سلامتی

بڑھتے ہوئے علاقائی خطرات کے دوران اردن میں مہنگی کثیر ملکی فوجی مشقوں کا انعقاد

پاکستان فارورڈ

ریاستہائے متحدہ امریکہ، اردن اور سعودی عرب کی بحری افواج کو 6 ستمبر کو اردن کے کیمپ ٹائٹن میں 2022 کی ایگر لائین نامی مشقوں کے دوران حفاظتی بریفنگ دی جا رہی ہے۔ [سینٹ کام]

ریاستہائے متحدہ امریکہ، اردن اور سعودی عرب کی بحری افواج کو 6 ستمبر کو اردن کے کیمپ ٹائٹن میں 2022 کی ایگر لائین نامی مشقوں کے دوران حفاظتی بریفنگ دی جا رہی ہے۔ [سینٹ کام]

حکام نے بتایا کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ، اردن اور 28 شراکت دار ممالک اردن میں دو ہفتے کی "ایگر لائین" نامی مشقوں کو سمیٹ رہے ہیں، یہ "کثیر جہتی" فوجی مشقیں تھیں جو امریکہ-اردن کی وسیع تر فوجی شراکت داری کے "نکتہِ عروج" واقعہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔

یو ایس سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے کہا کہ یہ مشقیں، جو 4 ستمبر کو شروع ہوئیں اور جمعرات (15 ستمبر) کو اختتام پذیر ہوئیں، خطے کی سب سے بڑی مشقوں میں سے ایک ہیں۔

انہیں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ، وسطی ایشیا، یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھی ممالک کے درمیان فوجی مہارت کے تبادلے اور باہمی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

میجر جنرل سٹیون جے ڈی ملیانو جو کہ سینٹ کام کے مشقوں اور تربیتی ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ ہیں نے کہا کہ "ایگر لائین ایک کثیر جہتی واقعہ ہے جو پیچیدہ ماحول میں کام کرنے والی شراکت داری اور ذمہ دار مشترکہ افواج کے لیے ہماری وابستگی کو ظاہر کرتا ہے جو کوئی آسان فتوحات یا فوری جیت نہیں پیش کرتے ہیں۔"

امریکی جہاز راں، ایگر لائین نامی مشقوں مشق کے ایک حصے کے طور پر، 4 ستمبر کو عقبہ میں اردن کی شاہی بحریہ کے اڈے پر، غوطہ لگانے سے پہلے حفاظتی بریفنگ حاصل کر رہے ہیں۔ [سینٹ کام]

امریکی جہاز راں، ایگر لائین نامی مشقوں مشق کے ایک حصے کے طور پر، 4 ستمبر کو عقبہ میں اردن کی شاہی بحریہ کے اڈے پر، غوطہ لگانے سے پہلے حفاظتی بریفنگ حاصل کر رہے ہیں۔ [سینٹ کام]

اردن کا ایک ہیلی کاپٹر، عقبہ میں اردن کی شاہی بحریہ کے اڈے سے روانہ ہو رہا ہے جس میں 8 ستمبر کو ایگر لائین نامی مشقوں میں حصہ لینے والے دو سرچ اینڈ ریسکیو غوطہ خور سوار ہیں۔ [سینٹ کام]

اردن کا ایک ہیلی کاپٹر، عقبہ میں اردن کی شاہی بحریہ کے اڈے سے روانہ ہو رہا ہے جس میں 8 ستمبر کو ایگر لائین نامی مشقوں میں حصہ لینے والے دو سرچ اینڈ ریسکیو غوطہ خور سوار ہیں۔ [سینٹ کام]

انہوں نے کہا کہ "زیادہ وسیع طور پر، شراکت داری فوجوں کو صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور بحرانی صورتحال کا فوری جواب دینے کے قابل بناتی ہے۔"

سینٹ کام کے مطابق، تقریباً 1,700 امریکی فوجی، اردنی مسلح افواج کے 2,200 اہلکار اور 28 دیگر شراکت دار ممالک سے تعلق رکھنے والے 591 عالمی اتحادی، فوجی مشقوں میں حصہ لے رہے ہیں یا اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

سینٹ کام نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مشقیں، جو اب تک 10 دفعہ منعقد ہو چکی ہیں، مشرق وسطیٰ کے شراکت داروں کے ساتھ اور ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے درپیش مخلوط خطرات کے خلاف مشترکہ دفاع کے لیے، ریاستہائے متحدہ کے عزم کو واضح کرتی ہیں۔

حصہ لینے والی فوجوں کے لیے تربیتی پروگراموں میں طویل فاصلے تک بمباری کرنے والا مشن، فرضی دشمنوں کی طرف سے کیے جانے والے سائبر خطرات سے نمٹنا، ایجنسیوں کے درمیان رابطے اور رابطہ کاری اور انسداد دہشت گردی کی مہارتوں کی نشوونما شامل تھی۔

فوجی اہلکاروں نے مربوط فضائی اور میزائل دفاعی ہم آہنگی، سمندری اور بارڈر سیکیورٹی، ڈیزاسٹر رسپانس اور انسانی امداد پر بھی کام کیا۔

کھلے میدان میں منعقد ہونے والی ایک فوجی مشق میں، مشترکہ ہتھیاروں کی لائیو فائر ایکسرسائز، کمانڈ پوسٹ ایکسرسائز اور ایک سینئر لیڈر سیمینار شامل تھا تاکہ حکمت عملی سے لے کر اسٹریٹجک سطح تک معلومات کے تبادلے کو آسان بنایا جا سکے۔

سینٹ کام نے کہا کہ 2022 کے منظر نامے کو "فضائی، زمینی، سمندری اور سائبر ڈومینز میں، علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، انٹرآپریبلٹی کی جانچ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔"

