سلامتی

بڑھتے ہوئے نقصانات کے ساتھ، روس کی یوکرین میں لڑنے کے لیے سابقہ افغان فوج کی بھرتی

از حمزہ

افغان نیشنل آرمی کے سابق کمانڈوز 9 نومبر 2020 کو صوبہ ہرات میں ایک تربیتی مشق کے دوران دیکھے جا رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

افغان نیشنل آرمی کے سابق کمانڈوز 9 نومبر 2020 کو صوبہ ہرات میں ایک تربیتی مشق کے دوران دیکھے جا رہے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

کابل -- سابق افغان فوجی کمانڈروں کے مطابق، روس نے یوکرین میں اپنی جارحانہ جنگ کو تقویت دینے کے لیے افغانستان اور پڑوسی ممالک میں سابق افغان دفاعی اہلکاروں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے۔

روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماسکو کی بھرتی -- تہران اور روسی نجی ملٹری کمپنی (پی ایم سی) ویگنر گروپ کی مدد سے -- تقریباً ایک ماہ قبل شدت سے شروع ہوئی تھی اور کچھ جنگجو پہلے ہی روس میں تعینات ہو چکے ہیں۔

سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک تاجر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے قریبی ساتھی یوگینی پریگوزن نے ویگنر گروپ کی بنیاد رکھی تھی، جو اب ماسکو کی ایماء پر یوکرین اور دنیا کے دیگر تنازعات میں کھل کر لڑ رہا ہے۔

یوکرین میں ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی اکتوبر کے مہینے میں۔ [ویگنر گروپ]

یوکرین میں ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی اکتوبر کے مہینے میں۔ [ویگنر گروپ]

افغانستان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور افغانستان کی سپیشل آپریشنز کور کے سابق کمانڈر فرید احمدی نے کہا، "نگرانی، تشدد، انتقام کی وسیع کارروائیوں، سیکیورٹی کے خطرات اور شدید اقتصادی مشکلات نے افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو ملک چھوڑنے اور کرائے کے بھرتی کاروں کے جال میں پھنسنے پر مجبور کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا، "غیر ملکی نجی سیکیورٹی کمپنیاں جو افغانستان میں کام کر چکی ہیں، جن کے ساتھ کچھ سیاست دان اور سابق سینئر ... اہلکار تعاون کرتے ہیں یا ان کے شراکت دار ہیں، [سابق] سیکیورٹی اہلکاروں کی بھرتی میں مدد کرتے ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ بھرتی اس وقت ایران اور افغانستان میں ہو رہی ہے۔

"اُن [روسیوں] کے لیے جنگ میں جانے کے بدلے میں وہ انہیں تنخواہوں، خاندان کے افراد کے لیے ویزا اور دوسرے ممالک میں منتقلی کی پیشکش کرتے ہیں"۔

احمدی نے کہا کہ پی ایم سیز منافع کمانے والے ادارے ہیں۔ "وہ ذاتی فائدے کے لیے انسانی حقوق، مہاجرین کے حقوق اور بین الاقوامی کنونشنوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "سابق سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ میری بات چیت میں، میں نے انہیں اس طرح کے فیصلے کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے اور بتایا ہے کہ پھر ان کی واپسی نہیں ہو گی"۔

"مجھے امید ہے کہ [میرے انتباہات] کارگر ہوں گے اور وہ اپنے مسائل کے دیگر حل نکالیں گے۔"

افغانوں کو 'قربان کیا جائے گا'

سابق میجر جنرل اور 207ویں ظفر کور کے سابق کمانڈر اور اس وقت کے وزیر دفاع کے سابق چیف آف سٹاف، عبدالرؤف ارغندیوال نے تصدیق کی کہ روس سابق افغان فوجیوں کو بھرتی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "30,000 سے زیادہ افغان سیکیورٹی اہلکار، جن میں نیشنل آرمی، نیشنل پولیس اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے ارکان شامل ہیں، اپنی جانیں بچانے کے لیے پڑوسی ممالک، خاص طور پر ایران اور پاکستان کی طرف بھاگ گئے تھے"۔

