حقوقِ انسانی

جبر کی برآمد: ایرانی پراکسیز تہران کے کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈوں کی مقلد

از ولید ابو الخیر

یمنی ایک عوامی چوک میں جمع ہیں جب حوثی 18 اکتوبر 2021 کو حوثیوں کے زیرِ تسلط المسیرہ ٹی وی چینل پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو کلپ کے سکرین شاٹ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔

یمنی ایک عوامی چوک میں جمع ہیں جب حوثی 18 اکتوبر 2021 کو حوثیوں کے زیرِ تسلط المسیرہ ٹی وی چینل پر پوسٹ کیے گئے ایک ویڈیو کلپ کے سکرین شاٹ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔

ایرانی حکومت کی جانب سے اپنی پالیسیوں کے اندرونِ ملک مخالفین کے خلاف جبر، استبداد اور من مانی سزاؤں کے استعمال کو اس کی پراکسیز نے بڑے پیمانے پر نقل کیا ہے، جو سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے علاقائی اور تزویراتی مطالعات کے مرکز کے محقق فتحی السید نے المشارق کو بتایا، "آئی آر جی سی کی جانب سے جبر اور قتل و غارت گری کا عمل نام نہاد اسلامی انقلاب کے اولین لمحات سے شروع ہوا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ برسرِ اقتدار حکومت نے "حزبِ اختلاف کی شخصیات کو من مانی سے ختم کرنے اور سفارت کاروں کے منظم اغواء" کو جاری رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی جیلوں اور حراستی مراکز کے اندر، "مناسب عدالتی طریقۂ کار یا حقیقی دفاعی وکلاء کے بغیر باقاعدگی سے پھانسیاں دی جاتی ہیں"۔

ایران کے سابق نائب وزیر دفاع علی رضا اکبری کو جنوری میں ایران میں ایک غیر ملکی ادارے کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ وہ 1 جنوری کو ایران وائر کی آن لائن پوسٹ کی گئی تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔

ایران کے سابق نائب وزیر دفاع علی رضا اکبری کو جنوری میں ایران میں ایک غیر ملکی ادارے کے لیے جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ وہ 1 جنوری کو ایران وائر کی آن لائن پوسٹ کی گئی تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔

السید نے کہا، "حتیٰ کہ انہوں نے مختلف قسم کی سزائیں بھی متعارف کروائیں، انگلیاں توڑنے کے لیے ایک آلہ ایجاد کیا اور عوامی چوکوں پر نصب کرینوں پر پھانسیاں دیں"۔

انہوں نے مزید کہا، "معاملات اس حد تک چلے گئے کہ ایک متاثرہ فریق کے رشتہ داروں کو سیکیورٹی فورسز کے پہرے میں خود ہی ملزم کو پھانسی دینے کی اجازت دی گئی"۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 29 جولائی کو ایک رپورٹ میں کہا کہ ایران کی اسلامی تعزیرات مختلف جسمانی سزائیں دیتا ہے جن میں اذیتیں دی جاتی ہیں، جن میں اعضاء کاٹنا، کوڑے مارنا، اندھا کرنا، مصلوب کرنا اور سنگسار کرنا شامل ہے۔

قانون کہتا ہے کہ چوری کی مخصوص قسموں کے لیے، مجرموں کے "دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں مکمل طور پر کاٹ دی جائیں گی تاکہ صرف ان کے ہاتھوں کی ہتھیلی اور انگوٹھے باقی رہ جائیں"۔

شہریوں میں خوف و ہراس پھیلانا

دوسرے ممالک جہاں آئی آر جی سی اور اس کے پراکسیز کام کرتی ہیں، جیسے کہ یمن، شام اور لبنان، میں مخالفین کے خلاف مقامی آبادیوں میں خوف پیدا کرنے اور ان پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اسی طرح کے جبر کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

السید نے کہا، لیکن ہر جگہ، ایرانی پراکسیز کا ایک خاص نشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر یمن میں حوثی عوامی چوکوں میں پھانسیاں دیتے ہیں۔ "لبنان میں حزب اختلاف کی شخصیات کو یا تو اغواء کر لیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے"۔

"جہاں تک شام کا تعلق ہے، حزب اللہ کی تنازعہ میں مداخلت نے ابتدائی طور پر اس صورت حال کو ہوا دی جب اس کے عناصر نے بغاوت کے آغاز میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج شام کے کچھ حصوں میں شامی حکومت اور ایرانی پراکسی حزب اللہ کے زیر اثر ہزاروں افراد گم شدہ اور لاپتہ ہیں۔

السید نے کہا، "ایران اپنے انٹیلیجنس افسران یا مقامی کارندوں کے ذریعے بیرون ملک مقیم حزبِ اختلاف کی شخصیات کا تعاقب کرتا ہے"۔