علاقائی تعاون

ایگر لائین نامی مشقیں ایسے موقعہ پر ہوئی ہیں جب امریکہ کی قیادت میں کئی بڑی مشقوں منعقد ہوئی ہیں جن کا مقصد مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو بہتر بنانا ہے۔

ایرانی حکومت اور اس کے نائبین کی طرف سے، علاقائی سلامتی کو مسلسل لاحق رہنے والے خطرات کے پیش نظر، امریکہ اور سعودی افواج نے اپنی شراکت داری کو مستحکم کرنے اور وسیع ممکنہ منظرناموں کے لیے تیاری کرنے کے لیے، مشترکہ مشقیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

سینٹ کام نے 12 اگست کو ٹویٹ کیا کہ دی نیٹیو فیوری 22 نامی مشقیں، جو 9 اگست کو شروع ہوئیں اور تقریباً ایک ماہ تک جاری رہیں، "سعودی مسلح افواج کے ساتھ امریکہ کے دیرینہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بہت اہم تھیں"۔

اس نے کہا کہ یہ مشقیں آٹھویں بار منعقد ہو رہی ہیں اور ان مشقوں نے مشترکہ حکمت عملیوں اور سمندری صلاحیتوں کو بڑھایا ہے اور طویل مدتی علاقائی استحکام کو فروغ دیا ہے۔

انہیں یانبو اور البیضاء نامی سعودی بندرگاہوں اور پرنس سلطان ایئر بیس پر منعقد کیا گیا اور اس میں 1000 سے زیادہ فوجیوں اور سینکڑوں گاڑیوں اور بحری جہازوں نے شرکت کی۔

اس میں سمندری پری پوزیشننگ فورس، جسے علاقائی بحرانوں اور ہنگامی کارروائیوں کا جواب دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے، کے تیز رفتار انضمام کا ایک مظاہرہ شامل تھا۔

امریکی بحریہ کا پری پوزیشننگ پروگرام "اہم سمندری علاقوں میں موجود بحری جہازوں پر، حکمت عملی کے تحت فوجی سازوسامان اور رسد رکھتا ہے تاکہ کسی بڑی جنگ، انسانی بنیادوں پر آپریشن یا دیگر ہنگامی صورتحال کے دوران تیزی سے دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔"

علاوہ ازیں، امریکی فوج اور کئی وسطی ایشیائی ہم منصبوں نے علاقائی تعاون کو بہتر بنانے کے لیے، تاجکستان کی میزبانی میں اگست میں ہونے والی مشق میں حصہ لیا۔

علاقائی تعاون 2022 (آر سی 22) جسے سینٹ کام نے سپانسر کیا تھا، دوشنبہ میں 10 سے 20 اگست کے درمیان منعقد ہوئی۔ یہ بات تاجکستان میں امریکہ کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں بتائی گئی۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ، تاجکستان، قازقستان، کرغزستان، منگولیا، پاکستان اور ازبکستان کے شرکاء نے آر سی 22 کے حصے کے طور پر، چھ روزہ کمانڈ پوسٹ مشق میں حصہ لیا۔

تاجکستان اور امریکہ نے فخر آباد ٹریننگ سنٹر میں، ان مشقوں کے ایک پانچ روزہ دو طرفہ فیلڈ ٹریننگ جزو کا بھی انعقاد کیا۔

بڑھتے ہوئے خطرات

تازہ ترین مشقیں ایسے موقعہ پر منعقد ہو رہی ہیں جب ایرانی ساختہ اور فراہم کردہ ڈرونز کا سیلاب ایسے ممالک میں آیا ہوا ہے جہاں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کام کرتی ہے اور جن میں عراق، شام اور لبنان بھی شامل ہیں۔

حالیہ اطلاعات کے مطابق لبنانی حزب اللہ، فاطمیون ڈویژن کے ارکان کو شام کے مشرقی صحرا (بادیہ) میں ڈرون آپریشن کی تربیت دے رہی ہے۔

یمن میں، ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے، کئی مواقع پر ایرانی ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔

اور عراق میں، ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے خلیج عرب میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے اڈوں اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے، برسوں سے ایرانی ڈرون استعمال کیے ہیں۔

چین کی طرف سے، فوجی اور تجارتی سہولیات کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی سرزمین کو قرن افریقا سے جوڑنے کے لیے، بنیادی ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر شروع کی جانے والی مہم نے بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔

اپنی "موتیوں کی لڑی" حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، چین کی خطاتِ بحر مالدیپ، بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان، ایران اور صومالیہ کی بڑی بندرگاہوں سے گزرتی ہیں۔

وہ اہم سمندری چوک پوائنٹس سے گزرتے ہیں جن میں بحیرہ احمر کے داخلی راستے پر آبنائے باب المندب، آبنائے ملاکا جو کہ بحر ہند اور بحرالکاہل کے سمندروں کے درمیان واقعہ ہے؛ خلیج عرب کے داخلی راستے پر واقعہ آبنائے ہرمز اور بالی اور انڈونیشیا کے جزائر کے درمیان واقعہ آبنائے لومبوک، شامل ہیں۔

بیجنگ کی بنیادی ڈھانچے کی عالمی مہم، جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) یا ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) کہا جاتا ہے، ان اہم بندرگاہوں سے اندرون ملک جاتی ہے اور مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا اور افریقہ کے دیگر حصوں تک پہنچتی ہے۔

لیکن ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ چین کے بظاہر تجارتی منصوبے دوہرے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں، جس سے اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوج کو اپنی رسائی میں وسعت ملتی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500