خود ارغندیوال اب امریکہ میں مقیم ہیں۔

"ایران میں جب ان کے ویزے کی میعاد ختم ہو گئی تو انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایرانی حکومت کی طرف سے ملک بدر کیے جانے ہی والے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران ایک منصوبے کے مطابق روس، ایران اور روسی ویگنر گروپ نے صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور افغان کمانڈوز کو یوکرین کی جنگ میں روس کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کرنا شروع کر دیا۔

ارغندیوال نے کہا، "ایران میں افغان کمانڈوز کی رجسٹریشن اور بھرتی ایک ماہ قبل شروع ہوئی تھی اور کچھ اہلکار پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں"۔

ان کا کہنا تھا، "ان جنگجوؤں کے چند گروہوں کو آزمائشی عرصے کے لیے روس بھیجا گیا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ ان کی صحیح جگہ واضح نہیں ہے۔

"میرے ساتھیوں نے جو معلومات مجھے دی ہیں، ان کی بنیاد پر اگلے گروہوں کو روس اور آنے والے ہفتوں میں یوکرین میں جنگ کے لیے بھیجا جائے گا"۔

ارغندیوال نے کہا کہ روسی بھرتی کار افغانوں کو ادائیگی کرنے اور ان کے خاندانوں کو ایران یا روس منتقل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، البتہ "روس کی طرف سے کیا گیا وعدہ غیر رسمی ہے اور وہ قانونی طور پر پابند نہیں ہیں۔ روس صرف انہیں دھوکہ دے سکتا ہے، کیونکہ جب وہ میدانِ جنگ میں ہوں گے تو ان کے پاس واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ "وہ باقی [افغانوں] کو شمولیت کی ترغیب دینے کے لیے بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو ایک یا دو ماہ کی تنخواہیں ادا کر سکتا ہے، مگر آخر میں، وہ پھنس جائیں گے اور ان کے پاس یوکرین کی جنگ سے زندہ واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں بچے گا"۔

انہوں نے کہا، "اگرچہ افغان اہلکار یوکرین کی جنگ میں روسی افواج کے ساتھ شامل ہونے میں دلچسپی نہیں رکھتے، انہیں مجبور کیا گیا ہے اور انہوں نے ایک خطرناک انتخاب کیا ہے۔ بدقسمتی سے انہیں قربان کر دیا جائے گا"۔

ارغندیوال نے افغانوں پر زور دیا کہ وہ "قابض روسی افواج کے ساتھ کھڑے نہ ہوں"۔

انہوں نے کہا کہ "روس، جس نے یوکرینی علاقے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے، کی طرح سابق سوویت یونین نے بھی ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا۔ اس نے ہمارے لوگوں پر ہزاروں بم گرائے، 15 لاکھ افغان ہلاک اور لاکھوں زخمی اور معذور ہوئے"۔

"میری بہادر سیکیورٹی اہلکاروں سے گزارش ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں جارحیت پسندوں کے مذموم مقاصد کے لیے اپنی جانیں قربان نہ کریں"۔

روس کا رخ ایران کی طرف

ارغندیوال نے ایران پر روس کے جرائم اور یوکرین کے خلاف جارحیت میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت یوکرین کی جنگ میں روس کے جرائم میں شریک ہے۔ "اس نے روسی فوجیوں کو طرح طرح کے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے تاکہ یوکرین کی جنگ میں اس کا تزویراتی اتحادی امریکہ اور نیٹو کے خلاف کمزور نہ ہو"۔

"یوکرین پر حملے کے آغاز میں، پیوٹن نے سوچا تھا کہ وہ ایک سے تین ماہ میں یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹ دے گا اور ماسکو کے مفادات کے لیے وفادار حکومت قائم کر لے گا"۔

ارغندیوال نے کہا، "اس نے سوچا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھا لے گا، اپنے تزویراتی مقاصد کو حاصل کر لے گا اور ماسکو کو امریکہ اور نیٹو کی طرف سے لاحق [مبینہ] خطرات کو کم کرے گا"۔

