سلامتی

میزائلوں کا ذخیرہ کم ہونے پر کریملین بچا کھچا مال نکال رہا ہے

اولاہ چیپل اور اے ایف پی

7 دسمبر کو لی گئی اس فضائی تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ سرکاری وکیل کے دفتر سے ایک تجزیہ کار روسی فوج کی جانب سے یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیو پر حملہ میں استعمال ہونے ہوالے میزائلوں کے جمع شدہ خول اور باقیات کا معائنہ کر رہا ہے۔ ]الیخسے فلپوف/اے ایف پی[

7 دسمبر کو لی گئی اس فضائی تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ سرکاری وکیل کے دفتر سے ایک تجزیہ کار روسی فوج کی جانب سے یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیو پر حملہ میں استعمال ہونے ہوالے میزائلوں کے جمع شدہ خول اور باقیات کا معائنہ کر رہا ہے۔ ]الیخسے فلپوف/اے ایف پی[

کییو – جیسا کہ ماسکو یوکرین کی شہری توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو ہدف بناتے ہوئے حملے جاری رکھے ہوئے ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رس کے میزائلوں کا ذخیرہ نہایت کم سطح پر آ گیا ہے۔

فروری میں روس کے یوکرین کے حملے اور صدرمقام پر قبضہ کرنے کی کوشش کے بعد تقریباً 10 ماہ سے کییو فضائی حملوں کے سائرن اور متواتر فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

لیکن اکتوبر سے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے، جب سے روس نے منظم طور پر نہایت اہم بنیادی ڈھانچے کو میزائل اور ڈرون حملوں سے نشانہ بنانا شروع کیا، جس سے یوکرین میں دسیوں لاکھوں افراد کے لیے بجلی، پانی اور نظامِ حرارت درہم برہم ہو گئے ہیں۔

جواباً کییو کے مغربی اتحادی یوکرین کو جدید تر فضائی دفاعی نظام فراہم کر رہے ہیں۔

یوکرین پر روسی حملے کے دوران ایک میزائل حملے کے بعد، اس عمومی منظر میں 11 ستمبر کو رات گئے خارکیو میں ایک بجلی گھر میں جلتی ہوئی آگ دکھائی گئی ہے۔]ییوہین تیتوو/اے ایف پی[

یوکرین پر روسی حملے کے دوران ایک میزائل حملے کے بعد، اس عمومی منظر میں 11 ستمبر کو رات گئے خارکیو میں ایک بجلی گھر میں جلتی ہوئی آگ دکھائی گئی ہے۔]ییوہین تیتوو/اے ایف پی[

یوکرین پر روسی حملے کے دوران 28 نومبر کو کییو کے نواح میں وئیشہورود میں ایک میزائل حملے سے تباہ شدہ عمارت کے قریب مرمت کرنے والے کارکنان کام کر رہے ہیں۔ ]گینیا ساویلوف/اے ایف پی[

یوکرین پر روسی حملے کے دوران 28 نومبر کو کییو کے نواح میں وئیشہورود میں ایک میزائل حملے سے تباہ شدہ عمارت کے قریب مرمت کرنے والے کارکنان کام کر رہے ہیں۔ ]گینیا ساویلوف/اے ایف پی[

تاہم ایسے حملوں کی کچھ قیمت ہوتی ہے، اور اس سے روس کے میزائلوں کا ذخیرہ خطرناک حد تک کم ہو گیا ہے۔

جنگی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میزائلوں کا ذخیرہ عمومی سطح کے 30 فیصد سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔

قبل از جنگ کے 13 فیصد تک

لیکن یوکرین کے وزیرِ دفاع اولیکسی ریزنکوف نے 6 دسمبر کو کہا کہ روس کے کم فاصلے کے اسکندر بالیسٹک میزائل مکمل ذخیرہ کے 13 فیصد پر ہیں، جبکہ کلیبر کروز میزائل اپنی اصل تعداد کے 30 فیصد پر پہنچ رہے ہیں۔

انہوں نے 5 دسمبر کو روس کی جانب سے میزائلوں کی حالیہ بوچھاڑ کے بعد یہ رائے دی جس میں 70 کے قریب میزائل شامل تھے۔

