تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چین، ذرائع ابلاغ پر سنسرشپ اور انٹرنیٹ پر جبری پابندیوں کے ذریعے اپنے داخلی معلوماتی ماحول پر عبور پانے کے بعد، بیرونی ممالک میں بھی میڈیا کے منظر نامے کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
بیجنگ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کے لیے حساس موضوعات پر عالمی بیانئیے میں ہیرا پھیری کرنے کے لیے "بھیڑیا جنگجو" سفارت کاروں، سرکاری اور نجی خبری اداروں اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کے مجموعے پر انحصار کرتا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے 24 اگست کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا، "پی آر سی کے پیغام رسانی کے حربے بین الاقوامی معلومات کے ماحول میں سیلاب لا کر اور پی آر سی کی پالیسیوں کی حمایت کی مصنوعی شکل بنا کر، دونوں طریقوں سے ایسے مواد تک رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو بیجنگ کے سرکاری مؤقف سے متصادم ہوں"۔
رپورٹ میں سنکیانگ کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں ہیرا پھیری کرنے کی چین کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جہاں بیجنگ پر نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے جو اس نے مسلم یغوروں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کے خلاف کیے ہیں۔
بیجنگ پر الزام ہے کہ اس نے دس لاکھ سے زائد یغوروں اور دیگر زیادہ تر مسلمان، ترک زبان بولنے والے افراد کو حراست میں رکھا ہوا ہے جو برسوں سے جاری ایک کریک ڈاؤن کے ایک جزو کے طور پر دور دراز کے مغربی علاقے میں رکھے گئے ہیں جسے امریکہ، دیگر حکومتوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے "نسل کشی" کا نام دیا ہے"۔
عام طور پر چین کی معلومات پر اثر انداز ہونے والی مہم کا مقصد چینی مفادات کے لیے اہم بیانیئے کو دبانا اور بیجنگ کے پسندیدہ بیانیئے کو آگے بڑھانا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بیجنگ کم از کم 38 زبانوں -- بشمول انگریزی، ہسپانوی، فرانسیسی، عربی اور روسی -- اور 309,000 فالورز کی اوسط رسائی میں بین الاقوامی سامعین تک پہنچنے کے لیے 200 سے زیادہ تیسرے ملک کے سوشل میڈیا میں اثر و رسوخ کے حامل افراد کو استعمال کر رہا ہے۔
پی آر سی کے سائبر اسپیس افیئر کمیشن اور مرکزی پراپیگنڈا شعبے میں تقریباً 2 ملین چینی شہریوں اور مزید 20 ملین پارٹ ٹائم "نیٹ ورک سویلین رضاکاروں" کو براہ راست ملازمت دی گئی ہے تاکہ چین کے گھریلو سامعین اور چینی بولنے والے پردیسی گروہوں کو ہدف بنایا جا سکے۔
چینی حکومت دنیا بھر میں سفارت کاروں کے اپنے وسیع نیٹ ورک اور سفارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی استعمال کرتی ہے۔
سفارتی سوشل میڈیا پیغامات کی اکثریت دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہے۔
دویگر عناصر، جنہیں "بھیڑیا جنگجو" سفارتکار کہا جاتا ہے، ایسے بیانات کی تردید، "نامنظوری" اور انحراف کرنے کے لیے زیادہ جارحانہ انداز اپناتے ہیں جو پی آر سی کی سرکاری پیغام رسانی کے خلاف ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ٹرولز معلومات کے ماحول کو زہر آلود کرنے اور پی آر سی کے تنقیدی بیانات سے توجہ ہٹانے کے لیے حملہ کرنے، تنازعات کو ہوا دینے، توہین کرنے اور ہراساں کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں"۔
سنکیانگ پر بیانیئے کو شکل دینے کے لیے بیجنگ کی مہم کے علاوہ، پی آر سی کی مہمات کا مقصد ہانگ کانگ اور تائیوان میں جمہوریت نواز تحریکوں کو کچلنا، یوکرین پر روس کے حملے کے بارے میں غلط معلومات پھیلانا اور عالمی اہمیت کے دیگر مسائل پر سازشی نظریات کو فروغ دینا ہے۔
چین کے بیانیئے کو کنٹرول کرنا بیجنگ کے لیے ایک تزویراتی ترجیح ہے کیونکہ وہ اپنی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جسے ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعے اپنا سیاسی، فوجی اور اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں گھسنا
مصر کی بینی-سوئیف یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات نادیہ حلمی کے مطابق چینی ماڈل کو کچھ ماحولوں میں سامعین ملے ہیں۔
مثال کے طور پر، مشرق وسطیٰ میں چینی عربی بولنے والے صحافیوں، میڈیا کی شخصیات اور کارکنان نے متعدد موضوعات پر بیجنگ کے سرکاری نقطۂ نظر کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا، خاص طور پر ٹوئٹر پر "قابل ذکر سرگرمی" کا مظاہرہ کیا ہے۔
