سلامتی

حالیہ دورے، مجوزہ ایف-16 پائیداری امریکہ، پاکستان کے درمیان دفاعی تعلقات کا اظہار

از زرک خان

گزشتہ نومبر میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کا طیارہ بحرین انٹرنیشنل ایئر شو کے دوران بین الاقوامی پانیوں پر ہوا سے ہوا میں ایندھن بھرتے ہوئے۔ [پی اے ایف]

گزشتہ نومبر میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کا طیارہ بحرین انٹرنیشنل ایئر شو کے دوران بین الاقوامی پانیوں پر ہوا سے ہوا میں ایندھن بھرتے ہوئے۔ [پی اے ایف]

واشنگٹن کے حالیہ اقدامات، جیسا کہ امریکی فضائیہ کے اعلیٰ افسر کا دورۂ پاکستان اور پاکستان کو ایف-16 لڑاکا طیاروں کی ممکنہ فروخت کی منظوری، دونوں ممالک کی فضائی افواج کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا ثبوت ہیں۔

نوویں فضائیہ (یو ایس ایئر فورس سینٹرل کمانڈ) کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل الیکسس گرینکویچ نے پیر (23 جنوری) کے روز اسلام آباد میں پاکستان کے ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سے ملاقات کی۔

پاک فضائیہ (پی اے ایف) کے ایک اعلامیئے کے مطابق دونوں نے "علاقائی سلامتی کی صورتحال، دو طرفہ اور دفاعی تعاون کو بڑھانے سے متعلق معاملات" پر تبادلۂ خیال کیا۔

نوویں فضائیہ کے کمانڈر کے طور پر، گرینکویچ وسطی اور جنوب مغربی ایشیاء پر محیط ذمہ داری کے 21 ممالک کے علاقے میں ہنگامی منصوبے تیار کرنے اور فضائی کارروائیاں کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

گزشتہ 28 فروری سے 4 مارچ تک پی اے ایف بیس پر فالکن ٹیلون 2022 کا حصہ بننے والے دو طرفہ تربیتی پروگرام کے دوران پاکستانی اور امریکی فضائیہ کے اہلکار تصویر بنواتے ہوئے۔ [یو ایس ایئرفورس سینٹرل]

گزشتہ 28 فروری سے 4 مارچ تک پی اے ایف بیس پر فالکن ٹیلون 2022 کا حصہ بننے والے دو طرفہ تربیتی پروگرام کے دوران پاکستانی اور امریکی فضائیہ کے اہلکار تصویر بنواتے ہوئے۔ [یو ایس ایئرفورس سینٹرل]

اعلامیئے میں مزید کہا گیا کہ ملاقات میں گرینکیوچ نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا اور "علاقائی امن کے فروغ میں پاکستان کی کوششوں" کی تعریف کی۔

اپنے بیان میں سدھو نے کہا کہ پاکستان "امریکہ کے ساتھ اپنے مضبوط سفارتی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو علاقائی امن، سلامتی اور استحکام سے متعلق تمام اہم امور میں ہم آہنگی پر مبنی ہیں"۔

اعلامیئے میں مزید کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے "فوج سے فوج کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا، خاص طور پر تربیت اور عملی شعبوں میں"۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان وسیع دفاعی شراکت داری ہے اور دونوں ممالک نے درپیش سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون سے کام کیا ہے۔

گرینکویچ کا دورہ دسمبر کے وسط میں امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے سربراہ جنرل مائیکل"ایرک" کوریلا کے دورۂ پاکستانکے ایک ماہ بعد ہوا ہے۔

سینٹکام نے 16 دسمبر کو ایک بیان میں کہا کہ کوریلا نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ "دفاعی تعاون، افغانستان پاکستان سرحد پر پہرے، خطے میں دہشت گرد گروہوں سے لاحق خطرات، جاری کارروائیوں، اور سینٹکام اور پاکستانی فوج کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے مواقع" پر تبادلہ خیال کیا۔

کوریلا نے پشاور کا سفر بھی کیا اور گیارہویں کور کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا، جو صوبہ خیبر پختونخواہ کو تفویض کیا گیا ہے اور افغانستان کے ساتھ لگ بھگ نصف سرحد کا ذمہ دار ہے۔

سینٹکام نے کہا کہ وہ اور گیارہویں کور کے سربراہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے درۂ خیبر کو دیکھ کر بگ بین چوکی پر گئے، جہاں انہوں نے "سرحد پر پہرے کا مشاہدہ کیا اور افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں سے سرحد پار خطرے پر تبادلۂ خیال کیا"۔

کراچی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر محمد حسین شاہ نے کہا کہ گرینکویچ اور کوریلا کے دوروں سے ظاہر ہونے والا بڑھتا ہوا دفاعی تعاون خطے میں "مقامی اور بین الاقوامی عسکریت پسند گروہوں، جیسے کہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور 'دولتِ اسلامیہ [عراق اور شام]' کا مقابلہ کرنے میں مدد دے گا۔

علاقائی استحکام کو فروغ دینا

یو ایس ایئر فورس سینٹرل نے گزشتہ 9 مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ برس، پاکستانی اور امریکی فضائیہ کے اہلکاروں نے 28 فروری سے 4 مارچ تک پی اے ایف بیس پر فالکن ٹیلون 2022 کے دوران دو طرفہ تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا۔

فالکن ٹیلون 2022 سنہ 2019 کے بعد پاکستان میں نوویں فضائیہ (ایئر فورس سینٹرل) کا پہلا بڑا تربیتی پروگرام تھا۔

