پناہ گزین

ایران کی خوفزدہ سیکیورٹی فورسز نے افگان پناہ گزینوں پر دباؤ بڑھا دیا

عمر

حال ہی میں ملک بدر کیے جانے والوں اور حکام نے خبریں دی ہیں کہ ایران میں حالیہ بڑھتی ہوئی شہری بدامنی کے ساتھ، ملک کی سیکیورٹی فورسز نے ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ ہرات کے صوبائی شعبۂ امورِ پناہ گزیں کے مطابق، گزشتہ ماہ ایران سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات -- حال ہی میں ملک بدر کیے جانے والوں اور حکام نے خبریں دی ہیں کہ ایران کی سیکیورٹی فورسز نے ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔

ہرات سے آنے والی خبروں کے مطابق، گزشتہ ماہ ایران سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے ساتھ اسلام قلعہ راہداری کے راستہ روزانہ ایران سے افغانستان میں داخل ہونے والے ملک بدر پناہ گزینوں کی تعداد 1,500 سے بڑھ کر 2,000 ہو گئی ہے۔

جبکہ عموماً ملک بدر ہونے والوں کی اکثریت غیر شادی شدہ مرد ہوتے ہیں، اب مشاہدین ملک بدر ہونے والی عورتوں اور بچوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں، اور افغانستان میں دوبارہ داخلہ پر ان میں سے چند کے جسموں پر تشدد اور ظلم کے نمایاں اثار ہیں۔

تشدد اور ظلم

ایران سے حال ہی میں نکالے جانے والے افغان ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے مسلسل قتل، تشدد اور ظلم کی کہانیاں دہراتے ہیں۔

18 اکتوبر کو اسلام قلعہ، صوبہ ہرات میں ایران سے ملک بدر کیے گئے افغان پناہ گزین دیکھے جا سکتے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

18 اکتوبر کو اسلام قلعہ، صوبہ ہرات میں ایران سے ملک بدر کیے گئے افغان پناہ گزین دیکھے جا سکتے ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

صوبہ جاوزجان کے 22 سالہ رہائشی احمد محمدی نے 18 اکتوبر کو اسلام قلعہ کے راستے افغانستان داخلہ کے موقع پر کہا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز اس وقت تباہ ہو چکی ہیں۔ ”وہ افغان پناہ گزینوں کو ان کے کام کرنے کے مقامات یا گھروں سے گرفتار کرتے ہیں اور قید کر دیتے ہیں۔“

اس نے مزید کہا، ”پولیس نے مجھے جنوبی تہران میں ایک باغیچہ سے گرفتار کیا جہاں میں کام کر رہا تھا۔ ایرانی افواج نے مجھے بولنے اور اپنا دفاع کرنے کی اجازت نہ دی۔“

صوبہ فریاب کے 25 سالہ رہائشی عبدالوارث خالد نے کہا کہ ایرانی پولیس نے اسے کام سے گھر جاتے ہوئے رستے سے گرفتار کیا اور ناگہاں ملک بدر کرنے سے قبل پانچ دن کے لیے قید رکھا۔

اس نے پیر (24 اکتوبر) کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ (یو این) کے پناہ گزین کیمپ میں کہا، ”پولیس نے مجھے جیل میں متواتر تشدد کا نشانہ بنایا اور زدوکوب کیا۔ انہوں نے مجھے قبول کرنے کے لیے دھمکیاں دیں۔۔۔ لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں تو محظ ایک دیہاڑی دار مزدور ہوں۔“

اس نے کہا کہ ایران کی خوفزدہ سیکیورٹی فورسز”افغانوں پر اپنی مایوسی اور غصہ نکال رہے ہیں۔ ایرانی پولیس جہاں بھی افگان پناہ گزینوں کو دیکھتی ہے انہیں بلا امتیاز گرفتار کر کے ملک بدر کر دیتی ہے۔“

خالد نے کہا کہ افغان پناہ گزین ایرانی پولیس سے خطرہ کے باعث اپنا گھر نہیں چھوڑ کر اپنی روزمرہ زندگی نہیں گزار سکتے اور کام پر نہیں جا سکتے۔

کابل کے 34 سالہ رہائشی عتیق اللہ خیرخواہ نے 24 اکتوبر کو اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز کے دباؤ کی وجہ سے ایران میں افغانوں کی زندگیاں نہایت قابلِ رحم بن چکی ہیں۔

انہوں نے کہا، ”ایرانی پولیس افغان پناہ گزیوں کے گھروں اور کام کرنے کے مقامات پر چھاپے جاری رکھے ہوئے ہے اور سوتے ہوئے یا کام کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیتی ہے۔ وہ ہمیں اپنے کپڑے تک نہیں اٹھانے دیتے۔ وہ ہمیں پائجاموں یا کام کرنے کے لباس ہی میں جیل بھیج دیتے ہیں۔“

اس نے کہا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے آجروں کو افغان ملازمین نہ رکھنے کے بھی احکامات دے رکھے ہیں۔

کسی کو نہیں چھوڑا گیا

صوبہ بغلان کے 29 سالہ محمد نصیر نذیری، جس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اور اسے چلنے کے لیے اعصا کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، نے کہا کہ وہ گزشتہ ماہ بندرعباس میں ایک کار حادثے میں ملوث ہوا جس کی وجہ ایرانی پولیس تھی۔

اس نے ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپ سے کہا، ”ہم گاڑی میں آٹھ افغان تھے۔ پولیس نے ٹائر پر گولی ماری، اور ہماری کار الٹ گئی۔ میرے چار ساتھی مسافر موقع پر جاںبحق ہو گئے، اور مجھ سمیت ہم چار زخمی ہو گئے۔“

اس نے کہا، ”میں تقریباً ایک ماہ تک بندرعباس میں ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہا۔ میں نے تمام اخراجات اپنی جیب سے کیے۔ میرے اہلِ خانہ کو مجھے 50 ملین تمن [1,562 ڈالر] افغانستان سے بھیجنے پڑے، اور تب ہی ایرانی ڈاکٹر میرا علاج کرنے پر رضامند ہوئے۔“

نذیری نے کہا کہ وہ گولیوں میں زخمی ہونے والے دیگر تین افغانوں کی صورتِ حال کے متعلق نہیں جانتا، اس نے مزید کہا کہ اس وقت ان کی حالت نہایت نازک تھی۔

صوبہ فریاب کے ایک 53 سالہ رہائشی عبدالغفور رنجبر نے کہا کہ وہ قریباً ایک ماہ قبل ایران گیا تھا لیکن اس کے کام کرنے کے مقام پر اسے گرفتار کر لیا گیا اور ایرانی پولیس نے اس پر بری طرح تشدد کیا۔

اس نے یاد کرتے ہوئے کہا، ”ایرانی فورسز نے ہمیں شام کے 7 بجے گرفتار کیا اور اگلے روز صبح کے 6 بجے تک ہمیں پتھر کے فرش پر سلائے رکھا۔ ہم 41 لوگ تھے۔ ایک ایرانی فوجی ہماری پشت پر ٹھوکر مارتا اور ہماری گنتی کر رہا تھا۔ وہ ہمیں 'غلاظت' کہہ رہا تھا۔“

رنجبر نے کہا کہ ایرانی فوجی متعدد حیلوں سے تمام افغان پناہ گزینوں سے روپیہ بھی اینٹھتے ہیں۔

اس نے کہا، ”ایرانی سیکیورٹی فورسز افغان پناہ گزینوں کے ساتھ جو بھی بربریت کر سکتے ہیں، کرتے ہیں۔ وہ کسی کو نہیں چھوڑتے، یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500