سلامتی

تین برس بعد بھی سلیمانی کی موت آئی آر جی سی قدس فورس کو ڈراتی ہے

بہروز لاریگانی

یہاں 2019 میں لی گئی اس تصویر میں آئی آر جی سی-کیو ایف کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی لبنان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔[تابناک]

یہاں 2019 میں لی گئی اس تصویر میں آئی آر جی سی-کیو ایف کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی لبنان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔[تابناک]

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک کمزور تر سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی-کیو ایف) اس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت کا ایک نمایاں ترین نتیجہ ہے، جنہیں جنوری 2020 میں ایک امریکی فصائی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔

کسی دور میں زبردست آئی آر جی سی – کیو ایف، جو ایران کے خارجی آپریشنز کی سمت طے کرتی ہے، کا رسوخ اور طاقت سلیمانی کے جانشین بریگیڈیئرجنرل اسماعیل قانی کی قیادت میں کمزور پڑ رہا ہے۔

انٹیلی جنس تجزیہ کار ساسان تمغہ نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تہران نہ تو قدس فورس کی تعمیرِ نو کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے مستحکم کر سکتا ہے۔

تمغہ نے کہا کہ سلیمانی کے جانشین نے افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ایران کی سرحد پر آپریشنز میں اپنا وقت صرف کیا ہے، لہٰذا ان کا تجربہ انہی علاقوں تک محدود ہے۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ اپریل میں یہاں دکھائے گئے آئی آر جی سی -کیو ایف کمانڈر اسماعیل قانی میں اپنے پیش نشین کے علم اور خطے میں روابط کا فقدان ہے۔ [تسنیم]

مشاہدین کا کہنا ہے کہ اپریل میں یہاں دکھائے گئے آئی آر جی سی -کیو ایف کمانڈر اسماعیل قانی میں اپنے پیش نشین کے علم اور خطے میں روابط کا فقدان ہے۔ [تسنیم]

مشرقِ وسطیٰ میں قدس فورس کے علاقۂ رسوخ میں قانی کی تھوڑی بہت واقفیت شام تک محدود ہے، جو کہ زیادہ تر ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں پر مشتمل فاطمیون ڈویژن کی تشکیل میں ان کے کردر کی وجہ سے ہے۔

یہ ضمنی جنگی گروہ شامی حکومت کے ہمراہ شام میں لڑائی کے لیے تعینات ہے۔

با معنی کامیابیوں کا فقدان

تمغہ نے کہا کہ سلیمانی کے جانشین کے طور پر ان کی قیادت میں براہِ راست کام کرنے والے قانی کے انتخاب کا مطلب ہے کہ حکومت اسی روش پر چلنا جاری رکھنا چاہتی ہے۔

لیکن دونوں کے مابین بنیادی فرق نے اس ارادے کو ناکام بنا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتِ ایران کے پراپیگنڈا میں آئی آر جی سی- کیو ایف کی "نئی فتوحات" کے طور پر شیخی بگھاری جاتی ہے، لیکن یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ سلیمانی کی موت نے اس حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

اگرچہ سلیمانی کی موت کے بعد سے حکومت کی بطورِ کل حکمتِ عملی نہیں بدلی، تاہم ان کے جانشین اس طرح سے جاری نہیں رکھ سکے جس جس طرح سے سلیمانی نے قیادت اور رسوخ استعمال کیا۔

کیرمن اساسی سیاسی تجزیہ کار فرمراز ایرانی نے کہا کہ قانی سلیمانی کے قائم کردہ روابط سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں۔

ایرانی نے کہا کہ وہ تین برس سے آئی آر جی سی-کیو ایف کی قیادت پر ہیں، لیکن ان کی کوئی بامعنی کارنامہ یا حقیقی کامیابی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں سلیمانی کی طرح خطے میں روابط قائم کرنے کی صلاحیت کا بھی فقدان ہے۔

انہوں نے کہا، "سلیمانی خطے میں شخصیات، بطورِ خاص عراقیوں کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ ان کے شعیہ اور سنّی، ہر دو شدت پسند گروہوں میں سے زیادہ تر کے ساتھ روابط تھے، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں ساکھ حاصل کر چکے تھے۔"

انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا، "سلیمانی ان گروہوں پر رسوخ رکھتے تھے، ان کا یہ رسوخ ان کے ساتھ طویل عرصہ کے اشتراک کا نتیجہ تھا۔"

"قانی کا ایسا کوئی پس منظر نہیں۔"

بڑھتی ہوئی دراڑیں

گزشتہ دو برس میں قانی کے بغداد کے دوروں میں سے کسی کو بھی مشاہدین نے کامیاب نہیں قرار دیا۔

گزشتہ موسمِ سرما میں اپنے دورۂ عراق اور اس کے ساتھ ساتھ جون میں اپنے "خفیہ" دورۂ بغداد میں قانی ضمنی عسکریت پسندوں کو عراقی عسکری چھاؤنیوں پر میزائل داغنا بند کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہے۔

اسی طرح سے وہ شعیہ عسکریت پسندوں کو عراقی حکومت کی جانب اپنا رویہ تبدیل کرنے پر قائل کرنے میں بھی ناکام رہے۔

متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ سیدالشہدء، اسائب الحق، کتائب حزب اللہ اور اس سے ملحقہ ملشیا جیسی ملشیا نے گزشتہ برس آئی آر جی سی –کیو ایف کے احکامات نہیں مانے۔

ان گروہوں کے مابین دراڑیں پر چکی ہیں، جو طویل مدت میں آئی آر جی سی – کیو ایف کی برتری کو متاثر کر سکتی ہیں۔

مشایدین کا کہنا ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ کی مخالف قوتوں کو آئی آر جی سی – کیو ایف کے کٹاؤ کا جائزہ لینے کے لیے اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

اگرچہ ایران کا زیادہ تر پراپیگنڈا قانی کی صلاحیتوں پر مرکوز ہے، تاہم حکومت کے متعدد عہدیداران بظاہر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ حالیہ چیلنجز پر قابو نہیں پا سکتے۔

تمغہ نے کہا کہ مغرب کو مطمئن نہیں ہونا چاہیئے کہ آئی آر جی سی – کیو ایف کی تشکیلِ نو نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا، "مغرب کو اس اسلامی جمہوریہ کے خلاف طاقت کے مقام سے کاروائی کرنی چاہیئے کیوں کہ یہ واحد منطق ہے جسے ایرانی حکومت کے عہدیدار سمجھتے ہیں۔"

تمغہ نے کہا، "اگر اس اسلامی جمہوریہ کی جانب کسی خفیف تر کمزوری کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے، تو حکومت اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے اس کا غلط استعمال کرے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500