ریزنکوف نے کہا، "وہ پہلے ہی اپنے لیے نتائج کی پرواہ کیے بغیر بہت کچھ کر چکے ہیں۔ وہ حقیقی طور پر کروز اور بالیسٹک میزائلوں کا محفوظ ذخیرہ استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "متعدد سامان کے لیے وہ پہلے ہی اس محفوظ ذخیرہ کی حد سے بہت نیچے آ گئے ہیں جو انہیں اس صورت میں درکار ہو گا کہ اگر کوئی ان پر حملہ کر دے۔"

یوکرینی مرکز برائے سلامتی و تعاون کے ڈائریکٹر سریئے کوزان نے کاروان سرائے سے بات کرتے ہوئے کہا، "روس کے میزائل ختم ہو رہے ہیں – اس میں کوئی دو رائے نہیں۔"

انہوں نے کہا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ روس طویل فاصلے تک مار کرنے والے جوہری صلاحیت کے حامل میزائل ]جن کا مقصد سمندر پار یا دوسرے برِ اعظموں میں مار کرنا ہوتا ہے[ کو اپنے ہمسایہ یوکرین میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے روائتی ہتھیاروں سے لیس کر رہا ہے۔

کوزان کے مطابق، ایسے میزائل اس لیے استعمال کیے جا رہے ہیں کیوںکہ روس کے پاس یوکرین کے فضائی دفائی نظام کو ناکام بنانے کے لیے میزائلوں کا ایک بڑا حملہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

انہوں نے کہا، "میں یقین سے نہیں کہ سکتا کہ یہ ایک اچھا حل ہے، تاہم انہیں کسی طرح ہمارے فضائی دفاعی نظام میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ اور یہ صرف ایک بڑے حملے ہی سے ممکن ہے۔"

"ہم ]سوویت دور[ کے اپنے حالیہ نظام کو اپنے مغربی شراکت داروں کی جانب سے آنے والے نئے نظام سے تقویت دے رہے ہیں۔۔۔ یہ ایسے آلات ہیں جو حرکت کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ آئندہ ]روسی[ بمباری کے لیے راستوں کا حساب لگا سکتے ہیں اور انہیں ممکنہ حد تک مؤثر طور پر نصب کر سکتے ہیں۔"

کوزان نے کہا، "ہم ابھی تک دشمن کے میزائلوں کو 90 فیصد تک مار گرانے کی شرح حاصل نہیں کر سکے، تاہم ہم پہلے ہی 80 فیصد سے اوپر ہیں۔ یہ بہت اچھے اعداد ہیں۔"

پرزہ جات کا فقدان

انفورزسٹ ویب سائیٹ کے لیے کییو سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری تجزیہ کار الیگزانڈر کووالینکوف نے کہا، "روسی پہلے ہی تضویری ذخائر استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، یہ ذخائر عام طور پر روس پر براہِ راست حملے کی صورت میں حفاظت کے لیے بچائے جاتے ہیں۔

"وہ اپنے آپ کو خطرے سے دوچار کر رہے ہیں، اور یہ ان کے لیے ہر چیز سے پہلے، ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔"

کووالینکوف کے مطابق، اگرچہ روس فضا سے چھوڑے جانے والے کے ایچ-101 کروز میزائل، کلبیر کروز میزائل اور کے ایچ-59 ٹی وی گائیڈڈ میزائل تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے، تاہم یہ بڑے پیمانے پر نہیں تیار کیے جا رہے۔

انہوں نے کہا، "]روسی[ ایک ہفتے میں دو یا تین میزائل بناتے ہیں۔ وہ اتنا ہی کر سکتے ہیں، اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وہ ان میزائلوں کی فوری ضروت کے دوران اس شرحِ رفتار میں پھنسے ہوئے ہیں۔"

انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سست پیداوار کے پیچھے بڑے عوامل میں سے ایک مغربی پابندیاں ہیں۔

کووالینکوف نے کہا، "ان کی پیداورای صلاحیت کا مکمل دارومدار بیرونِ ملک تیار ہونے والے پرزہ جات پر ہے: مائیکروچپس، سیمی کنڈکٹر، مائیکروسرکٹ اور اسی طرح سے۔ شدید پابندیوں کے دوران وہ صرف سمگلنگ کے ذریعے ہی یہ چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔"

