مذہب

سٹاک ہوم میں قرآن جلانے کے واقعہ کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے جس نے مسلم دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے

از نبیل عبداللہ التمیمی

استنبول میں 22 جنوری کو ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران، مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اٹھا رکھا ہے، اس سے پہلے انتہائی دائیں بازو کے ایک سیاستدان نے اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے قریب مقدس کتاب کا نسخہ جلایا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں سے پتا چلا ہے کہ اس واقعہ میں روس کا ہاتھ تھا، جس نے سویڈن کی نیٹو بولی روک دی ہے۔ [یاسین اکگل/اے ایف پی]

استنبول میں 22 جنوری کو ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران، مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اٹھا رکھا ہے، اس سے پہلے انتہائی دائیں بازو کے ایک سیاستدان نے اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے قریب مقدس کتاب کا نسخہ جلایا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی خبروں سے پتا چلا ہے کہ اس واقعہ میں روس کا ہاتھ تھا، جس نے سویڈن کی نیٹو بولی روک دی ہے۔ [یاسین اکگل/اے ایف پی]

عدن -- مشرقِ وسطیٰ بھر میں مسلمانوں نے، 22 جنوری کو سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے قریب ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران قرآن پاک کو جلائے جانے کے واقعہ پر، غصے کا اظہار کیا ہے اور سویڈن اور "مغرب" پر اسلام کی خلاف ورزی اور اس عقیدے کے پیروکاروں کو ناراض کرنے کا الزام لگایا ہے۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل مجرم تقریباً یقینی طور پر روس ہے۔

کیوں؟

مسلم اکثریتی ملک ترکی میں سامنے آنے والا ردِعمل، سویڈن کی طرف سے نیٹو میں شمولیت کے لیے کی جانے والی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کا بڑی حد تک ذمہ دار تھا، دوسری وجہ - براہ راست کریملن کے ہاتھوں میں کھیلنا بھی ہے، جو اپنی جنگ کے دوران بلاک کی توسیع کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔

سٹاک ہوم میں قرآن کو جلائے جانے کے خلاف، بیروت میں محمد الامین مسجد کے باہر، 27 جنوری کو لبنانی شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'انتہائی بے عزتی' قرار دیا۔ [انورعمرو/اے ایف پی]

سٹاک ہوم میں قرآن کو جلائے جانے کے خلاف، بیروت میں محمد الامین مسجد کے باہر، 27 جنوری کو لبنانی شہری احتجاج کر رہے ہیں۔ سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'انتہائی بے عزتی' قرار دیا۔ [انورعمرو/اے ایف پی]

پورے مشرقِ وسطی میں مغرب مخالف جذبات کو ہوا دینا ایک اور ایسا اقدام ہے جو روس کے ایجنڈے کی حمایت کرتا ہے، کیونکہ کریملن خطے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانا اور یوکرین کے خلاف اس وقت جاری اور بلا اشتعال جنگ کے دوران، حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

تو کیا ہوا؟

وائس نیوز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق، صحافی چانگ فریک -- جنہوں نے روسی ٹیلی ویژن (آر ٹی) اور کریملن کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے والے دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے کام کیا ہے -- نے سٹاک ہوم کے پروگرام کے لئے مظاہرے کی فیس ادا کی تھی۔

ڈنمارک کے انتہائی دائیں بازو کے کارکن راسموس پالوڈن نے، جس نے تقریب میں قرآن کو نذر آتش کیا تھا، نے سویڈش صحافیوں کو بتایا کہ فریک نے بھی اسلام کی مقدس کتاب کو جلانے کا مشورہ دیا تھا۔

سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے فوری طور پر قرآن جلانے کی مذمت کی اور اسے "سخت توہین" قرار دیا اور بدھ (8 فروری) کو سویڈن کی پولیس نے ایک اور ایسے احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس میں ایک بار پھر قرآن کو جلانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

نیٹو کے ایک سیکورٹی اہلکار نے وائس کو بتایا کہ "اس بات کا اندازہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ آیا وہ خود ہی ٹرول ہیں یا ایسے ٹرول ہیں جو روس کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور اس سے ہدایات لے رہے ہیں"۔

ذریعہ نے کہا کہ "یہ ہو سکتا ہے کہ فریک صرف دائیں بازو کا ایک بدبخت شخص ہے جو قرآن کو جلانا پسند کرتا ہے۔ یا یہ روسی انٹیلی جنس آپریشن بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دونوں طرح سے ہی، یہ روس کو نیٹو کے ارکان کو تنازعات میں دکھانے میں مدد دے رہا ہے"۔

