واشنگٹن – روسی ویگنر گروہ گزشتہ برسوں کے دوران بدنامی میں بڑھ کر نجی تنخوادار جنگجوؤں کے ایک گمنام گروہ سے ایک ”کثیر ملکی جرائم پیشہ تنظیم“ میں بدل گیا۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے جمعہ (20 جنوری) کو کہا کہ صدر ویلادیمیر پیوٹن کے ایک قریبی ساتھی ییوگینی پریگوژن کے زیرِ انتظام، اس تنخواہ دار فوجی گروہ کے یوکرین میں تقریبا 50,000 جنگجو ہیں۔
انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ امریکہ ویگنر گروہ کو ”کثیر ملکی جرائم پیشہ تنظیم“ قرار دے رہا ہے، کہا کہ ان میں سے قریب 80 فیصد جیلوں سے نکالے گئے ہیں۔
کیربی نے کہا کہ اس طرح یہ اتالوی مافیا گروہوں اور جاپانی اور روسی منظم جرائم کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی وزارتِ خزانہ کی یہ تقرری اس گروہ کے بڑھتے ہوئے عالمی نیٹ ورک پر پابندیوں کے وسیع تر اطلاق کو ممکن بنائے کی، جس میں تنخواہ دار فوجی آپریشنز کے ساتھ ساتھ افریقہ اور دیگر مقامات پر کاروبار شامل ہیں۔
یوکرینی حکام نے کہا کہ ویگنر گروہ روسی جیلوں سے بھرتی کیے گئے ہزاروں افراد کو جنگ میں بھیج رہا ہے، اور ان سے تنخواہ اور معافی کا وعدہ کر رہا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، یوکرین میں بڑے نقصانات کے بعد، ویگنر گروہ -- وسط ایشیائی جمہوریہ (سی اے آر) سے جنسی زیادتی کرنے والوں اور قاتلوں سمیت سزایافتہ مجرموں کو بھی بھرتی کر رہا ہے۔
روس، شمالی کوریا اور ایران
جمعہ کے روز امریکی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے، کیربی نے ویگنر گروہ کو شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین آپریشن کے لیے اسلحہ فراہم کرنے کی تصاویر جو امریکی انٹیلی جنس سے حاصل کی گئی تھی، دکھائیں، انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ گروہ باقاعدہ روسی فوج کا ایک حریف بن چکا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ 18 اور 19 نومبر کو لی گئی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ روسی ریل گاڑیاں شمالی کوریا میں داخل ہوتی ہیں اور توپ خانہ کے راکٹ اور میزائلوں کی ایک کھیپ اٹھاتی ہیں اور روس کو لوٹ جاتی ہیں۔
کیربی نے اس کی معاونت کرنے والوں کی ”شناخت کرنے، انہیں منظرِ عام پر لانے، روکنے اور ہدف بنانے کے لیے سرتوڑ کام کرنے کا“ عہد کرتے ہوئے کہا کہ ویگنر گروہ ”ایک جرائم پیشہ تنظیم ہے جو بڑے پیمانے پر ظالمانہ اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالی کر رہی ہے ۔“
کیربی نے کہا کہ شمالی کوریا سے اسلحہ کی منتقلی اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کاؤنسل کی قراردادوں کی براہِ راست خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے نومبر میں کہا کہ ماسکو نے شمالی کوریا اور ایران سے اسلحہ تلاش کیا ہے کیوں کہ عالمی پابندیوں نے اسلحہ گودام کو دوبارہ بھرنے کی اس کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔
انہوں نے 2 نومبر کو کہا کہ شمالی کوریا ”بزدلی سے یوکرین میں روس کی جنگ کے لیے ایک بڑی تعداد میں توپ خانہ کے گولے فراہم کرتے ہوئے اسلحہ کی کھپوں کی اصل منزل کو چھپا رہا ہے۔“
امریکہ نے 15 نومبر کو یوکرین پر روس کی جنگ کی حمایت کرنے پر دیگر روسی اور ایرانی اداروں اور افراد کے ساتھ ساتھ ویگنر گروہ پر پابندیوں کی ایک تازہ کھیپ عائد کر دی ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس میں ایران کی جانب سے روس کو ڈرونز کی منتقلی شامل ہے، جو انہیں شہری تنصیبات اور شہروں پر حملے کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
روسی افواج نے اکتوبر میں میزائلوں اور ایک ایرانی ساختہ ڈرون شہید-136، جس کا نام روسی افواج نے بدل کر گیران-2 (کیرانیئم-2) رکھ دیا ہے، کا استعمال کرتے ہوئے یوکرینی سولین اور ضروری تنصیبات پر حملوں کا آغاز کیا۔
