سلامتی

'کامیاب' امن مشقوں سے پاکستان کا بین الاقوامی بحری تعاون اجاگر

از زرک خان

پاکستانی بحریہ کے فوجی 12 فروری کو کراچی کے ساحل پر ایک مشق میں حصہ لیتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

پاکستانی بحریہ کے فوجی 12 فروری کو کراچی کے ساحل پر ایک مشق میں حصہ لیتے ہوئے۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی میزبانی میں کامیاب کثیر ملکی بحری مشق امن-23 امن کو یقینی بنانے اور سمندری دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور ماورائے علاقائی بحری افواج کے درمیان دفاعی تعاون کو بڑھائے گی۔

امریکہ سمیت اکیاون ممالک -- اپنے بحری جہازوں، ہوائی جہازوں، اور خصوصی آپریشنز کی فورسز نیز مبصرین – نے امن-23 مشقوں میں حصہ لیا، جو 10 فروری کو کراچی کے ساحل سے بحیرۂ عرب میں شروع ہوئی تھی۔

کثیر ملکی بحری مشق کا آٹھواں ایڈیشن 14 فروری کو اختتام پذیر ہوا جس سے پہلے پاکستانی بحریہ (پی این) اور غیر ملکی بحری جہازوں کے بین الاقوامی بیڑے نے جائزہ لیا۔

مختلف ممالک کے سفیروں، ہائی کمشنرز، اعلیٰ فوجی افسران اور دفاعی اور بحری اتاشیوں نے فلیٹ ریویو کا مشاہدہ کیا۔

10 فروری کو کراچی میں امن-23 مشق کی پرچم کشائی کی تقریب کے دوران مختلف بحری افواج کے افسران اپنے جھنڈوں کو سلامی دیتے ہوئے۔ [پاکستان نیوی]

10 فروری کو کراچی میں امن-23 مشق کی پرچم کشائی کی تقریب کے دوران مختلف بحری افواج کے افسران اپنے جھنڈوں کو سلامی دیتے ہوئے۔ [پاکستان نیوی]

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف 14 فروری کو امن-23 مشق کی اختتامی تقریب کے دوران پاک بحریہ اور غیر ملکی بحری جہازوں کے بین الاقوامی بیڑے کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [شہباز شریف/ٹویٹر]

پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف 14 فروری کو امن-23 مشق کی اختتامی تقریب کے دوران پاک بحریہ اور غیر ملکی بحری جہازوں کے بین الاقوامی بیڑے کا جائزہ لیتے ہوئے۔ [شہباز شریف/ٹویٹر]

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی بحریہ کی کثیر ملکی امن-23 مشق تمام سٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششوں سے خطے کو مزید پُرامن اور محفوظ بنائے گی۔

شریف نے کہا، "یہ کثیر ملکی تقریب بحری حدود میں دہشت گردی، بحری قذاقی اور منشیات کے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتی ہے"۔

امن-23 کو دو الگ الگ مراحل میں تقسیم کیا گیا تھا - بندرگاہ اور سمندر۔

بندرگاہ کے مرحلے میں سیمینارز، عملی مباحثے، پیشہ ورانہ مظاہرے اور بین الاقوامی اجتماعات جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔

سمندری مرحلے میں بحری سلامتی کے معاملات جیسے کہ انسدادِ بحری قذاقی اور انسدادِ دہشت گردی، تلاش اور بچاؤ، گولہ باری اور فضائی دفاع سے متعلق حکمتِ عملی اور مشقیں شامل ہیں۔

'علاقائی استحکام کو فروغ دینا'

پاکستان سنہ 2007 سے دو سالہ مشق امن کا انعقاد کر رہا ہے.

مبصرین کے مطابق، امن مشقوں میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد میں ان کے آغاز کے بعد سے مسلسل اضافہ عالمی برادری کی جانب سے علاقائی امن اور سلامتی کے لیے پاکستان کے عزم کی تعریف کا اظہار ہے۔

سنہ 2007 میں اس مشق میں 28 ممالک نے حصہ لیا۔ کووڈ-19 کی پابندیوں کے باوجود، سنہ 2021 تک یہ تعداد بڑھ کر 43 ممالک تک پہنچ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر، کراچی کے سلیم صدیقی نے کہا، "امن مشقوں میں شرکاء کی تعداد میں اضافہ علاقائی ممالک کی بے تابی اور جوش و خروش کو ظاہر کرتا ہے ... تاکہ بحرِ ہند کے علاقے میں سمندری سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کی جاری علاقائی اور بین الاقوامی پہل کاریوں کی حمایت کی جائے"۔

انہوں نے کہا کہ "شرکت کرنے والے ممالک کے بحری جہازوں کے درمیان تجربات اور مہارت کا تبادلہ انتہائی جہاز رانی کے علاقوں میں بحری قذاقی کے خطرے کو دور کرنے میں مدد کر رہا ہے۔"

