جرم و انصاف

خیرسون میں روسیوں کے زیرِ حراست قیدی پر ہونے والے تشدد کی کہانی

از اے ایف پی

اناتولی سٹوٹسکی 15 نومبر کو، وسطی خیرسون میں پولیس کی عمارت کے قریب کھڑے ہو کر ایک انٹرویو دے رہے ہیں۔ اناتولی سٹوٹسکی کو ہفتوں تک حراست میں رکھا گیا، مارا پیٹا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ [بیولنٹ کیلنک/ اے ایف پی]

اناتولی سٹوٹسکی 15 نومبر کو، وسطی خیرسون میں پولیس کی عمارت کے قریب کھڑے ہو کر ایک انٹرویو دے رہے ہیں۔ اناتولی سٹوٹسکی کو ہفتوں تک حراست میں رکھا گیا، مارا پیٹا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ [بیولنٹ کیلنک/ اے ایف پی]

خیرسون -- اسے ہفتوں تک حراست میں رکھا گیا، مارا پیٹا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ اسے پیشاب میں خون آنے لگا۔ اس کا 25 کلو وزن کم ہو گیا اور اس نے خود کو مارنے کا بھی سوچا۔

اناتولی سٹوٹسکی روسی اور روس نواز افواج کے ہاتھوں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بدسلوکی سے بچ گئے، جنہوں نے جنوبی یوکرین کے شہر خیرسون پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے خاندان کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اسٹوٹسکی نے اے ایف پی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’میں نے خود کو مارنے کا سوچا"۔

یوکرین کے شہری نے، جو زیرِ حراست 50 سال کے ہوئے تھے، کہا کہ "لیکن اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے سے مجھے یہ سب برداشت کرنے کی اخلاقی طاقت ملی۔"

آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے قبضے کے بعد، گزشتہ ہفتے روسی فوج کی پسپائی کے بعد سے خیرسون سے استحصال، بدسلوکی اور تشدد کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔

سٹوٹسکی، جس نے وسطی خیرسون میں اپنے گھر پر اے ایف پی سے بات کی، کہا کہ انہیں دو بار گرفتار کیا گیا اور کئی ہفتوں تک حراست میں رکھا گیا جہاں انہیں روسی اور روس نواز فورسز نے باندھ کر مارا اور بجلی کے جھٹکے لگائے۔

سٹوٹسکی جو کہ یوکرین کی علاقائی دفاعی فورس کے ایک رکن تھے، نے 2 مارچ کو روسی فوجیوں کو خیرسون پر قبضہ کرتے ہوئے دیکھا۔

حکمتِ عملی کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والی بحیرہ اسود کی بندرگاہ پر قبضے کے بعد، اسے گھر میں رہنے اور ہدایات کا انتظار کرنے کے احکامات موصول ہوئے۔ کئی ہفتوں بعد روسیوں نے کیئف کے ہمدردوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔

روسی 25 اپریل کو اسٹوٹسکی کو لینے کے لیے آ گئے جو اپنی بیوی اور تین سالہ بیٹی کے ساتھ گھر پر تھے۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے انہیں اپنے ہتھیار اس لیے دے دیے کیونکہ وہ میرے خاندان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے"۔

روسیوں نے اس کے سر پر کپڑا ڈال دیا اور اسے اپنے گھر کے قریب ایسی جگہ لے گئے جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ وہ پولیس سٹیشن ہے۔

اسے ایک کوٹھڑی میں کرسی سے باندھ کر تین چار لوگوں نے پوچھ گچھ کی۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے مجھے ڈنڈوں سے مارا اور میرے سر پر پستول یا رائفل رکھ دی۔" اسٹوٹسکی کو کانوں اور سر کے اوپری حصے پر ضربیں لگیں کیونکہ روسیوں نے بظاہر کوئی نشان چھوڑنے سے بچنے کی کوشش کی۔

نقاب پوش آدمیوں نے -- جو اس کے خیال میں روس کی سیکورٹی سروس، ایف ایس بی کے ارکان تھے -- کیمرے پر اس سے اس کے گھر سے ملنے والے ہتھیار کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔

روسیوں نے اس کے انگلیوں کے نشانات اور ڈی این اے کا نمونہ لیا۔ اسے شہر چھوڑنے سے منع کیا گیا اور ماسکو افواج کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا گیا۔

