حقوقِ انسانی

ایرانی حکومت بڑھتے ہوئے مظاہروں کو دبانے کے لیے وحشیانہ تشدد کا سہارا لے رہی ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایرانی سیکورٹی فورسز تہران میں ایک ایسے جائے وقوعہ پر پہنچیں جہاں مظاہرین نے مصروف چوراہے کے بیچ میں کوڑے کو آگ لگا دی تھی۔ [اے ایف پی]

ایرانی سیکورٹی فورسز تہران میں ایک ایسے جائے وقوعہ پر پہنچیں جہاں مظاہرین نے مصروف چوراہے کے بیچ میں کوڑے کو آگ لگا دی تھی۔ [اے ایف پی]

تہران کی "اخلاقی پولیس" کی حراست میں 22 سالہ مہسہ امینی کی ہلاکت کے پانچ روز بعد، ایران میں احتجاجی مظاہرے پورے ملک بھر میں پھیل گئے ہیں اور متعدد شہر اس احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔

نومبر 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والی بدامنی کے بعد سے، یہ مظاہرے ایران میں سب سے زیادہ سنگین ہیں، جس کی نشاندہی اس بار خواتین کی بڑی تعداد کی موجودگی سے ہوئی۔

ملک بھر میں منعقد ہونے والی ریلیوں میں، مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں، سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیوں اور کچرے کے ڈبوں کو آگ لگا دی اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

بہت سی خواتین نے اسلامی جمہوریہ کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے سر سے اسکارف اتار دیے ہیں۔ کچھ نے اپنے سروں کے اسکارف کو آگ لگا دی ہے یا علامتی طور پر اپنے بال کاٹ لیے ہیں۔

17 ستمبر سے لے کر اب تک، ایران کے متعدد شہروں میں خواتین اپنے سروں پر موجود چادروں کو جلا رہی ہیں اور ان کے گرد موجود ہجوم ان کے لیے تالیاں بجاتا ہے۔ [سوشل میڈیا]

17 ستمبر سے لے کر اب تک، ایران کے متعدد شہروں میں خواتین اپنے سروں پر موجود چادروں کو جلا رہی ہیں اور ان کے گرد موجود ہجوم ان کے لیے تالیاں بجاتا ہے۔ [سوشل میڈیا]

خواتین کے لیے لازمی طور پر سر ڈھانپنے کے قانون کے خلاف ملک بھر میں 16 ستمبر سے مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

خواتین کے لیے لازمی طور پر سر ڈھانپنے کے قانون کے خلاف ملک بھر میں 16 ستمبر سے مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

ایران میں مقیم متعدد مشہور خواتین نے سر کے اسکارف کے بغیر سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر جاری کرکے اختلاف رائے میں شمولیت اختیار کی ہے جو کہ ایران کے سوشل میڈیا کے حلقوں میں ایک ممنوعہ اقدام ہے۔

تہران میں، یونیورسٹی کے طالب علم اخلاقی پولیس کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں، جس نے احتجاج کو دبانے اور خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے پر مجبور کرنے کے لیے، فورس کی خواتین ارکان کو یونیورسٹیوں میں تعینات کر دیا ہے۔

احتجاجی مظاہروں پر کریک ڈاؤن

ایران سے آنے والی متعدد خبروں میں جمعہ (16 ستمبر) سے لے کر اب تک، کم از کم آٹھ مظاہرین کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے، جب صوبہ کردستان کی رہنے والی امینی کو تہران کے ایک اسپتال میں مردہ قرار دیا گیا تھا۔

منگل کی رات، پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور 1,000 شرکاء کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گرفتاریاں کیں۔

کردستان کے گورنر اسماعیل زری کوشا نے منگل کو بتایا کہ صوبے میں پیر کے روز ہونے والے احتجاج کے دوران تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں اور انہوں نے سیکیورٹی فورسز پر براہ راست فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے جس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے گواہوں کے اکاؤنٹس اور ویڈیوز "اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ حکام مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کر رہے ہیں اور انہوں نے مبینہ طور پر صوبہ کردستان میں مہلک طاقت کا استعمال کیا ہے"۔

ناروے میں قائم انسانی حقوق کے کرد گروپ ہینگاو نے کہا کہ اس نے کردستان میں تین اموات کی تصدیق کی ہے -- دیوانداریہ قصبے، صغیز اور دیہگولان میں۔

اس نے مزید کہا کہ کردستان میں، جہاں پیر کو بھی عام ہڑتال کی گئی تھی اور عوام نے پیر اور منگل کو دو روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا اور اسے منایا تھا، میں 221 افراد زخمی ہوئے اور دیگر 250 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ہینگاو نے مزید کہا کہ ایک 10 سالہ لڑکی -- جس کے خون سے لتھڑے جسم کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں -- بکان کے قصبے میں زخمی ہوئی تھی لیکن وہ زندہ ہے۔

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کی غیر سرکاری تنظیم نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے "مظاہروں کو کچلنے" کے لیے بعض علاقوں میں لاٹھیوں، آنسو گیس، پانی کی توپوں، ربڑ کی گولیوں اور گولہ بارود کا استعمال کیا ہے۔

نیٹ بلاکس کے انٹرنیٹ تک رسائی کے مانیٹر نے پیر کو مظاہروں کے دوران کردستان میں 3.5 گھنٹے طویل علاقائی انٹرنیٹ بلیک آؤٹ اور تہران اور دیگر شہروں میں جزوی رکاوٹوں کو بھی نوٹ کیا۔

جب بھی ملک میں مظاہرے ہوتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ باقاعدگی سے انٹرنیٹ تک رسائی کی پابندیوں کا سہارا لیتی ہے۔

ایرانی رہبر علی خامنہ ای، جنہوں نے بدھ کے روز ایران عراق جنگ کی سالگرہ کے موقع پر متعدد فوجی کمانڈروں سے ملاقات کی، جاری مظاہروں کے بارے میں واضح طور پر خاموش رہے۔

عالمی ردعمل

امینی کی موت اور مظاہروں پر ایران کے ردعمل کی اقوام متحدہ، امریکہ، فرانس اور دیگر ممالک نے مذمت کی ہے۔

یہ صورتحال صدر ابراہیم رئیسی پر دباؤ میں مزید اضافہ کرے گی جو پہلے ہی ایران کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سخت جانچ پڑتال کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے۔

جنیوا میں، اقوام متحدہ نے کہا کہ قائم مقام ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ندا النشف نے امینی کی موت اور "اس کے بعد ہونے والے مظاہروں پر سیکورٹی فورسز کے پرتشدد ردعمل" پر تشویش کا اظہار کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری-مغدام نے کہا کہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک کو "لوگوں کے بنیادی حقوق کا ادراک کرتے ہوئے اور ان کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے، ریاستی قتل کے مزید واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے"۔

جمعہ کو ان کی موت کے بعد سے، مہسہ امینی کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہیش ٹیگ ٹویٹر پر فارسی میں ایک کروڑ سے زیادہ اور انگریزی میں پانچ ملین بار استعمال ہو چکا ہے۔

انسٹاگرام پر "عورت، زندگی، آزادی، کردستان سے لے کر پورے ایران تک" اور "میں ایک عورت ہوں، بغیر ڈھانپے ہوئے میرے بال دیکھنے کی عادت ڈالو" مہمات نے لاکھوں فالوورز کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

ٹک ٹاک پر مہسہ امینی ہیش ٹیگ 96 ملین بار استعمال ہو چکا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500