حقوقِ انسانی

خوف اور پراپیگنڈہ: مقبوضہ زمینوں پر روسی حکمت عملی

از دمترے زیکس (اے ایف پی)

8 نومبر کو وسطی یوکرین کے شہر زاپوریزہیا کے ایک انسانی امدادی مرکز میں لوگ روس کے زیرِ تسلط قصبے برڈیانسک سے آنے والی جنگ سے بے گھر ہونے والی ایک معمر خاتون کی مدد کر رہے ہیں۔ [اناطولی ستیپانوف/اے ایف پی]

8 نومبر کو وسطی یوکرین کے شہر زاپوریزہیا کے ایک انسانی امدادی مرکز میں لوگ روس کے زیرِ تسلط قصبے برڈیانسک سے آنے والی جنگ سے بے گھر ہونے والی ایک معمر خاتون کی مدد کر رہے ہیں۔ [اناطولی ستیپانوف/اے ایف پی]

زپوریزہیا، یوکرین – انخلائی بس سے نکلنے والی پہلی یوکرینی خاتون اتنی شدت کے ساتھ سسکیوں سے لرز رہی تھی کہ اس کے لیے بولنا محال تھا۔

دوسری کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر راحت کی غماز مسکراہٹ تھی۔

دونوں کی آنکھ اُس صبح روس کے زیرِ قبضہ برڈیانسک کے بحیرہ آزوف شہر میں کھلی تھی۔

دونوں ابھی ابھی ایک کھٹارہ بس میں ہموار دیہاتوں اور زور و شور والے جنگ کے میدانوں کو پیچھے چھوڑ کے آئی تھیں۔

اس کے باوجود سویتلانا تیتوفا نے یوکرینی حکومت کے زیرِ قبضہ زمین پر پہنچ کر جو خوشی محسوس کی اس نے اسے وہ کچھ یاد دلا دیا جس سے بچ بچا کر وہ آئی تھی۔

52 سالہ صحافی نے اپنی پوتی کو اپنی چھاتی پر دباتے ہوئے کہا، "ہم اس لیے بھاگے کہ آٹھ لوگ خودکار رائفلوں کے ساتھ ہمارے گھر آ گئے تھے"۔

"وہ لوگوں کو پکڑ رہے تھے"۔

تیتوفا کو مزید کچھ کہنے میں مشکل پیش آئی۔ اس کے چہرے پر گہری جھریاں اس کی عمر بڑھا رہی تھی اور خاموش لڑکی اس کے بازوؤں میں اچھل رہی تھی۔

تیتیانا ورزیکوسکا اپنی آنکھ کے کونے پونچھ رہی تھی اور چند قدم کے فاصلے پر کھڑی مسکرا رہی تھی۔

"یہ آزادی ہے،" 29 سالہ کوریوگرافر نے کہا۔ "مجھے لگتا ہے کہ میں اب سنبھال سکتی ہوں"۔

تیتیانا چیکوئے اتنی پُراعتماد نہیں تھی۔

45 سالہ ماہر نفسیات نے سنہ 2014 میں مشرقی یوکرین میں پہلی بار نچلے درجے کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہزاروں زندہ بچ جانے والوں کو سمجھایا بُجھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فروری کے اواخر میں روس کے مکمل حملے کے بعد کی حکمت عملیوں میں نفسیاتی طور پر ڈرانا اور اس پیمانے کی برین واشنگ شامل تھی جو اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

چیکوئے نے کہا، "ان لوگوں میں سے ہر ایک کو صدمے کے بعد ہونے والے تناؤ کی بیماری ہے۔

'لوگ بطور املاک'

چیکوئے اور ساتھی ماہر نفسیات الیانا المان دماغ کو پلٹانے والے ہتھکنڈوں کے بارے میں نایاب بصیرت پیش کرتے ہیں کہ کریملن یوکرینیوں کو روسی ہونے کو قبول کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

صحافیوں کو مقبوضہ علاقوں تک آزادانہ رسائی حاصل نہیں ہے اور فرار ہونے والے روسی چوکیوں تک پہنچنے سے پہلے تمام خط و کتابت یا دیگر شواہد کو تباہ کر دیتے ہیں۔

دونوں خواتین اپنے دن ایک امدادی مرکز میں گزارتی ہیں جو واحد چوکی سے سڑک کے نیچے قائم ہے جہاں سے یوکرینی باشندے اب بھی سامنے کے جنوبی حصے کو عبور کر سکتے ہیں۔

روزانہ مٹھی بھر سے زیادہ لوگ نہیں گزرتے۔

کریملن نے نوجوان ماؤں اور بوڑھوں کے سوا تقریباً ہر ایک پر پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ ان چار علاقوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے جن کا اس نے ستمبر کے آخر میں اپنے ساتھ الحاق کیا تھا۔

دونوں ماہرینِ نفسیات نے اس سے قبل روسی بولنے والوں کو مشرقی علاقوں سے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا جہاں بہت سوں - خصوصاً بوڑھوں – کی سوویت حکومت کی دلکش یادیں وابستہ تھیں۔

انہوں نے یوکرینی بولنے والے مشتعل افراد کو بمباری سے تباہ شدہ قصبوں سے فرار ہوتے بھی دیکھا ہے جن میں کریملن مخالف جذبات گہرے تھے۔

