ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کے سینیئر حکام نے قومی ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشنوں پر "سینکڑوں جبری اعترافات" نشر کیے ہیں، جس سے وہ نئی امریکی پابندیوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔
امریکہ نے 16 نومبر کو اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ (آئی آر آئی بی) کے چھ اعلیٰ عہدیداروں کو بلیک لسٹ کر دیا، جس نے "ایران میں سینکڑوں ایرانی، دوہری قومیت والوں اور بین الاقوامی قیدیوں کے جبری اعترافات نشر کیے ہیں"۔
امریکی محکمۂ خزانہ کے اہلکار برائن ای نیلسن نے کہا کہ ایرانی حکومت کا "جبری اعترافات پر جامع انحصار حکومت کے اپنے شہریوں اور عالمی برادری سے سچ بولنے سے انکار کی عکاسی کرتا ہے"۔
وزارتِ خزانہ کے اعلان میں کہا گیا ہے، "ایران میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو سروسز پر آئی آر آئی بی کی اجارہ داری ہے"۔
اس حالت میں، سرکاری کمپنی "اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کے استعمال کو محدود کرنے اور سنسر شپ سرگرمیوں کے ذریعے ایران میں معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو روکنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے"۔
اس میں کہا گیا ہے کہ آئی آر آئی بی ایران میں اور بین الاقوامی سطح پر حکومتی پروپیگنڈا تیار کرتا ہے، اس کی سرپرستی کرتا ہے اور اسے پھیلاتا ہے، ایرانی شہریوں، دوہری شہریت والوں اور غیر ملکیوں پر باقاعدگی سے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے۔
وزارتِ خزانہ نے مزید کہا کہ یہ جھوٹی خبروں کو غلط معلومات دینے اور حکومت کے سمجھے جانے والے دشمنوں کو جھوٹے الزام لگانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ایران کی انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی کی وزارت (ایم او آئی ایس) اور سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کی جانب سے لیے گئے، اور آئی آر آئی بی کی جانب سے فروغ دیئے اور نشر کیے گئے جبری اعترافات، ان نامزدگیوں کی وجوہات میں شامل ہیں۔
سنہ 2009 کے بعد سے، آئی آر آئی بی نے سینکڑوں افراد کے زبردستی اعترافات نشر کیے ہیں، خاص طور پر دوہری شہریت والوں اور غیر ملکیوں کو جاسوس دکھانے کے لیے۔
یہ جبری اعترافات انسانی حقوق کے کارکنوں کو شیطانی بنانے اور بہائی برادری جیسے مذہبی اقلیتی گروہوں پر جبر کو جائز قرار دینے کے کام آتے ہیں۔
آئی آر آئی بی کے بلیک لسٹ کردہ حکام
بذاتِ خود آئی آر آئی بی ایرانی حکومت کی سنسر شپ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے، 6 فروری سنہ 2013 سے پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔
نئی پابندیوں کا ہدف آئی آر آئی بی کے چھ سینیئر ترین ملازمین ہیں، جن میں علی رضوانی اور آمنہ سادات ذبیح پور شامل ہیں، جنہیں امریکی وزارت خزانہ "تفتیش کار صحافی" کے طور پر بیان کرتی ہے۔
رضوانی اور ذبیح پور 20:30 نامی ایک بدنام زمانہ ٹی وی پروگرام کی نمایاں شخصیات ہیں، جس میں باقاعدگی سے جبری اعترافات نشر ہوتے ہیں۔
سنہ 2020 کے ایک حصے میں، رضوانی نے پھانسی سے پہلے روح اللہ زام کا انٹرویو کیا تھا، جو ایک جلاوطن مخالف اور سیاسی کارکن تھے۔ زام کو مبینہ طور پر عراق میں سنہ 2019 میں قبضے میں لیا گیا تھا اور اسے زبردستی مقدمہ چلانے کے لیے ایران واپس کر دیا گیا تھا۔
رضوانی کو کاووس سید امامی کے تفتیش کار کے طور پر بھی نامزد کیا گیا تھا۔
ایک مشہور ماہرِ ماحولیات اور چیتوں کے تحفظ کے ماہر، سید امامی، جن پر ایران کے میزائل ڈپو کی جاسوسی کے لیے نگرانی کرنے والے کیمروں کے استعمال کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا، فروری 2018 میں جیل میں تشدد کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
