سفارتکاری

اقوامِ متحدہ میں 50 ممالک نے ژنجیانگ میں چین کی جانب سے حقوق پامال کیے جانے کی مذمت کی

اے ایف پی

4 جون 2019 کو لی گئی اس تصویر میں چین کے مشرقی ژنجیانگ خطے میں کاشغر کے جنوب میں یانگیسر میں خاردار تاروں کے پیچھے لوگوں کو رکھے جانے کے لیے بنائے گئے ایک احاطے پر چینی پرچم دکھایا گیا ہے۔ [گیرگ بیکر/اے ایف پی]

4 جون 2019 کو لی گئی اس تصویر میں چین کے مشرقی ژنجیانگ خطے میں کاشغر کے جنوب میں یانگیسر میں خاردار تاروں کے پیچھے لوگوں کو رکھے جانے کے لیے بنائے گئے ایک احاطے پر چینی پرچم دکھایا گیا ہے۔ [گیرگ بیکر/اے ایف پی]

نیویارک – پیر (13 اکتوبر) کو پچاس ممالک نے اقوامِ متحدہ (یو این) کی ایک بحث کے دوران پڑھے جانے والے ایک بیان پر دستخط کیے جس میں چین کے ژنجیانگ خطے میں حقوقِ انسانی کی ”شدید اور منظم“ خلاف ورزی کی مذمت کی گئی۔

بیان میں یوگر کا ایک دیگر تلفظ استعمال کرتے ہوئےکہا گیا، ”ہم عوامی جمہوریہ چین میں انسانی حقوق کی صورتِ حال، بطورِخاص ژنجیانگ میں یوگر اور دیگر زیرِ تسلط مسلمان اقلیتوں کے انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں سے متعلق شدید متفکر ہیں۔“

یہ بیان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تیسری کمیٹی، جو انسانی حقوق سے نمٹتی ہے، کے ایک مباحثہ کے دوران کینیڈا کی جانب سے پڑھا گیا۔

اقوامِ متحدہ کے سفیر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے دفتر نے اگست میں ژنجیانگ پر ایک رپورٹ شائع کی، جس کا طویل عرصہ سے انتظار تھا ، اس میں مغربِ بعید کے خطوں میں انسانیت، یوگر اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا گیا۔

بیجنگ ان الزامات کو مسترد کرتا ہے، اور اس امر کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف لڑ رہا ہے اور خطے کی ترقی کو یقینی بنا رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا، ”انسانی حقوق کی ایسی شدید اور منظم خلاف ورزیوں کی توجیح انسدادِ دہشتگردی کی بنیاد پر نہیں دی جا سکتی۔ او ایچ سی ایچ آر کی تشخیص کی نزاکت کے تناظر میں، ہم فکرمند ہیں کہ چین تاحال اپنی تحقیقات پر بات چیت کرنے کو مسترد کیا ہے۔“

دستخط کرنے والے 50 ممالک میں امریکہ، برطانیہ، جاپان، فرانس، آسٹریلیا، اسرائیل، ترکی، گوئیٹیمالا اور یہاں تک کہ سومالیہ بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بیجنگ پر اس امر کے لیے زور دیا کہ وہ ”او ایچ سی ایچ آر کی تحقیق کی سفارشات کو نافذ کرے“ جس میں ”زنجیانگ میں اپنی آزادی سے جبراً محروم کر دیے جانے والے تمام افراد کو آزاد کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا، اور غائب اہلِ خانہ کے مقدر اور ان کے موجودہ مقام کو فوری طور پر واضح کرنا اور انہیں دوبارہ سے اکٹھا کرنا شامل ہے۔“

اکتوبر کے اوائل میں چین نے جینیوا اساسی اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کاؤنسل میں او ایچ سی ایچ آر رپورٹ پر بحث سے کسی طرح کنارہ کر لیا تھا جب اس ادرے کے 47 ارکان نے اس بحث کے آغاز کو مسدود کر دیا۔

ایک بین الاقوامی این جی او، ہیومن رائیٹس واچ نے پیر کو اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کاؤنسل سے جلد از جلد بحث منعقد کرنے کی ”دوبارہ کوشش“ کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس این جی او کے اقوامِ متحدہ کے ڈائریکٹر لوئیس شاربونیو نے کہا، ”واضح ہے کہ بیجنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے زیرِ احتساب لانے کے حق میں سفارتی قوتِ رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا، ”ہیومن رائیٹس واچ کاؤنسل کے ارکان پر زور دے رہی ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے چینی حکومت کی ذمہ داری پر بحث کرنے کے لیے کس جلد از جلد تاریخ پر دوبارہ کوشش کریں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500