لیکن الحاق کے بعد سے جنوبی محاذ کے علاقوں زاپوریزہیا اور خیرسن سے فرار ہونے والوں نے جنگ کے سبب جذبات سے عاری ہو جانے والی دونوں خواتین کو خاص طور پر پریشان کر دیا ہے۔

المان نے کہا، "روسی اب ان لوگوں کو اپنی املاک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ انہیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔

"اور یہ انہیں نفسیاتی طور پر داغدار کر دیتا ہے"۔

'یہ کارگر تھا'

خیرسن اور زاپوریزہیا میں نفسیاتی دباؤ خاص طور پر مضبوط ہو سکتا ہے کیونکہ -- مشرق میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کے برعکس -- فروری کے حملے سے پہلے خطوں کا کوئی حصہ کریملن کے کنٹرول میں نہیں تھا۔

چیکوئے نے کہا کہ ایک خاص کہانی اس نے اپنے ساتھ رہنے والی ایک خاتون سے سنی تھی جو مقبوضہ زاپوریزہیا-علاقے کے گاؤں واسیلیفکا میں تعلیمی نگران تھی۔

چیکوئے نے کہا، "انہوں نے اسے سکول میں پڑھانے کے لیے کہا (الحاق کے بعد) کیونکہ وہ بہت قابلِ احترام تھیں اور اس سے طلباء و طالبات جماعت میں واپس آ سکتے تھے"۔

"اور پھر انہوں نے سکول میں ٹینک گن چلانے کی تربیت دی۔ اس لیے وہ سارا وقت وہاں بیٹھے پڑھتے رہتے، ایک ٹینک ان کی طرف تنا ہوا کھڑا رہتا"۔

یہ ٹینک ایک غیر معمولی یاد دہانی کے طور پر ظاہر ہوا کہ تاریخ کے ورژن اور کلاس میں پڑھائی جانے والی جنگ کو کریملن کی کہانی پر عمل کرنا ہو گا۔

چیکوئے نے کہا کہ سکول کو پرچموں سے سجایا گیا تھا جن پر "برلن کی طرف چلو" لکھا ہوا تھا - جو دوسری جنگ عظیم کے دوران سوویت یونین کی ریلیوں کا نعرہ ہوتا تھا۔

کریملن یوکرین کے رہنماؤں کو نازی قرار دیتا ہے اور روسیوں کے درمیان اس کے حملے کی حمایت کرنے کے لیے 1940 کی دہائی کے پیغامات استعمال کرتا ہے۔

اس نے کہا ، "انہوں نے ہمارا ٹیلی ویژن ہٹا دیا ہے اور اپنا نشر کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی کہتا ہے: برلن کی طرف چلو۔"

"اور میرے دوست کہہ رہے تھے کہ جو لوگ دو یا تین ہفتے اس طرح رہتے تھے -- ان کے سوچنے کا انداز بدل گیا تھا۔ یہ کارگر تھا"۔

بھوک

دونوں ماہرینِ نفسیات کا کہنا تھا کہ بنیادی ضروریاتِ زندگی اور خوراک کی شدید قلت نے یوکرینیوں کی پروپیگنڈے کے خلاف مزاحمت کو ختم کرنے میں مدد کی ہے۔

چیکوئے نے تجویز کیا کہ یہ بذاتِ خود ایک حربہ تھا۔

انہوں نے کہا، "ان کے پاس ایک عملی منصوبہ ہے"۔

"پہلے وہ ایک شخص کو اخلاقی طور پر تباہ کرتے ہیں۔ اور پھر وہ آپ کو ایک غیر صحت بخش نئے اجتماعی شعور سے بھرنا شروع کر دیتے ہیں"۔

دونوں ماہرینِ نفسیات نے کہا کہ فرار ہونے والوں میں سے بہت سے - خصوصاً بچے - بھوکے دکھائی دیتے ہیں۔

المان نے کہا، "میں نے بچوں کو کھانے پر چھلانگ مارتے اور ہاتھوں سے چیزوں کو ٹھونستے ہوئے دیکھا ہے۔"

چیکوئے نے ایک الگ انٹرویو میں کہا، "کچھ بچے کھانا کھانے سے رُک نہیں سکتے تھے"۔

"وہ کھاتے اور بیت الخلاء میں بھاگ جاتے اور پھر واپس آکر مزید کھانے لگتے"۔

اس وقت دونوں خواتین کو جس چیز نے پریشان کیا ہے وہ یہ تھا کہ بچ جانے والی خواتین کیسے مقابلہ کر رہی تھیں۔

المان نے کہا کہ آمد پر مسکرانے یا ہنسنے والوں کے متعلق بھی اسے اتنی ہی تشویش تھی جتنی رونے والوں پر تھی۔

المان نے کہا، "بہت سے لوگ جو آتے ہیں وہ بدحواس ہوتے ہیں۔ آپ ان سے سوال پوچھتے ہیں اور انہیں بالکل سمجھ نہیں لگتی کہ آپ کیا چاہتے ہیں"۔

"کچھ ایک ہی وقت میں روتے اور ہنستے ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ صرف ہسٹیریا ہے۔ یہ تناؤ ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500