"روسی دیگر ممالک، فرنٹ کمپنیوں اور آف شور زونز کے ذریعے یہ پرزہ جات سمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سمگل شدہ سامان کی دستیابی کے بغیر، وہ میزائل بنانے کی حالت میں نہیں۔"

کووالینکوف نے کہا، "ان کے پاس پرزہ جات نہیں ہیں۔"

تجزیہ کاروں کا اندزاہ ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ روس کی اسلحہ کی صنعت کو یوکرین پر ایک بڑا حملہ کرنے میں معاونت کے لیے سمگل شدہ پرزہ جات اکھٹے کرنے میں چھ ماہ تک صرف کرنے ہوں گے۔

اس اثناء میں کریملن کو پرانے سوویت میزائلوں کو، جنہیں انہوں نے قبل ازاں معذول یا ضائع کر دیا تھا، دوبارہ درست کرنے سمیت اپنے میزائلوں کے ذخیرہ کو دوبارہ بھرنے کے لیے دیگر راستے تلاش کرنا ہوں گے۔

کووالینکوف نے کہا، "کچھ میزائل ]بڑے پیمانے پر مرمت کے بغیر[ بالکل ناقابلِ استعمال ہیں۔ روسی ان کی مرمت اور دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر یوکرین پر حالیہ حملوں میں کے ایچ-22 میزائل استعمال کیے گئے تھے۔ یہ پرانے سوویت میزائل ہیں جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ بالکل بھی استعمال نہیں کریں گے۔۔۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ تین کے ایچ-22 میزائل استعمال ہوئے۔"

"میں اس امر کو بعید از قیاس قرار نہیں دیتا کہ انہوں نے کے ایچ-22 کو اچھی طرح سے بنایا اور مرمت کیا ہو گا، جو کہ طویل عرصہ تک پڑے رہنے کے بعد باہر آئے، تاہم محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں بچا کھچا مال نکال رہے ہیں۔"

کے ایچ-22 ایئر کرافٹ کیریئرز اور کیریئر بیٹل گروپس کے خلاف استعمال کے لیے بنائے گئے تھے۔

'پہلے سے ہار چکے'

روس نے ایران سے بھی میزائل مانگے ہیں۔

انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ تہران کی جانب سے بنا آدمی کے فضائی گاڑیوں (یو اے ویز)، جیسا کہ بدھ کے حملے میں استعمال ہوئیں، کی قبل ازاں کھیپ کے بعد ایران نے ماسکو کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔

ایک تھنک ٹینک، یونائیٹڈ یوکرین کے ساتھ کییو سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل سائنٹسٹ اور تجزیہ کار دمئیترو لیوس نے کہا، "کسی نے سوچا نہ تھا کہ ]روسی صدر ویلادیمیر[ پیوٹن ہتھیاروں کے لیے ایران جیسا ملک، جو خود ایک پیریاہ ریاست ہے، تو درکنار دنیا بھر میں ہی دوڑے پھریں گے۔ یہ روس کی صورتِ حال ہے۔"

انہوں نے کاروان سرائے کو بتایا، "دراصل ایران روس سے منسلک ہونے سے خوفزدہ ہے۔ یہ کامیکازے ڈرونز کے واقعہ میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے جو ایک دم سے روس کے پاس آ گئے۔"

کئی ہفتوں تک اس امر کی سختی سے تردید کے بعد کہ اس نے ماسکو کو ڈرون منتقل کیے، باوجودیکہ اس کے خلاف کافی شواہد تھے، 5 نومبر کو تہران نے اچانک موقف تبدیل کر لیا۔

ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہین نے تصدیق کی کہ ایران نے روس کو ڈرون فراہم کیے ہیں، جبکہ ان خبروں کی تردید کی کہ اس نے یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے ماسکو کو میزائل بھیجے ہیں۔

لیوس نے کہا، "اگر آپ روس کے تمام تر عسکری نظام کو دیکھیں، تو یہ پہلے ہی ہار چکا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500