سلامتی

دبائے گئے فون، رشوت اور خوف: روسی تسلط میں زندگی

دمتری زاکس (اے ایف پی)

5 نومبر کو زیپوریژیژیا میں روسی مقبوضہ علاقہ خیرسون سے بھاگنے میں کامیاب ہونے کے بعد ایک یوکرینی خاتون اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک کار میں بیٹھی ہے۔ [بیولینٹ کیکیک/اے ایف پی]

5 نومبر کو زیپوریژیژیا میں روسی مقبوضہ علاقہ خیرسون سے بھاگنے میں کامیاب ہونے کے بعد ایک یوکرینی خاتون اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک کار میں بیٹھی ہے۔ [بیولینٹ کیکیک/اے ایف پی]

زیپوریژیژیا، یوکرین – ایک جوڑے نے روسی حملہ آوروں کی ضبطی سے بچانے کے لیے اپنے فون باغیچے میں دبا دیے۔

دیگر نے یوکرین کے زیرِ انتظام علاقہ میں فرار ہونے کی اجازت دینے کے لیے روسی فوجیوں کو اپنی گاڑیاں یا رشوت دی۔

اور متعدد دیگر نے یوکرین کے جنگ سے بدحال جنوب میں خیرسون اور اس کے ہمسایہ خطہ زیپوریژیژیا کے نئے حکمرانوں کے ہاتھوں اپنے کاروبار اور گھر کھو دیے۔

فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والوں کی جانب سے مقبوضہ زندگی کی داستانیں فوجیوں اور کرملن کے تعین کنندگان کے خوف سے تقریباً مکمل پاگل پن اور تسلط کی ایک کہانی ہے۔

5 نومبر کو زیپوریژیژیا میں روسی مقبوضہ علاقہ خیرسون سے بھاگنے میں کامیاب ہونے کے بعد یوکرینی لوگ اے ایف پی نیوز ایجنسی سے بات کر رہے ہیں۔ [بیولینٹ کیکیک/اے ایف پی]

5 نومبر کو زیپوریژیژیا میں روسی مقبوضہ علاقہ خیرسون سے بھاگنے میں کامیاب ہونے کے بعد یوکرینی لوگ اے ایف پی نیوز ایجنسی سے بات کر رہے ہیں۔ [بیولینٹ کیکیک/اے ایف پی]

31 اکتوبر کو ایک یوکرینی فوجی خیرسون سرحدی علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک شہری سے بات کر رہا ہے۔ [بولینٹ کِلِک/اے ایف پی]

31 اکتوبر کو ایک یوکرینی فوجی خیرسون سرحدی علاقہ کے ایک گاؤں میں ایک شہری سے بات کر رہا ہے۔ [بولینٹ کِلِک/اے ایف پی]

روس نے ستمبر میں یوکرین کے جن چارعلاقوں پر دعویٰ کیا ان میں مارشل لا نافذ کر دیا اور مواصلات پر پابندی لگا دی۔

ان میں سے کوئی بھی کریملن کے مکمل قبضہ میں نہیں ہے اور مقبوضہ علاقہ میں یوکرین کے جوابی دفاع کے تیسرے ماہ میں شدید لڑائی سے گزر رہے ہیں۔

روسی مقبوضہ علاقوں میں آزاد میڈیا کی رسائی کے فقدان نے ان کہانیوں کی آزادانہ تصدیق کو قریباً ناممکن بنا دیا ہے۔

لیکن تصویر میں جو رنگ یہ بھرتے ہیں، وہ اس بیانیہ سے بآسانی میل نہیں کھاتا جو کریملین میڈیا اپنے داخلی سامعین کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

زیپوریژیژیا جوہری پاور سٹیشن کے سابقہ انجنیئر اینٹون اوچاروف نے کہا، "یہ نہایت خوفناک تھا"

روسی مقبوضہ پلانٹ – جو یورپ میں سب سے بڑا ہے – مستقل شیلنگ کے مقام کے قریب ہے اور اس میں صرف اتنی ہی توانائی باقی ہے کہ وہ اپنے چھ بند ری ایکٹرز کو پگھلنے سے بچا سکے۔

اینیرہوڈر کے 44 سالہ مقامی نے کہا، "ہمارا پورا شہر بندوق بردار اجنبیوں سے بھرا پڑا ہے۔"

'کوئی محفوظ نہیں محسوس کرتا'

لیودمئیلا اور اولیکسندر شیوشُک نے کہا کہ خیرسون کے علاقہ میں ان کے گاؤں خاشاکریواک میں روسی فوجی ان کے گھروں میں گھس کر موبائل فون ضبط کر لیتے ہیں۔

56 سالہ میاں بیوی نے کہا کہ ممکنہ طور پر روسی فوجیوں کو خدشہ ہے کہ مقامی افراد محاذ کے قریب یوکرینی افواج کو ان کے مقامات سے آگاہ کر دیں گے۔

لیودمئیلا نے کہا، "وہ اپنے اسلحہ کے ساتھ گھر گھر جاتے ہیں۔ پھر وہ تمام فون ایک بالٹی میں پھینکتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔"

"ہم اپنے فون دبا دیتے ہیں۔ ہر کوئی یہی کرتا ہے۔ جو وقت پر اپنے فون نہیں دباتا – وہ سب کھو بیٹھتے ہیں۔"