18 جولائی کو انہوں نے ماڈرن ڈپلومیسی ویب سائٹ پر لکھا، "یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ چین کی پالیسیوں کو واضح کرنے کے لیے عرب میڈیا پر ان کی موجودگی میں تاخیر کے باوجود، عربوں کو راغب کرنے میں ان چینی طریقوں نے کامیابی حاصل کی ہے"۔
حلمی نے کہا، "چین نے ایک وسیع ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے جو اسے تمام سماجی پلیٹ فارموں کو کنٹرول اور ان کی نگرانی کرنے اور چینی ریاست اور اس کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری خیالات کا اظہار کرنے کے قابل بناتا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 300 سے زائد چینی سفارتکار ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا مغربی سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ایک اکاؤنٹ ہے، جس میں فیس بک اور ٹویٹر کے کل 500 سے زیادہ اکاؤنٹ ہیں۔
"ان اکاؤنٹوں کا کام خود یا دوسرے فالورز کے ذریعے اپنی پوسٹوں کو ریٹویٹ کرنا، شائع کرنا یا لائیک کرنا ہے، جو بالآخر تمام مسائل پر عالمی سطح پر چین کے نقطۂ نظر کو پھیلانے اور اس کے اظہار کا باعث بنتا ہے"۔
حلمی نے کہا، "چین ایک انسدادی قوت بنانے کے لیے کام کر رہا ہے، تاکہ عالمی سطح پر اس کے بارے میں لکھی جانے والی ہر چیز کا مقابلہ بیجنگ کے متضاد نقطۂ نظر سے کیا جا سکے"۔
وسطی ایشیاء میں نقصان دہ تجاوزات
وسطی ایشیاء میں بیجنگ کی میڈیا کی موجودگی ایک اور مثال پیش کرتی ہے۔
بشکیک میں آرگنائزیشن فار سیکیوریٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ (او ایس سی ای) اکیڈمی کی 25 اگست کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، کرغزستان وسطی ایشیائی دائرے میں دھکیلنے کی چین کی کوششوں پر ایک مثالی مقدمہ پیش کرتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرغزستان کے غریب ذرائع ابلاغ کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرکے، اپنے سرکاری اداروں کو وسعت دے کر اور مقامی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرکے، چین کو امید ہے کہ وہ خطے میں معلوماتی منظر نامے کو تشکیل دے لے گا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بیجنگ "بیرونی ممالک میں معلومات کے ماحول کو کنٹرول کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے"۔
او ایس سی ای اکیڈمی کی سینئر محقق اور رپورٹ کی مصنفہ، نیوا یاؤ نے 27 اگست کے ایک مضمون کے لیے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) کو بتایا، "پیسہ بولتا ہے، اور یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ [کرغزستان کے] ذرائع ابلاغ کے شعبے کے پاس بہت کم فنڈز ہیں"۔
انہوں نے کہا، "[چین] کے پاس سرمایہ کاری کرنے اور خرچ کرنے کے لیے بہت پیسہ ہے"۔
او ایس سی ای کے مطالعے نے نتیجہ نکالا ہے کہ چینی حکمتِ عملی کے تین اہم عناصر ہیں: کرغیز میڈیا کے اندر مواد داخل کرنا، پی آر سی میڈیا کی مقامی موجودگی کو بڑھانا اور سوشل میڈیا پر مصروفیت کا تعاقب کرنا۔
آر ایف ای/آر ایل نے خبر دی ہے کہ بشکیک میں چینی سفارتخانہ مفت رپورٹنگ کی سیروں کا انتظام کرکے اور فنڈنگ اور دیگر مراعات کی پیشکش کر کے کرغیز تعاون کو فروغ دیتا ہے تاکہ مقامی صحافی سازگار کہانیاں شائع کریں اور منفی خبروں کو روکیں۔
بھونڈی کوششیں
اس بات کا اعتراف ہے کہ چین نے بعض اوقات غیر ملکی میڈیا کو زیر کرنے کی کوشش میں ٹھوکر کھائی ہے۔
یاؤ نے کہا، "چین کی طرف دیکھیں تو بہت اناڑی پن نظر آتا ہے، لیکن یہ ابھی بھی بڑھ رہا ہے اور اپنایا بھی جا رہا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر."
انہوں نے کہا، "جب عالمی ذرائع ابلاغ کی بات آتی ہے تو [چین] کافی نادان ہے۔ وہ صرف اس ماڈل کو [گھر سے] کاپی اور پیسٹ کرتے ہیں جب وہ بیرون ملک جاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں مقامی لوگوں کی بات سننے سے انکار کرتے ہیں جو ان کے لیے کام کرتے ہیں"۔
اور کرغیز ملازمین اکثر یقین رکھنے کی بجائے پیسے کے لیے چینی مقصد میں شامل ہو جاتے ہیں۔
یاؤ نے کہا، "بہت سے لوگوں یہ کام بہت بد دلی سے کرتے ہیں۔ یہ کچھ عملی ہے کیونکہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے"۔
او ایس سی ای نے خبردار کیا کہ اگر بیجنگ کو روکا نہ گیا تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
اس کا کہنا تھا، "اگر اس سے نہ نمٹا گیا، چینی مفادات کو پورا کرنے سے، کرغیز ذرائع ابلاغ کا شعبہ ممکنہ طور پر اہم امور پر سرکاری ریاستی عہدوں پر اثر و رسوخ کے ایک آلے میں تبدیل ہو سکتا ہے"۔