"لیکن پیوٹن کے اندازوں کے برعکس، جنگ آگے بڑھی، اور ناصرف ماسکو اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا، بلکہ اسے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور بہت سے ہتھیار، سازوسامان اور طیارے ضائع ہوئے۔ اس کی علاقائی اور بین الاقوامی حیثیت کو نقصان پہنچا"۔

افغان فوج کے ایک سابق کرنل رحمت اللہ حسن، جو اب سویڈن میں عسکری تجزیہ کار ہیں، نے کہا کہ یوکرین میں فوجیوں کی کمی کا سامنا ہونے پر، روس نے ایران سے کہا ہے کہ وہ اسے تجربہ کار جنگجو فراہم کرے۔

انہوں نے کہا، "ایران نے اپنی 60,000 مضبوط افغان لڑاکا فورس [ فاطمیون ڈویژن] کو نہیں بھیجا، جسے اس نے عراق اور شام کی جنگوں میں استعمال کیا ہے، کیونکہ فاطمیون شیعہ ہیں۔ اس کی بجائے، اس نے افغان کمانڈوز کی مشکل صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا جو ایران میں پناہ لے رہے ہیں اور روس اور ویگنر گروپ کے ساتھ مشترکہ فیصلے کے تحت انہیں بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "روسی فوجی یوکرین میں لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ جارحانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ اس لیے بہت سے روسی فوجی محاذ سے ترکی، وسطی ایشیاء اور دیگر ممالک کی طرف بھاگ گئے ہیں"۔

"یوکرائن کی جنگ میں اپنی سب سے بڑی شکست سے بچنے کے لیے، ماسکو نے اب افغان اہلکاروں کو بھرتی کرنے کی طرف رخ کیا ہے"۔

'ایک تاریخی شرمندگی'

حسن کا کہنا تھا، "یوکرین پر روس کا حملہ جارحیت اور قبضہ ہے۔ یہ افغان اہلکاروں کے لیے تاریخی شرمندگی کی بات ہو گی اگر وہ روسیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ روسی فوجیوں کی طرح وہ بھی یوکرین میں مارے جائیں گے"۔

انہوں نے کہا، "ایک سابق فوجی [افسر] کے طور پر، میری سیکیورٹی اہلکاروں سے گزارش ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں نہ جائیں اور اپنے مستقبل اور اپنے خاندان کے مستقبل کو تباہ نہ کریں کیونکہ اس جنگ سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں سوائے موت کے"۔

افغان سینیٹ کے سابق ڈپٹی سپیکر محمد آصف صدیقی جو اب سپین میں مقیم ہیں، نے کہا کہ ماسکو مایوسی کے عالم میں تہران کا رخ کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "روس یوکرین میں اس بری طرح سے ہار رہا ہے کہ آج وہ اپنی جنگی مشین کو جاری رکھنے کے لیے ایران سے ہتھیار اور ڈرون حاصل کر رہا ہے"۔

صدیقی نے کہا، "پیوٹن یوکرین کی جنگ ہار چکا ہے اور یوکرین اور دیگر ممالک کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ روسی افواج کو یوکرین میں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے، اور روس اب اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے افغان کمانڈوز کو بھرتی کرنا چاہتا ہے"۔

انہوں نے کہا، "میری سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں سے گزارش ہے کہ وہ روسیوں کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنیں اور بے گناہ یوکرینیوں کا خون نہ بہائیں جیسے روسی فوجی بہاتے ہیں۔

سویڈن میں مقیم ایک افغان فوجی تجزیہ کار احمد خان اندار نے کہا، "ایران برسوں سے افغان مہاجرین کو [شام کے صدر] بشار الاسد کے لیے لڑنے کے لیے بھرتی کر رہا ہے، اور آج، پناہ گزینوں سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، وہ پیوٹن کے مفادات کے تحفظ کے لیے سابق افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو بھرتی کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم اقوام متحدہ اور پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کے حقوق کا دفاع کرنے والی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایران کو افغان مہاجرین اور تارکینِ وطن کے حقوق کی خلاف ورزی سے روکیں اور [روسیوں کو] [سابقہ] افغان فوجیوں کی بھرتی سے روکیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500