بیان کے مطابق، مشقوں میں "براہِ راست پرواز کے مقابلے اور سرگرمیاں شامل ہیں تاکہ متعدد صلاحیتوں میں باہمی عمل کی صلاحیت کو مضبوط کیا جا سکے، بشمول دیکھ بھال، سیکیورٹی فورسز اور امدادی افعال"۔

امریکی فوج کے بریگیڈیئر جنرل جیمز سنڈل نے اُس وقت کہا، "امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کا جشن مناتے ہوئے، ہماری افواج فالکن ٹیلون کے دوران ہماری باہمی عمل کی صلاحیت اور شراکت داری کی صلاحیت میں اضافہ کرنے پر خوش تھیں"۔

اپریل 2021 میں، پی اے ایف نے اپنے ایک فضائی اڈے پر دو ہفتے کی مشقوں کا اہتمام کیا، جہاں پی اے ایف، رائل سعودی ایئر فورس (آر ایس اے ایف)، اور یو ایس ایئر فورس سمیت دیگر ممالک نے سرگرمی سے حصہ لیا۔

مشق میں پی اے ایف کے ایف-16 اور جے ایف-17 لڑاکا طیاروں اور آر ایس اے ایف کے ٹورنیڈو طیاروں نے حصہ لیا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کو انسداد دہشت گردی کی مشترکہ فضائی اور بحری مشقوں میں شرکت کی دعوت دینا خطے میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی تعاون کے لیے پاکستان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے.

پاکستان 10 سے 14 فروری تک کراچی کے ساحل سے بحیرۂ عرب میں ایک کثیر القومی بحری مشق امن-23 کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے، جس کا مقصد دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور سمندری دہشت گردی اور بحری قزاقی کا مقابلہ کرنا ہے۔

پاک بحریہ سنہ 2007 سے دو سالہ مشق امن کا انعقاد کر رہی ہے۔

پاکستان کو ایف-16 کے آلات کی فروخت کی منظوری

یو ایس ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی (ڈی ایس سی اے) نے 7 ستمبر کو کہا کہ ستمبر میں، امریکی محکمۂ خارجہ نے 450 ملین ڈالر تک کے معاہدے کے تحت پاکستان کو ایف-16 طیاروں کی برقراری اور متعلقہ آلات کی ممکنہ فروخت کی منظوری دی۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس 85 ایف-16 طیارے ہیں۔

ڈی ایس سی اے نے کہا، "پاکستان نے ڈپلیکیٹ کیس سرگرمیوں کو کم کر کے اور اضافی مسلسل معاونت کے عناصر کو شامل کر کے پی اے ایف کے ایف16 دستے کو سہارا دینے کے لیے ایف-16 کی پہلے کی پائیداری اور معاونت کے کیسز کو مضبوط کرنے کی درخواست کی ہے"۔

اس نے مزید کہا، "یہ مجوزہ فروخت امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مقاصد کی حمایت کرے گی جس سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جاری کوششوں اور مستقبل کی ہنگامی کارروائیوں کی تیاری میں امریکہ اور شراکت دار افواج کے ساتھ باہمی تعاون کو برقرار رکھنے کی اجازت ملے گی"۔

فالو آن معاونت کے معاہدے میں متعدد پروگراموں اور تکنیکی تعاون کے گروپوں میں پاکستان کی شرکت کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، بشمول ایف-16 ایئر کرافٹ سٹرکچرل انٹیگریٹی، انٹرنیشنل انجن مینجمنٹ، الیکٹرانک کامبیٹ انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس اور انجن کمپوننٹ امپروومنٹ پروگرام۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پی اے ایف چینی کے ایف-17 تھنڈر طیاروں پر منتقل ہو گئی ہے۔

تاہم، بہت سے جیٹ طیارے میکانکی مسائل کی وجہ سے گراؤنڈ کر دیے گئے ہیں جو چینی فوجی سازوسامان کے خراب معیار کا ایک اور اشارہ بن گئے ہیں۔.

پاکستان نے سنہ 2007 سے لے کر اب تک 100 سے زیادہ جے ایف-17 طیاروں رکھے ہیں۔

اس کے بعد سے، جے ایف-17 کے کئی حادثات ریکارڈ ہوئے ہیں، جس سے چین کے تعاون سے تیار کردہ طیاروں اور ان کے انجنوں کے معیار پر شدید شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔

سنہ 2012 کی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ میں 18 مہینوں کے دوران 12 حادثوں کی فہرست درج کی گئی تھی، جن میں کئی جے ایف-17 اور چینگڈو ایف-7 لڑاکا طیارے چین سے خریدے گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 5

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

امریکہ قابل اعتبار نہیں ہے۔

جواب

پاکستان کے 75 سال گواہ ھے کہ کبھی بھی امریکن پاکستان کے حق میں نہی رہی اگر چہ اس میں پاکستان کے نااہل ناقاقبت اندیش کا بھی اہم رول رہا ھے جبکہ پاکستان کے مقابلے میں امریکن پالیسی ہیندوستان کے حق میں بہتر رھے چونکہ امریکن پالیسیاں زیادہ تر اپنے مفاد میں ہوتے ہیں جس پر اعتبار نہی کیا جا سکتا زیادہ تر بلیکمیلینگ کے بنیاد پر ہوتے ہیں

جواب

Humain america sy F16 nhi chahiye humain ata gandm chahiye hum Jung nhi aman chahty Hain

جواب

سابق تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ قابلِ اعتماد دوست نہ ہے۔

جواب

کسی ایک ملک پر انحصار کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے جب آپ کے پاس دوسری چوائس بھی نہیں ہو گی تو آپ جس پر انحصار کر رہے ہیں وہ اپنی مرضی تو کرے گآ

جواب