معیشت

سرد موسم اور غربت سے غریب افغانوں کی زندگیاں تاریک

از عمر

جنوری 2023 کے آغاز میں، 11 افغان مردوں پر مشتمل ایک گروہ نے روزگار کی تلاش کے لیے افغانستان کے صوبہ ہرات سے غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کی۔ برفانی طوفان میں پھنس جانے کے بعد، وہ افغانستان واپس لوٹنے پر مجبور ہو گئے تاکہ سرما زدگی پر طبی امداد حاصل کی جا سکے۔ دریں اثنا، ایک افغان ویلفیئر فاؤنڈیشن نے 17 جنوری کو صوبہ ہرات میں 2,000 سے زیادہ غریب خاندانوں میں آٹا، تیل اور چاول تقسیم کیے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات -- عبدالحکیم جن کی عمر 27 سال ہے، ہرات ریجنل ہسپتال کے برن وارڈ میں اپنی ٹانگیں پٹیوں میں لپٹے ہوئے علاج کے لیے بستر پر پڑا ہے، جو کہ فراسٹ بائٹ کے اثرات سے متاثر ہوئی ہیں۔

حکیم نے 10 جنوری کو، دیگر10 نوجوانوں پر مشتمل ایک گروہ کے ساتھ، ہرات سے غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کی تھی۔

یہ گروہ رات کے وقت ہرات کے ضلع کوہسان کے راستے ایرانی حدود میں داخل تو ہو گیا لیکن شدید برفانی طوفان کی وجہ سے ایک پہاڑ پر پھنس کر رہ گیا۔

وہ چھ دن اور چھ راتوں تک پھنسے رہے لیکن آخرکار انہیں طبی امداد حاصل کرنے کے لیے، سرحد پار کر کے افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا۔

ایسے تین نوجوان جو روزگار کی تلاش کے لیے، غیر قانونی طور پر ایران جانا چاہتے تھے، 16 جنوری کو ہرات کے علاقائی ہسپتال میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ان کا سرما زدگی (فراسٹ بائٹ) کے لیےعلاج کیا جا رہا ہے۔[عمر/سلام ٹائمز]

ایسے تین نوجوان جو روزگار کی تلاش کے لیے، غیر قانونی طور پر ایران جانا چاہتے تھے، 16 جنوری کو ہرات کے علاقائی ہسپتال میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ان کا سرما زدگی (فراسٹ بائٹ) کے لیےعلاج کیا جا رہا ہے۔[عمر/سلام ٹائمز]

ہرات شہر میں 17 جنوری کو مزدور کام ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات شہر میں 17 جنوری کو مزدور کام ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

حکیم کے 10 ساتھی بھی شدید فراسٹ بائٹ کا شکار ہوئے ہیں جس سے اُن کے ہاتھ اور ٹانگیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

حکیم نے کہا کہ غربت اور بے روزگاری نے اسے اس خطرناک سفر پر روانہ ہونے پر مجبور کیا۔

انہوں نے کہا کہ "اپنی بیوی اور بچوں کے لیے کھانا تلاش کرنے کے لیے، مجھے ایران جانا پڑا۔ ہمارے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے گھر میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ میرے تین بچے ہیں اور میں انہیں کھلا نہیں سکتا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میں سرد موسم اور غیر قانونی راستوں سے جڑے خطرات سے بخوبی واقف تھا لیکن میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔"

افغانستان میں روزگار کے مواقع بہت کم ہیں اور بہت سے نوجوان کام کے لیے پڑوسی ممالک، جیسے کہ ایران، کا خطرناک سفر اختیارکرتے ہیں۔

غیر معمولی سردی نے ایسے لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے جو پہلے ہی بھوک اور ایسے معاشی بحران کا شکار تھے جس نے ملک کو تقریباً ڈیڑھ سال سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

جنوری کی 10 تاریخ کو آنے والی سردی کی لہر نے افغانستان کے 20 سے زائد صوبوں کو متاثر کیا ہے، جہاں درجہ حرارت 33- ڈگری سیلسیس تک گر گیا۔

حکام کے مطابق، تقریباً 78 افراد اور 70,000 مویشی سردی سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