ایرانی عدلیہ کے حکام نے ان کی موت کو خودکشی قرار دیا تھا۔
آئی آر آئی بی میں فارسی زبان کے غیر ملکی میڈیا گروپ کے سربراہ کے طور پر، ذبیح پور کی دوہری شہریت کے حامل افراد، سول سوسائٹی کے کارکنوں، سیاسی قیدیوں، مصنفین اور مذہبی اقلیتوں کے جبری اعترافات میں براہِ راست ملوث ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔
وزارتِ خزانہ نے کہا کہ حال ہی میں، ذبیح پور نے ایم او آئی ایس اور دیگر ایرانی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے بہائی عقیدے کے افراد کے گھروں پر ملک گیر چھاپوں کے ساتھ مل کر ایرانی بہائی برادری کو نشانہ بنایا ہے۔
اگست میں، ایم او آئی ایس نے بہائی اقلیت کے 13 ارکان کی گرفتاری کا اعلان کیا اور ان پر جاسوسی اور اپنے مذہب کی ترویج کے لیے غیر قانونی طور پر کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
بہائی برادری کے ان افراد کو ملک بھر میں 52 گھروں اور کاروباری اداروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا تھا۔
پیمان جبلی، جنہیں ستمبر 2021 میں ایران کے رہنماء علی خامنہ ای نے آئی آر آئی بی کے ڈائریکٹر کے طور پر مقرر کیا تھا، بلیک لسٹ کیے گئے اہلکاروں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے آئی آر آئی بی کے سینیئر مینیجروں کو دوسرے لوگوں سے تبدیل کر دیا ہے جن کے آئی آر جی سی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اور اشاعت کے لیے جھوٹے بیانیے بنانے کے لیے براہِ راست آئی آر جی سی کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
اپنے ماضی کے عہدوں میں، جبلی نشریات کے لیے جبری اعترافات کی ہدایت کاری میں سرگرم عمل تھا۔
آئی آر آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محسن برمھانی پر مبینہ طور پر آئی آر آئی بی چینلوں کے متعدد ڈائریکٹروں کو متعصب لوگوں سے تبدیل کرنے کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے۔
اکتوبر 2021 سے آئی آر آئی بی عالمی سروس کے ڈائریکٹر احمد نوروزی اور آئی آر آئی بی کے اوورسیز ڈیپارٹمنٹ میں پروگرامز اور شیڈولنگ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر یوسف پورانواری کو بھی پابندیوں کا سامنا ہے۔
انٹرنیٹ پر بلیک آؤٹ
میڈیا اور معلومات کے بہاؤ پر ایرانی حکومت کے مطلق العنان کنٹرول نے ایران میں زیادہ سے زیادہ بند ہوتا ہوا معاشرہ پیدا کر دیا ہے۔
جیسے جیسے حکومت کی سنسر شپ کی کوششیں تیز ہوتی جا رہی ہیں، عوام انٹرنیٹ تک محدود رسائی کے باعث مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ حکام اور زیادہ تر سرکاری دفاتر تیز رفتار انٹرنیٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
نتیجتاً، بڑی تعداد میں آن لائن کاروبار بڑھتی ہوئے معاشی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ وہ اپنی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
خاندان پیغام رسانی کی واٹس ایپ جیسی مقبول ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہوئے ملک کے اندر اور بیرون ملک اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اور بے شمار بینکوں اور لین دین کی خدمات منقطع ہیں، جس سے زندگیاں اور معاش تباہ ہو رہے ہیں۔
مجلس (ایرانی پارلیمان) نے فروری میں ایک مسودۂ قانون کے اہم اجزاء کو منظور کیا تھا جو حکومت کو انٹرنیٹ کی مکمل نگرانی اور فلٹرنگ کی اجازت دیتا ہے اور انٹرنیٹ پر کنٹرول کو "فوج" کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایرانی مبصرین نے کہا کہ یہ غالباً آئی آر جی سی ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ ان دنوں، ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کے ساتھ بھی، ایرانی عوام زیادہ تر حکومت کی بھاری انٹرنیٹ پابندیوں کو نظرانداز کرنے سے قاصر ہیں۔