دو بچوں کی ماں ارئینہ مائیخائیلینا نے کہا کہ ایک مرتبہ فوجیوں نے اسے اور اس کی بیٹی کو زیپوریژیژیا خطہ کے شہر بیردیانسک میں گلی کے درمیان میں روکا۔

اس 43 سالہ ریئلٹر نے کہا، "انہوں نے فون تلاش کرنے کے لیے اس کے بیگ کی تلاشی لی۔ اسی روز میرے دوست کا 12 سالہ بچہ گلی میں اکیلا چل رہا تھا اور اسے روکا گیا۔ انہوں نے اس کے بیگ کی بھی تلاشی لی۔"

"آپ کو اپنی ساری بات چیت کی تفصیل مٹانی ہو گی – خدانخواستہ آپ نے کہیں روس کے خلاف کچھ نہ کہہ دیا ہو۔ کوئی محفوظ نہیں محسوس کرتا۔"

'نفسیاتی دباؤ'

روس خاندانوں کو اپنے مستحکم تر قبضہ کے علاقوں میں لے جا رہا ہے جیسا کہ یوکرین آہستگی سے لڑتا ہوا خیرسون میں اپنا راستہ بناتا جا رہا ہے۔

لیکن جو مخالف سمت میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان کا کہنا ہے کہ – ایک قیمت کے عوض – فوجی لوگوں کو یوکرینی پوزیشنز تک لے جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

خیرسون خطے کی ایک خاتون جس نے سزا کے خوف سے صرف اولگا کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کرنے پر اتفاق کیا، نے کہا کہ "پہلے آپ انہیں ووڈکا سے ادائگی کرتے تھے، لیکن اب آپ کو حقیقت میں ادائگی کرنا پڑتی ہے۔"

جزُوی طور پر قبضہ واپس لیے گئے ڈُڈچنے کے 57 سالہ رہائشی نے کہا، "روسی آپ کو باہر نکالتے ہیں اور پھر واپس آ کر آپ کا سامان لے لیتے ہیں۔"

اولیکساندر شیوشوک نے کہا کہ اس کے دوست نے اپنی گاڑی کی چابیاں روسیوں کو دے دیں کہ وہ اسے لے جائیں۔

اس نے کہا، "ہم نے بعد میں دیکھا کہ فوجی اس کار میں گھوم رہے تھے۔"

میاں بیوی نے کہا کہ فوجیوں نے خیرسون کے رہائشیوں پر اس امر کے لیے "نفسیاتی دباؤ" بھی ڈالا کہ وہ کریملین سے ملحقہ جزیرہ نما کریمیا کو چلے جائیں۔

شوہر نے کہا، "وہ آپ کو اس سمت میں لے جانے میں خوش تھے۔"

'چیچن قبضہ کر رہے ہیں'

کاشکاریوکا گاؤں والوں نے جو فون دبائے تھے ان سب کو روسی سبسکرائبر آئڈنٹٹی ماڈیول (ایس آئی ایم) کارڈ استعمال کرنے ہیں اور انہیں صرف ماسکو سنسرز سے منظور شدہ سائٹس کی ہی رسائی ہوتی ہے۔

یہ منتقلی روسئیت مہم کا ایک جزُ ہے جس نے مقامی اہلکاروں کو فریق بدلنے یا گرفتاریوں کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

خیرسون خطے کی مقامی رہائشی نینا بیزگوبا نے کہا جب چیچنیا – فیئرڈ سٹرانگمین رمضان قادروف کے زیرِ کمان ایک خطہ – سے فوجیوں نے دو ہفتہ قبل یہاں دھاوا بولا، تب وہ اپنا گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئی۔

اس 44 سالہ بے روزگار نے کہا، "چیچن ہمارے گھروں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ میں کہوں گا کہ اب 60 فیصد آبادی چیچن ہے۔"

متعدد نے بتایا کہ مقبوضہ علاقوں میں مقامی ممکنہ حد تک گھروں میں رہتے ہیں تاکہ روسیوں کے ساتھ رابطہ سے بچ سکیں۔

ریئلٹر مائیخائیلینا نے کہا کہ قابض حکام اپنے نئے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سی آف آزوو شہر میں ہوٹل اور ریزارٹس جیسے منافع بخش کاروبار ضبط کر رہے ہیں۔

بردیانسک کے مقامی نے کہا، "وہ کمانڈنٹ کے ساتھ آتے ہیں، اپنی انگلی کا اشارہ کرتے ہیں، اور کہتے ہیں انہیں یہ چاہیئے اور بس۔"

لیکن ہر کوئی لڑائی کے بغیر دستبردار نہیں ہو رہا۔

اولاکساندر گوربونسوف نے کہا کہ وہ اور اس کے دوست روسی فوج کے ایندھن کے ٹینکوں میں چینی ڈال دیتے ہیں تاکہ مشینوں کو – تھوڑے وقت کے لیے سہی – ناقابلِ استعمال بنا دیا جائے۔

اینیرہودر کے اس مقامی نے کہا، "پھر ہمیں سمجھ آیا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ کسانوں کے پاس جاتے اور ایندھن نہ دینے کی صورت میں ان کے آلات جلا دینے کی دھمکیاں دیتے۔"

"جب روسیوں کو پتہ چل گیا کہ ہم کہاں رہتے ہیں تو میں بھاگ گیا۔ یہاں کئی ایک مخبر ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500