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔

حمزہ سنہ 2019 میں افغانستان پاکستان کے علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائی میں مارا گیا تھا۔

پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے گھر سے سنہ 2017 میں برآمد ہونے والی دستاویزات کا ایک ذخیرہ مزید بتاتا ہے کہ ایرانی حکومت، خاص طور پر سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے القاعدہ کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔

آئی آر جی سی پر الزام ہے کہ اس نے بین الاقوامی حکام سے فرار ہونے پر القاعدہ کے عناصر کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کی ہے۔

نعیم کے مطابق، آئی آر جی سی کی ایلیٹ قدس فورس کے اس وقت کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی جو جنوری 2020 میں بغداد میں مارے گئے تھے، "آئی آر جی سی اور القاعدہ کے درمیان تعلقات کے معمار تھے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ سنہ 2008 میں شام میں مارے جانے سے پہلے، حزب اللہ کے فوجی کمانڈر عماد مغنیہ نے بھی "[القاعدہ] کے عناصر کو تربیت دینے میں، خاص طور پر بوبی ٹریپنگ اور بمباری کے طریقوں پر اہم کردار ادا کیا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے تعلقات آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلیجنس دونوں کے ساتھ مضبوط ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ "تعلق کی علامت اس وقت ظاہر ہوئی جب ایران نے القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن کے خاندان کی مہمان نوازی کی تھی"۔

نعیم نے کہا کہ دونوں فریق برسوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں، "آئی آر جی سی خود کو شیعوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کا دفاع کرنے والوں کے طور پر پیش کر رہی ہے، اور القاعدہ یہی حربہ سنی برادری کے ساتھ استعمال کر رہی ہے"۔

ایران مسلسل القاعدہ کے عہدیداروں کی رہائش کی تردید کرتا رہا ہے، لیکن تازہ ترین انکشافات کے ساتھ، جماعت کے اس مؤقف پر یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

صوفان سینٹر کے انسدادِ دہشت گردی کے تجزیہ کار کولن پی کلارک نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ "ایران فرقہ واریت کو اس وقت استعمال کرتا ہے جب وہ حکومت کے مفاد میں ہوتی ہے، لیکن جب یہ ایرانی مفاد میں ہو تو وہ سنی-شیعہ تقسیم کو نظر انداز کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500