"اچھوت ریاست" حالیہ برسوں میں تیزی سے ایران کی حیثیت کا مترادف بن گیا ہے، لیکن اسلامی جمہوریہ نے حال ہی میں یوکرین کے خلاف اپنی جنگ کے دوران روس کو ڈرون کی فروخت کے ساتھ اسے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ہے۔
تنہائی، پابندیوں اور دیوالیہ پن کی شکار، ایرانی حکومت داخلی محاذ اور خطے میں - اور اب عالمی سطح پر بھی سنگین سیاسی، انسانی حقوق اور اقتصادی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔
28 اکتوبر کو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ویب سائٹ پر شیئر کی گئی ایک تصویر میں، جنگ زدہ ملک کا رہنماء ایرانی ساختہ ڈرون، شاہد-136 کی باقیات کے ساتھ کھڑا ہے۔
کیف اور اس کے مغربی اتحادی بارہا روس پر الزام عائد کر چُکے ہیں کہ وہ حالیہ ہفتوں میں یوکرین پر حملوں میں ایرانی ساختہ بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں (یو اے وی) استعمال کر رہا ہے، جنہیں عام طور پر ڈرون کہا جاتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق، روس نے ان ڈرونز کو یوکرین میں بجلی کے بنیادی ڈھانچے اور دیگر شہری اہداف پر اپنے حملوں میں استعمال کیا ہے۔
27 اکتوبر کو امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ روس کا یوکرین میں ایرانی ڈرون کا استعمال "خوفناک" ہے، انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس طرح کی ترسیلوں کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
بلنکن نے کہا کہ روس نے "یوکرین کے شہریوں کو مارنے اور وہ بجلی، پانی، گرمی کے لیے جس بنیادی ڈھانچے پر انحصار کرتے ہیں اسے تباہ کرنے" کے لیے ڈرونز استعمال کیے ہیں۔
18 اکتوبر کو نیو یارک ٹائمز نے خبر دی کہ روس کو ڈرون فراہم کرنے کے علاوہ، ایران نے مقبوضہ یوکرین میں تربیت کار بھیجے ہیں تاکہ روسیوں کو تہران سے خریدے گئے ڈرونز کے دستے کے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے۔
اخبار نے کہا کہ ایرانی تربیت کار، سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے ارکان، غیر قانونی طور پر ملحقہ علاقے کریمیا میں ایک روسی فوجی اڈے سے کام کر رہے ہیں جہاں بہت سے ڈرون ایران سے فراہم کیے جانے کے بعد سے موجود ہیں۔
زیلنسکی کے مطابق ماسکو نے ایران سے تقریباً 2000 ڈرونز منگوائے ہیں جن میں سے 400 پہلے ہی یوکرین کی شہری آبادی کے خلاف تعینات کیے جا چکے ہیں۔
اب تک، یوکرین کے آسمانوں میں ایرانی ڈرونز کے دو ماڈلوں کی شناخت ہو چکی ہے: شاہد-136 اور مہاجر-6۔ دونوں کا تعلق اس قسم سے ہے جسے وسیع پیمانے پر درمیانی اونچائی، لمبی برداشت (ایم اے ایل ای) والے بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز کہا جاتا ہے۔
17 اکتوبر کو انسائٹ میڈیا نے فرانسیسی ادارہ برائے بین الاقوامی تعلقات کے ایک محقق ژاں-کرسٹوف نوئل کے حوالے سے کہا کہ ڈرون کی ابتدائی کامیابی "میدان جنگ میں ایک نیا ہتھیار بننے سے" آتی ہے۔
سوربون یونیورسٹی کے محقق پیئر گراسر نے کہا کہ اس طرح کے ڈرون "روس کے لیے پیسہ بچانے والا اقدام ہے، کیونکہ یہ فی شاٹ 1.5 ملین ڈالر سے 2 ملین ڈالر کے قیمتی کروز میزائلوں کو بچاتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن "اُن کی بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ صرف ساکن اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں"۔
ایران کی مسلسل تردید
اگرچہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ایران یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں بالواسطہ طور پر بھی سرگرم عمل ہے، تہران نے مستقل طور پر اس کی تردید کی ہے، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ماسکو کو ڈرون اور میزائل فروخت نہیں کیے۔
لیکن 17 اکتوبر کو، واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ ایران نے ستمبر کے وسط میں اضافی ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے شرائط کو حتمی شکل دینے کے لیے حکام کو روس بھیجا تھا، جن میں مبینہ طور پر ایرانی ساختہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی دو قسمیں شامل ہیں۔
اخبار نے کہا، "حالیہ دنوں میں یوکرینی اور امریکی حکام کے ساتھ مشترکہ خفیہ تخمینہ کاری میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران کی اسلحہ سازی کی صنعت فتح-110 اور ذوالفقار میزائلوں کی پہلی کھیپ تیار کر رہی ہے"۔
اگرچہ ایرانی حکومت اس بات کی سختی سے تردید کرتی ہے کہ اس کے ڈرون یوکرینیوں کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں، متعدد ملکی خبر رساں اداروں – جن میں سے کچھ قدامت پسند ہیں -- نے اس کی اطلاع دی ہے۔