یوریکٹیو میڈیا آؤٹ لیٹ نے کہا کہ "تردید کر دینا، دنیا بھر میں بہت سے روسی دوغلے اقدامات کا ٹریڈ مارک رہا ہے۔"

اس نے کہا کہ "روس کے پاس سویڈن کو نیٹو میں شمولیت سے روکنے کے لیے، تمام تر محرکات موجود ہیں۔"

"مزید برآں، اس کا مغرب مخالف جذبات کو ہوا دینے میں اپنا ذاتی مفاد ہے۔"

اشتعال انگیزی کا عمل

سٹاک ہوم کے واقعے کے بعد، اس بات کا ثبوت کُھل کر سامنے آیا کہ پورے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے باہر، مغرب مخالف جذبات موجود ہیں۔ ترکی، یمن، لبنان، شام، عراق اور ایران کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی انڈونیشیا میں بھی مظاہرے ہوئے۔

صنعاء اور یمن کے دیگر شہروں میں مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر قرآن کو جلانے کی مذمت کی گئی تھی اور اسے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا دینے والا اور تقدس کو پامال کرنے والا قرار دیا۔

یمن کی حکومت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، وزارت خارجہ نے قرآن کو نذر آتش کرنے کو "جان بوجھ کر کیا جانے والا ایک گھناؤنا عمل اور مسلمانوں کے جذبات کے لیے سخت اشتعال انگیز" قرار دیا ہے۔

اُس نے نفرت انگیز تقریر اور "سب کی مذہبی حساسیت پر حملوں کو سختی سے مسترد کرنے" کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ "اس عمل کے نتائج معاشروں میں دشمنی اور تقسیم کو ہوا دیں گے"۔

سیاسی تجزیہ کار فیصل احمد نے المشارق کو بتایا کہ "یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی سب کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے اور صنعا اور دیگر شہروں میں مشتعل مظاہرے ایک عام عوامی ردعمل ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ روس ممکنہ طور پر اس واقعے میں ملوث تھا، چاہے بالواسطہ طور پر ہی کیوں نہ ہو۔

احمد نے کہا کہ "وہ شخص جس نے سویڈن کے دارالحکومت میں ترک سفارت خانے کے باہر احتجاج کرنے کے لیے پرمٹ کے لیے ادائیگی کی، چانگ فریک، ماسکو اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔"

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایسا لگتا ہے کہ فریک اس مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے، مزید کہا کہ "فریک کے روس کے آر ٹی سے قریبی تعلقات ہیں جس کے لیے اس نے ایک نامہ نگار کے طور پر کام کیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ سویڈن کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنے کے روس کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ فریک ذمہ دار ہے خواہ اس نے صرف احتجاجی اجازت نامے کے لیے ادائیگی کی تھی اور کسی سے قرآن جلانے کے لیے نہیں کہا تھا، کیوں کہ اجازت نامے کے لیے ان نعروں کی نگرانی کی ضرورت ہوگی جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیے جائیں گے کہ وہ راستے سے ہٹ نہ جائیں۔

احمد نے کہا کہ اسلام کی مقدس کتاب کو جلانا "ایک دشمنانہ عمل ہے جو مسلمانوں کے اعصاب کو چھوتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ یہ حساسیت، بدنیت کرداروں کے لیے "سیاسی ایجنڈوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، مسلمانوں کے جذبات اور ذہنوں کو روس کے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا" آسان بناتی ہے۔

’روس مسلمانوں کا مذاق اڑا رہا ہے‘

ماہرِ اقتصادیات عبدالعزیز تھابیت نے المشارق کو بتایا کہ "قرآن کو جلانے کے ردعمل کے اظہار کے لیے احتجاج کافی نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کچھ مظاہرین نے سویڈن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا "ایک اقتصادی ہتھیار کے طور پر جس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے" مطالبہ کیا ہے۔

لیکن سویڈن شاید قصوروار نہیں ہے۔

تھابیت نے نوٹ کیا کہ فن لینڈ کے وزیر خارجہ پیکا ہاوسٹو نے کہا کہ روس، سویڈن کے نیٹو کے الحاق میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے قرآن جلانے میں ملوث ہو سکتا ہے۔

تھابیٹ نے قرآن کو آگ لگانے والے ڈنمارک کے سرگرم کارکن کے حوالے سے کہا کہ "فن لینڈ کے وزیرِ خارجہ کے بیانات کہیں سے نہیں آئے بلکہ وہ شواہد اور سراغات پر مبنی تھے جن کی روس سے پالوڈان کے تعلقات کو ثابت کرنے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں روس کے ملوث ہونے کی تصدیق سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ "روس مسلمانوں اور ان کی مقدس کتاب کا تمسخر اڑا رہا ہے تاکہ معمولی سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500