سرد موسم اور غربت

سردی سے کپکپاتے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو گرم رکھنے کے لیے انہیں اپنے منہ کے قریب رکھتے ہوئے، 51 سالہ عبدالغفور ہرات شہر میں ایک سڑک کے کنارے بیٹھا کام کا انتظار کر رہا ہے۔

ہر روز سارا دن انتظار کرنے کے باوجود، غفور گزشتہ دو ہفتوں سے خالی ہاتھ گھر لوٹ رہا ہے۔

غفور جو کہ چار افراد پر مشتمل خاندان کے لیے واحد روٹی کمانے والا ہے، نے کہا کہ وہ سردی کے موسم میں اپنے گھر کو گرم نہیں کر سکتے اور رات کو سردی کی وجہ سے ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتے۔

انہوں نے کہا کہ "اس سرد موسم میں زندگی واقعی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ میں روزانہ کام کی تلاش میں گھر سے نکلتا ہوں لیکن خالی ہاتھ اور بھوکا لوٹتا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہے۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ تھا اور وہ گھر بنا رہے تھے وہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میری طرح، سینکڑوں دوسرے مزدور بھی کام کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکتے ہیں لیکن رات کو مایوس ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔"

خلیل احمد جن کی عمر 65 سال ہے، ہرات شہر میں اپنی ہتھ گاڑی کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کرتے ہیں، برف باری اور سرد موسم کی وجہ سے کام تلاش نہیں کر سکے ہیں۔

ان کی یومیہ آمدنی 50 افغانی (56 امریکی سینٹ) تک گر گئی ہے۔

احمد نے کہا کہ یہ رقم اس کے تین افراد پر مشتمل خاندان کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات انہیں بھیک مانگنی پڑتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "میں سارا دن سڑک کے کنارے انتظار کرتا ہوں لیکن کوئی کام نہیں ملتا۔ کچھ دن میں 20 سے 50 افغانی (22 سے 56 امریکی سینٹ) کماتا ہوں، لیکن زیادہ تر دنوں میں ایک افغانی بھی نہیں کما پاتا۔ مجھے اپنے خاندان کے لیے روٹی خریدنے کے لیے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔"

خلیل نے مزید کہا کہ "اگرچہ زندگی کی مشکلات نے مجھے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کے پاس میری مدد کے لیے پیسے نہیں ہیں۔"

غریبوں کی امداد

ین الاقوامی اور ملکی این جی اوز ضرورت مندوں کی مدد کے لیے پوری کوشش کر رہی ہیں۔

ایک افغان فلاحی فاؤنڈیشن حبیب یار، نے 17 جنوری کو ہرات میں 2,000 سے زیادہ غریب خاندانوں میں آٹا، تیل اور چاول تقسیم کیے۔

نسیمہ جن کی عمر 46 سال ہے اور وہ پانچ بچوں کی ماں اور اپنے خاندان کی واحد کفیل ہیں، امداد سے مستفید ہونے والوں میں سے ایک تھیں۔

امداد ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اور اس کے بچے ایک ماہ تک بھوکے نہیں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "موسم سرد ہونے کے بعد سے میری زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے"۔

نسیمہ نے مزید کہا کہ "رات کے وقت، ہم اپنے آپ کو گرم کرنے کے لیے ایک کمبل کے نیچے سوتے ہیں۔ لیکن موسم اتنا ٹھنڈا ہے کہ ہم ٹھیک سے سو نہیں پاتے اور کئی شامیں تو ایسی ہوتی ہیں جب ہم رات کا کھانا کھانا بھی بھول جاتے ہیں۔"

محمد یوسف جن کی عمر 57 سال ہے، کو 50 کلو آٹا، 25 کلو چاول اور 10 لیٹر تیل ملا، جو اس کے چار افراد پر مشتمل خاندان کا ایک ماہ تک پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میرا کوئی کمانے والا بیٹا نہیں ہے اور مجھے اپنے خاندان کے لیے کمانا ہے لیکن کوئی کام نہیں ہے اور میں اس بڑھاپے میں دوسروں پر انحصار کرتا ہوں"۔

وہ، اس کی بیوی اور دو بیٹیاں ہرات شہر کے مغربی حصے میں ایک کچے مکان میں رہتے ہیں۔

یوسف نے کہا کہ ان کے پاس اپنا گھر گرم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے اور سرد موسم نے ان کی زندگی کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500