ستمبر میں، امریکہ نے ایک ایرانی ہوائی نقل و حمل خدمات فراہم کنندہ پر پابندی عائد کی تھی جس نے یوکرین میں استعمال کے لیے روس کو ڈرون بھیجنے میں مدد کی، جس کے ذریعے غیر ایرانی فرموں کو تجارت میں ملوث ہونے سے خبردار کیا گیا ہے۔
اس نے آئی آر جی سی، آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس اور آئی آر جی سی نیوی کے لیے ڈرونز اور پرزہ جات پر تحقیق، تیاری، پیداوار اور خریداری میں ملوث تین کمپنیوں اور ایک فرد کو بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے۔
تنہائی میں تعلقات کو وسیع کرنا
ایران نے دیوالیہ پن کے کنارے کھڑی اپنی معیشت کو متحرک کرنے اور بین الاقوامی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کے بہانے دیر سے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے۔
26 اکتوبر کی فارن پالیسی رپورٹ کے مطابق، پھر بھی یہ خیال کہ تہران اور ماسکو یوکرین میں قریبی تعاون کریں گے بہت سے مبصرین -- بشمول ایران کے کچھ سرکردہ روسی تجزیہ کار -- کو حیران کر دیا ہے۔
جریدے نے کہا کہ ان کی حالیہ صف بندی کے باوجود، ایران اور روس کی دشمنی اور بداعتمادی کی ایک طویل تاریخ زار کے دور سے ہے، جس میں روس-فارسی جنگوں کا ایک سلسلہ اور فارسی سیاست میں روسی مداخلت بھی شامل ہے۔
1980 کی دہائی کی ایران-عراق جنگ کے دوران، روس نے اپنے خستہ حال ہتھیار اور ٹینک اسلامی جمہوریہ کو بھاری قیمتوں پر فروخت کیے، اور وہ ایسا کرنا جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے ایران کے اندر مزید ناراضگی پھیل گئی ہے۔
ایران میں وسیع پیمانے پر روس مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، بہت سے ایرانی روس کے حکومت کے ساتھ حالیہ معاہدوں کو اپنے ملک کے مفادات کے خلاف قرار دیتے ہیں۔
ایرانی حکومت نے ستمبر میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں تہران کی رکنیت کا اعلان کرنے سے قبل روس کے ساتھ ایک طویل المعیاد تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
بحران زدہ ایرانی معیشت کی مدد کرنے کے بجائے، جیسا کہ حکومتی پروپیگنڈا مسلسل دعویٰ کرتا ہے، تہران کی ایس سی او کی رکنیت ماسکو کو ایرانی وسائل تک بلا روک ٹوک اور یکطرفہ رسائی فراہم کرتی ہے۔
ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے 26 جولائی کو کہا کہ "ایران کے تیار کردہ پرزے اور آلات روس کو برآمد کرنے اور تکنیکی خدمات انجام دینے اور ایران کے طیاروں کی مرمت کے مراکز میں روسی طیاروں کی مرمت کے لیے" ایک اور معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں نے ان معاہدوں کو ایران کی فروخت سے تعبیر کیا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، ماسکو نے تہران کے سابق گاہکوں، جن میں چین بھی شامل ہے، کو اپنی طرف راغب کرکے، تیل کی فروخت سے ایران کی آمدنی کے اہم ذرائع میں سے ایک کو خطرہ لاحق کر دیا ہے، اور ایران کو اپنے پہلے سے سستے خام تیل کی قیمت میں مزید کمی پر مجبور کر دیا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، اس کے مطابق تہران کو اپنے برآمد شدہ خام تیل کی قیمت کو روسی یورال کی سطح کے برابر کرنا پڑا۔
ماسکو کے ساتھ یکجہتی
جولائی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے دورۂ تہران کے دوران ایرانی قائد علی خامنہ ای نے ماسکو کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے بارے میں اپنے سابقہ قدامت پسندانہ لہجے کو ترک کرتے ہوئے، خامنہ ای نے پیوٹن کی "تخلیقی صلاحیتوں" کی تعریف کی، اور مزید کہا کہ اگر پیوٹن نے پہل نہ کی ہوتی تو "نیٹو جنگ چھیڑ دیتا"۔
خامنہ ای نے کہا کہ نیٹو ایک "خطرناک مخلوق" ہے۔
ملاقات کے دوران ایرانی قائد نے روس کے ساتھ "طویل المعیاد تعاون" کو مضبوط بنانے پر بھی زور دیا۔
ان تبصروں کے بعد، روزنامہ جاوان، جو آئی آر جی سی سے وابستہ ایک اخبار ہے، نے یوکرین پر روس کے حملے کو "جائز اور پیشگی ثالثی دفاع" اور "دفاعی جہاد" قرار دیا۔
خامنہ ای کے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے دفاع نے ایران کے اندر شدید ردِعمل کو جنم دیا، سیاسی کارکنان اور صحافیوں نے خاص طور پر نیٹو کے حوالے سے ان کے بیان پر تشویش کا اظہار کیا۔
ایرانی حکومت کے فیصلوں اور آئی آر جی سی کے اقدامات کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں لگ گئی ہیں اور وہ اقتصادی جمود کا شکار ہو گیا ہے۔
23 ستمبر کو، کیف نے روس کو ہتھیاروں کی فراہمی پر تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو نمایاں طور پر کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
20 اکتوبر کو، یورپی یونین کونسل نے یوکرین میں روس کی جنگ میں ایرانی ڈرون کے استعمال کے سلسلے میں تین افراد اور ایک ادارے پر پابندی عائد کی تھی۔