کریملن-ویگنر تناؤ
کیربی نے کہا کہ شواہد ہیں کہ یوکرین میں ویگنر گروہ کی نسبتی کامیابی پر پریگوژن کے اعتماد نے کریملن میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ”ویگنر گروہ روسی فوج اور دیگر روسی وزارتوں کے لیے ایک حریف محورِ قوت بنتا جا رہا ہے۔“
”پریگوژن یوکرین میں اپنے ذاتی مفادات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ویگنر گروہ اکثر عسکری فیصلے اس بنیاد پر کر رہا ہے کہ وہ پریگوژن کے لیے مثبت تشہیر کی مد میں کیا کچھ پیدا کریں گے۔“
پریگوژن نے مشرقی یوکرینی شہر باخموت کی جانب روسی پیشرفت بشمول گزشتہ ہفتے ہمسایہ سولیدار پر قبضہ کا سہرا اپنے سر لینے کے لیے دعویٰ کیا ہے۔
لیکن کریملن میں دیگر عہدیداران کے ساتھ ان کا اندرونی خلفشار ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی ادارہ برائے علومِ جنگ کے مطابق، پیوٹن اعلیٰ سطحی حلقہ ہائے اقتدار میں پریگوژن کے حریفوں کی ”بڑے پیمانے پر طرفداری کر رہے ہیں۔“
جمعرات کی ایک رپورٹ میں پبلک پالیسی ریسرچ آرگینائزیشن نے حوالہ دیا کہ پیوٹن نے باخموت کے علاقہ کی کامیابی کو براہِ راست ویگنر کا مرہونِ منت نہیں قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ”پیوٹن ممکنہ طور پر از سرِ نو ابھرتی ہوئی پیشہ ورانہ روسی فوج اور روسی حکومتی عہدیداران کے حق میں پریگوژن کے امتیاز کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
یوکرین میں میدانِ جنگ برابری کے دعووں کے بعد، کریملن نے روسی فوج اور ویگنر گروہ کے مابین تناؤ کی تردید کی ہے۔
بین الاقوامی مفرور
روسی صدر کے لیے واقعات کی ترتیب پیدا کرنے کے لیے ”پیوٹن کے باورچی“ کے طور پر معروف 61 سالہ پریگوژن کئی برسوں سے امریکہ کی نظروں میں ہیں۔
امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹیگیشن (ایف بی آئی) پریگوژن کی گرفتاری تک پہنچانے والی معلومات کے عوض 250,000 ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کر رہا ہے۔
امریکی محکمۂ انصاف نے 2018 میں دو برس قبل انٹرنیشنل ریسرچ ایجنسی (آئی آر اے) اور ان کی زیرِ ملکیت کونکورڈ مینیجمنٹ اینڈ کنسلٹنٹ کمپنیز کے ذریعے امریکی صدارتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر پریگوژن کی مداخلت کی نشاندہی کی تھی۔
واشنگٹن نے 2020 میں پریگوژن پر دوبارہ یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کر دی تھیں کہ 2016 اور 2020 میں انتخابات میں مداخلت کے پیچھے آئی آر اے کا ہاتھ تھا۔
آئی آر اے پر برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت دیگر ممالک کے انتخابات اور ریفرنڈا کے دوران انتشار انگیز پراپیگنڈا پھیلانے کا الزام بھی ہے۔
یورپی یونیئن نے 2020 میں ویگنر گروہ کی حمایت کے ذریعے لیبیا کو غیرمستحکم کرنے پر پریگوژن کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔
کئی برسوں تک پریگوژن منظرِ عام سے دور رہے۔ یہ ستمبر میں تبدیل ہوا جب انہوں نے بالآخر 2014 میں ویگنر گروہ تشکیل دینے کا دعویٰ کیا اور اسے ”ہماری مادرِ وطن کی فصیل“ جنگجو قرار دیا۔
نومبر میں انہوں نے انتخابات میں مداخلت کو تسلیم کیا۔
پریگوژن کی ٹیم کی جانب سے بتائے گئے ان کے بیان میں انہوں نے کہا، ”حضرات، ہم نے مداخلت کی، ہم مداخلت کر رہے ہیں اور ہم مداخلت کریں گے۔“
انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا، ”احتیاط سے، درستگی سے، سرجیکلی اپنے طریقے سے، اس طریقے سے جو ہم جانتے ہیں۔“
اس اعلیٰ سطحی اعلان کی متعدد تجزیہ کاروں نے یہ تشریح کی کہ یہ ثبوت ہے کہ پریگوژن روس میں ایک ممکنہ سیاسی کردار پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