جون 2020 میں، مثال کے طور پر، ایک نارویجن-ایرانی شخص کو ایران کی جانب سے ڈنمارک میں جاسوسی اور قتل کی کوشش کے جرم میں سزا سنائی گئی۔

فرد جرم کے مطابق، مدعا علیہ کو ستمبر 2018 میں ایک ایرانی جلاوطن شخص کے "حکم پر اور ایرانی انٹیلیجنس سروس کی ہدایات پر" کے منصوبہ بند قتل کے سلسلے میں "قاتلانہ کوشش میں ملوث ہونے" کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

ظلم کی برآمد

ایرانی امور کے محقق شیار ترکو نے المشارق کو بتایا، "انقلاب برآمد کرنے کے علاوہ"، آئی آر جی سی نے "اس آمریت اور جبر کو بھی برآمد کرنے کی کوشش کی ہے جسے وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف دوسرے ممالک میں استعمال کرتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان علاقوں میں واضح ہے جہاں اس نے اپنی فوجی پراکسیز نصب کر رکھی ہیں، بشمول عراق، شام، لبنان اور یمن۔

ترکو نے کہا، "قانون کا کوئی احترام نہیں ہے، اور قتل، معروف شخصیات کے قتل اور تشدد کی انتہائی گھناؤنی قسمیں ان تمام لوگوں کے خلاف کی جا رہی ہیں جو آئی آر جی سی اور اس کی پراکسیز کی پالیسیوں کے مخالف ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی جو کچھ کر رہی ہے وہ نکولس مادورو کی قیادت میں وینزویلا اور بشار الاسد کی قیادت میں شام جیسی آمریتوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے جبر کے مترادف ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ "یوں لگتا ہے کہ احتجاج کو روکنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے"۔

قاہرہ کی مقامی یمنی صحافی مونا محمد نے کہا، "یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جو لوگ عام شہریوں پر راکٹ فائر کرتے ہیں اور خواتین اور بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ بغیر کسی عدالتی اختیار کے مستقل بنیادوں پر من مانی سزائیں دیتے ہیں"۔

انہوں نے المشارق کو بتایا، "سنہ 2021 میں نو افراد کو سرعام پھانسی دی گئی، جس میں ایک نابالغ بھی شامل ہے جو تشدد کی وجہ سے پھانسی سے پہلے مفلوج ہو گیا تھا، حوثیوں کے لیے باعثِ رسوائی ہے"۔

انہوں نے یاد دلایا، "یہ دہشت گرد گروہ 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' (داعش) کی طرح کی پھانسیاں دے رہا ہے اور شہریوں کو عوامی چوکوں پر پھانسیوں میں شرکت پر مجبور کر رہا ہے، جیسا کہ شام کے الراقہ میں ہوا تھا"۔

چند صورتوں میں، حوثیوں نے اپنے ہی گروہ کے ارکان کو اندرونی تنازعات اور اقتدار کی کشمکش پر پھانسی بھی دی ہے۔

لبنانی فوج کے ریٹائرڈ افسر جمیل ابو حمدان نے المشارق کو بتایا کہ لبنان میں حزب اللہ کے ابھرنے کے بعد سے، ایران کی حمایت یافتہ جماعت "ظلم، قتل، دھمکی، پھانسی اور قتل میں مصروف رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے جو اس کے مخالف ہیں "خواہ سیاسی ہوں یا فوجی میدانوں میں"۔

ان کا مزید کہنا تھا، "حزب اللہ کے زیرِ تسلط علاقوں میں درجنوں افراد کو اغواء کرنے کے بعد مشتبہ حالات میں لاپتہ کر دیا گیا"۔

ایران کو جوابدہ ٹھہرانا

ابو حمدان نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی آئی آر جی سی کے جبر اور اس کی پراکسیز کی جانب سے کیے جانے والے جرائم کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنا رہے ہیں، بشمول پابندیاں اور ہر قسم کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن۔

23 جنوری کو اعلان کردہ پابندیوں میں، امریکہ نے برطانیہ اور یورپی یونین (ای یو) کے ساتھ مل کر ایرانی حکومت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حساب لینے کی قرارداد پیش کی۔

دس ایرانی افراد اور ایک ادارے کو بلیک لسٹ کیا گیا، ان کے ساتھ آئی آر جی سی کے چار سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں جو قومی اور صوبائی سطح پر ایرانی حکومت کے کریک ڈاؤن میں تعاون کر رہے ہیں۔

امریکی وزارتِ خزانہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس اقدام نے "آئی آر جی سی کے ایک اہم اقتصادی ستون کو بھی ہدف بنایا، جو حکومت کے وحشیانہ دباؤ کے لیے زیادہ تر فنڈز فراہم کرتا ہے"۔

ایران میں پُرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنے کے ذمہ داروں کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی پابندیوں کا یہ نواں دور تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500