پاکستان بین الاقوامی بحری تعاون کی ایک طویل تاریخ کا حامل ہے۔

سی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق، سنہ 2004 میں، پاکستان نے امریکہ کی زیرِ قیادت مشترکہ سمندری افواج (سی ایم ایف) میں شمولیت اختیار کی، ایک 34 ملکی اتحاد، جو "بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے موجود ہے ... گہرے سمندر میں غیر قانونی غیر ریاستی عناصر کا مقابلہ کرتے ہوئے"۔

سی ایم ایف تقریباً 8.3 ملین مربع کلومیٹر بین الاقوامی پانیوں کی حفاظت کرتی ہے اور اس کا صدر دفتر بحرین میں امریکی بحریہ کے اڈے پر ہے۔

پاکستان سی ایم ایف کی چار ٹاسک فورسز میں سے دو میں حصہ لیتا ہے: کمبائنڈ ٹاسک فورس (سی ٹی ایف) 150، جو خلیج سے باہر سمندری سلامتی کی حفاظت کرتی ہے، اورسی ٹی ایف 151، جو بحری قذاقی سے لڑتی ہے۔

سی ایم ایف نے بتایا کہ گزشتہ اپریل میں، پاکستانی بحریہ کے ایک گائیڈڈ میزائل فریگیٹ، جوسی ٹی ایف 150 کے ایک جزو کے طور پر کام کر رہا تھا، نے خلیجِ عمان میں بین الاقوامی پانیوں میں گشت کے دوران ماہی گیری کے ایک جہاز سے منشیات برآمد کی۔

30 جنوری کو، یو ایس کوسٹ گارڈ کے جہاز نے، سی ٹی ایف150 کی مدد سے، خلیجِ عمان میں بین الاقوامی پانیوں میں گزرنے والے ماہی گیری کے جہاز سے غیر قانونی منشیات پکڑی جس کا کل تخمینہ امریکی عام منڈی میں 33 ملین ڈالر ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے درمیان بحری تعاون

امریکی بحریہ، جو سنہ 2007 میں شروع ہونے والی امن مشقوں میں حصہ لے رہی ہے، حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کو بڑھا رہی ہے۔

پاکستانی بحریہ کے مطابق، امریکی بحری افواج کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر اور پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے امن-23 مشقوں میں شرکت کرتے ہوئے پاکستان کے چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی کے ساتھ الگ الگ دفاعی بات چیت کی۔

پاکستانی بحریہ کے بیانات میں کہا گیا کہ بات چیت کے دوران انہوں نے دوطرفہ بحری اور دفاعی تعاون کو بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

پاکستانی بحریہ نے خلیج عمان میں اسی سال فروری میں انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسرسائز (آئی ایم ایکس) 2022 میں بھی حصہ لیا تھا۔

اس مشق کے ڈپٹی کمانڈر، پاکستانی بحریہ کے کمانڈر وقار محمد نے یو ایس سینٹرل کمانڈ (یو ایس سینٹکام) کے ایک بیان میں کہا، "آئی ایم ایکس/سی ای [کٹلس ایکسپریس] 2022 نے دنیا بھر کی بحری افواج، سمندری تنظیموں اور علاقوں کو قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی عزم کا مظاہرہ کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کیا"۔

اکتوبر میں، امریکی کوسٹ گارڈ کے دو کٹر-- یو ایس سی جی سی چارلز مولتھروپ اور یو ایس سی جی سی ایملن ٹنل – نے امریکی 5ویں بیڑے اور پاکستانی بحریہ کے درمیان جاری مشترکہ مشقوں اور تکنیکی تبادلوں کے ایک جزو کے طور پر کراچی کا دورہ کیا تھا۔

امریکی بحری افواج کی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے گزشتہ 9 اکتوبر کو ایک اعلامیئے میں کہا گیا کہ امریکی کوسٹ گارڈ کے بحری جہازوں کو امریکی 5ویں بحری بیڑے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں سمندری سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے آگے تعینات کیا گیا تھا۔

امریکی 5ویں بیڑے کی کارروائیوں کا رقبہ تقریباً 6.5 ملین مربع کلومیٹر پانی پر محیط ہے اور اس میں خلیجِ عرب، خلیجِ عمان، بحیرۂ احمر اور بحرِ ہند کے کچھ حصے شامل ہیں۔ یہ وسعت 20 ممالک پر مشتمل ہے اور اس میں آبنائے ہرمز، نہر سویز اور یمن کے جنوبی سرے پر آبنائے باب المندب کے تین اہم پُرہجوم مقامات شامل ہیں۔

دوسرے بحری جہاز جنہوں نے گزشتہ سال کراچی کا دورہ کیا ان میں یو ایس ایس گرڈلی، ایک ارلی برک کلاس گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر، اور یو ایس ایس سکوال اور یو ایس ایس ورل ونڈ گشتی جہاز شامل تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

آرمی اور ناظرہ ٹیچر

جواب