چینی سوشل میڈیا پر متعدد ذرائع سے آنے والی خبروں کے مطابق، چینی ساختہ سی 919 مسافر طیارے کو اپنے ”100 گھنٹے کے معائنہ“ کی پروازوں میں سے ایک کے دوران ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے ہنگامی طور پر شنگھائی لوٹنا پڑا۔
ریاستی ملکیتی تیار کنندہ کمرشل ایئر کرافٹ کارپوریشن آف چائنہ (سی او ایم اے سی) کے تیار کردہ اس مسافر طیارہ، سی919 کو شیڈیول کے مطابق مسافروں کو سوار کرنے سے قبل طے شدہ جانچ کے جزُ کے طور پر یکم فروری کو شنگھائی سے بیجنگ تک اور پھر ہیفی تک پرواز کرنا تھی۔
ریڈیو فری ایشیا (آر اے ایف) کے مطابق، بیجنگ ڈاگژنگ-ہیئفی ایم یو 7819/20 کوڈ کی حامل چایئنا ایسٹرن ایئرلائنز کی معائنہ پرواز اچانک شنگھائی واپسی کے بعد منسوخ کر دی گئی۔
آر ایف اے نے خبر دی کہ نیٹٰزنز نے سوشل میڈیا پر خبر دی کہ یہ طیارہ شیڈیول کے مطابق ہیئفی نہ پہنچا بلکہ اسے بائیں انجن کے ریورس پروپلشن میں پیچیدگیوں کی وجہ سے شنگھائی ہانگکیاؤ ہوائی اڈے کو واپس لوٹنا پڑا۔
یہ ناکامی ”100 گھنٹے کے معائنہ“ ٹیسٹ کی معطلی کا باعث بنی، اور ممکنہ طور پر یہ اب فروری کے آخر میں مسافر پروازوں کا آغاز نہ کر سکے گا، جب اسے چائنہ ایسٹرن ایئرلائنز کے ساتھ مسافر جیٹ کے طور پر آغاز کرنا تھا۔
آر ایف اے نے سی 919 کی مبینہ ناکامی کے سلسلہ میں سی او ایم اے سی اور چائنہ ایسٹرن ایئرلائنز سے مشاورت کی کوشش کی اور اس کا کوئی جواب نہ ملا۔
چین نے سی 919 سے متعلق کوئی تکنیکی تفصیلات فراہم نہیں کیں، جسے چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے ایک ”قومی فخر“ قرار دیا تھا، تاہم اس نے اس منصوبے پر 10 سال سے زائد عرصہ کام کیا ہے۔
مانا جاتا ہے کہ یہ ہوائی جہاز داخلی طور پر چین میں تیار شدہ سی جے-1000 اے انجن سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ تاہم جیسا کہ سی 919 کا ڈیویلپمنٹ پروگرام خاصہ نیا ہے، مشاہدین کا دعویٰ ہے کہ اس ہوائی جہاز کے متعدد بنیادی اجزا درآمد شدہ ہیں۔
صنعتِ ہوابازی اس چینی مسافر جیٹ کے تحفظ سے متعلق پرامید نہیں۔
ایک ذریعہ نے آر ایف اے کو بتایا کہ ایک دوسرے مرحلے میں اور غیرملکی ٹیکنالوجی کے اجزا کی ریورس انجنیئرنگ کے ذریعے، سی او ایم اے سی ایک دوسری اور تیسری کھیپ کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں مکمل طور پر چینی ساختہ اجزا ہوں گے۔
ریاستی میڈیا نے خبر دی کہ 164 مسافروں کی گنجائش کے حامل تنگ جسامت والے جیٹ کا پہلا نمونہ قبل ازاں گزشتہ دسمبر میں شنگھائی میں ایک ہوائی اڈے پر چائنہ ایسٹرن ایئرلائینز کے حوالے کیا گیا۔
چین کے اندرونی میڈیا نے قبل ازاں خبر دی تھی کہ 2023 کی پہلی سہماہی میں کارگر ہونے سے قبل، سال کے آخر تک پانچ ہوائی جہاز چایئنا ایسٹرن ایئرلائنز – مسافروں کی تعداد کے اعتبار سے ملک کا دوسرا بڑا کیریئر – کے سپرد کیے گئے۔
سی او ایم اے سی نے گزشتہ نومبر ایک ایئر شو میں کہا کہ اس نے سی919 کے لیے 300 آرڈر وصول کر لیے ہیں، تاہم اس نے واضح نہیں کیا کہ آیا یہ آرڈر مکمل طور پر مصدقہ ہیں اور معاہدوں کی قدر اور فراہمی کی تاریخوں کے بارے میں بھی کوئی تفصیلات نہیں دی۔
لیکن سی او ایم اے سی کے گزشتہ بیانات سے آنے والے اعداد کے مطابق، اگر یہ آرڈر مکمل ہو جاتے ہیں تو یہ سی 919 کے لیے معلوم معاہدوں کو 1،100 سے زائد تک لے جائیں گے۔
ابھی تک صرف چائنہ ایسٹرن ایئرلائنز نے پانچ آرڈرز کی تصدیق کی ہے۔
رائیٹرز نے گزشتہ ستمبر ذرائع کے حوالہ سے خبر دی کہ ہائی ٹیک امریکی مصنوعات کی برآمد پر پابندیوں کے سخت ہونے کی وجہ سے سی 919 کو پرزہ جات کی قلت کا سامنا ہے۔
چینی طیاروں اور عسکری ہارڈویئر کے ساتھ مسائل
جیسا کہ گزشتہ برس خبر دی گئی کہ پاکستان کے چینی ساختہ جے ایف-17 لڑاکا جیٹ طیاروں کے بیڑے کو مکینیکل مسائل کی وجہ سے زمین پر کھڑا کر دیا گیا ہے، جو کہ چینی عسکری آلات کے ناقص معیار کا ایک اور اشاریہ بن گیا ہے۔
پاکستان نے 2007 سے اب تک ایسے 100 طیارے کمینش کیے ہیں۔
2012 کی ایک میڈیا رپورٹ میں 18 ماہ کے دوران 12 حادثات کے ایک سلسلہ کی فہرست بنائی گئی، جس میں چین سے لائے گئے متعدد جے ایف-17 اور چینگڈو ایف-7 لڑاکا طیارے تھے۔
دفاعی تھنک ٹینکس کے مطابق، پاکستان کو 2009 سے اب تک چینی بحری جہاز ساز فرمز کے تیار کردہ کم از کم چار فرائیگیٹس کے ساتھ بھی شدید مکینکل مسائل کا سامنا ہے۔
ایک اطالوی تھنک ٹینک Geopolitica.info کی ایک 14 جون کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے چار چینی ساختہ ایف-22 پی فرائیگیٹ ”بحیرۂ عرب اور بحرِ ہند کے طلاطم خیز پانیوں میں تیرائے رکھنے کے ذمہ دار پاک بحریہ کے افسروں اور جوانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بنے ہوئے ہیں۔“
Geopolitica.info نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا، ”ناقص اہم پرزہ جات اور چینی تیار کنندگان کی جانب سے غیر معیاری خدمات نے پاک بحریہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ان چار فرائیگیٹس کو کم تر آپریشنل صلاحیتوں کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے، مہمات کے چند ایسے کلیدی مقاصد پر سمجھوتہ کریں، جن کی وجہ سے ان جہازوں کو ایک بھاری قیمت پر خریدا گیا تھا۔“