اسے 4 مئی کو رہا کیا گیا، سر پر کپڑا باندھ کر گلی میں پھینک دیا گیا۔

'زخموں سے ڈھکا ہوا'

انہوں نے کہا کہ "جب میں گھر آیا تو میں بالکل نیلا تھا، میں زخموں سے ڈھکا ہوا تھا"۔

اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس کی بیوی اور بیٹی خیرسون کے شمال مشرق میں تقریباً 300 کلومیٹر (تقریباً 190 میل) دور، زاپروژیا کے قریب ایک چوکی سے گزرتے ہوئے شہر سے نکلیں۔ وہ خود پیچھے رہ گیا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ وہ جانے سے بہت ڈر رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سٹوٹسکی کو 6 جولائی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا، کیونکہ شہری مزاحمت کے ارکان شہر میں تیزی سے سرگرم ہو رہے تھے۔

اس کا خیال ہے کہ دوسری بار غالباً اسے عوامی جمہوریہ ڈونیٹسک کی ریاستی سلامتی کی وزارت کے ارکان نے پکڑا تھا، جسے ستمبر کے آخر میں صدر ولادیمیر پوتن نے ملحق کیا تھا۔

ان افراد نے سٹوٹسکی کو بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ پہلے حراست میں رہے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان سے مناسب طریقے سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ"اب آپ ہمیں سب کچھ بتانے جا رہے ہیں، آپ کس کو جانتے ہیں اور آپ کے ہتھیار کہاں ہیں۔"

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ "پہلے پانچ یا چھ دن تک وہ مجھے مارتے رہے۔"

"رات کو وہ مجھے سونے نہیں دیتے تھے۔ ہر دو گھنٹے بعد وہ میرے سیل میں آتے اور مجھے اٹھ کر اپنا نام بتانے پر مجبور کرتے تھے۔"

اسے پائپ کے ساتھ ہتھکڑیاں لگا کر بیٹھنا پڑا اور وہ لیٹ نہیں سکتا تھا۔

جب بھی اس کے جیلر اس کی کوٹھڑی میں داخل ہوتے، اسے اپنے سر پر ایک تھیلا رکھنا پڑتا تھا ورنہ اسے مارے پیٹے جانے کا خطرہ ہوتا تھا۔

ایک دن اسے پوچھ گچھ کے لیے دوسرے سیل میں لے جایا گیا۔

تین دن میں ایک بار کھانا

اسٹوٹسکی نے کہا کہ "انھوں نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور مجھے زمین پر بٹھا دیا۔ انھوں نے میری چھوٹی انگلیوں سے کلپس جوڑ دیے"۔

"انہوں نے مجھے اس وقت بجلی کے جھٹکے لگائے جب میں زمین پر لیٹا تھا۔ آپ کے پٹھے سکڑ جاتے ہیں اور آپ کے اندر کی ہر چیز مڑ جاتی ہے۔"

یوکرین کے شہری کا کہنا تھا کہ انہیں بیت الخلا تک رسائی کی اجازت شاذ و نادر ہی ملتی تھی اور انہیں خود کو فارغ کرنے کے لیے خالی بوتلیں استعمال کرنا پڑتی تھیں۔

پہلے دو ہفتوں تک اس کے پیشاب میں خون آتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میرے گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے تھے۔

اسے تین دن میں ایک دفعہ کھانا ملتا تھا اور اس کا خیال ہے کہ اس نے حراست میں تقریباً 25 کلو (55 پاؤنڈ) وزن کم کیا ہے۔

اس نے مزید کہا کہ سیلوں میں "دیواروں میں سوراخ" تھے اس لیے وہ دوسرے قیدیوں سے بات کر سکتا تھا "تاکہ میرا دماغ خراب نہ ہو جائے"۔

بالآخر اسے 20 اگست کو رہا کر دیا گیا۔

اس بار اسٹوٹسکی گرفتاری کے خوف سے گھر واپس نہیں آیا اور رشتہ داروں کے پاس رہنے چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بار انہیں شہر کے وسط میں واقع ایک پرانی دفتر کی عمارت میں رکھا گیا جس کے داخلی دروازے پر جاپان، امریکہ اور یوکرین کے جھنڈے آویزاں تھے۔

اے ایف پی کی ایک ٹیم نے 15، پائلیپ اورلائک اسٹریٹ پر واقع چار منزلہ عمارت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے واپس بھیج دیا گیا۔

داخلی دروازے پر موجود ایک شخص نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ’’تفتیش جاری ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500