معیشت

پرفریب ٹیکنالوجی سے غیر قانونی چینی دام کشتیوں سے متعلق خدشات میں اضافہ

زرق خان

پاکستانی فوجی گوادر کی بندرگاہ پر پہرا دے رہے ہیں۔ [سارہ ٹِٹیرٹن/اے ایف پی]

پاکستانی فوجی گوادر کی بندرگاہ پر پہرا دے رہے ہیں۔ [سارہ ٹِٹیرٹن/اے ایف پی]

جدید ٹیکنالوجی سے لیس گہرے سمندر کی چینی دام کشتیاں مسلسل عالمی اور پاکستانی ماہی گیری کے لیے خدشات پیدا کر رہی ہیں۔

اپنے ملک کے پانیوں سے باہر ماہی گیری کرنے والی چینی کشتیوں پر طویل عرصہ سے غیر قانونی برتاؤ کا الزام ہے اور یہ نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر دنیا میں سب سے بڑے ماہی گیری کا استحصال کرنے والوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

اپریل میں شائع ہونے والی کانگریسی ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ چین نے دنیا کا سب سے بڑا ماہی گیر کشتیوں اور دام کشتیوں کا بیڑا جو ساحل سے دور اور قریب کے داخلی اور ہمسایہ ساحلی علاقوں میں کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دور کے پانیوں کا بیڑا (ڈی ڈبلیو ایف) بھی تشکیل دے لیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا، ”چین کے ماہی گیر بیڑا دنیا کے متعدد حصوں میں غیر قانونی ماہی گیری کی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے، اور چین غیر قانونی، بلا اطلاع اور بے قاعدہ ماہی گیری (آئی یو یو) کے لیے ذمہ دار ممالک میں سرِ فہرست ہے۔“

ایک فائل فوٹو میں ستمبر 2020 میں کراچی کے رہائشی سندھ اور بلوچستان میں گہرے سمندر کی چینی دام کشتیوں کی آمد کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

ایک فائل فوٹو میں ستمبر 2020 میں کراچی کے رہائشی سندھ اور بلوچستان میں گہرے سمندر کی چینی دام کشتیوں کی آمد کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

گزشتہ برس پاکستان نے ساحلی شہر گوادر، جو متوقع طور پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) جو ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) سے بھی موسوم ہے، کے قریب غیر قانونی ماہی گیری کے شبہ میں پانچ چینی دام کشتیوں کو حراست میں لیا۔

دی گارڈیئن نے جولائی 2021 میں خبر دی کہ مچھلیوں سے بھری چینی دام کشتیوں کو پاکستان کی بحری سلامتی کی ایجنسی (آئی پی ایم ایس اے) نے ضبط کیا، جس نے گوادر میں ان کی موجودگی کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

دی ہندو نے اگست 2021 میں خبر دی کہ ہمسایہ بھارت میں حکام نے معلوم کیا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے آلات استعمال کرنے والی چینی دام کشتیاں اپنے مقام کو چھپانے کے لیے نقائص پیدا کر سکتی ہیں۔

ایک بھارتی عہدیدار نے دی ہندو کو بتایا، ”اگر یہ دام کشتیاں [20 میٹر سے] کم گہرے پانی میں ماہی گیری کرتی ہیں تو یہ غیر قانونی ہے، لیکن یہ آلات ہمیں دھوکہ دے سکتے ہیں۔ اگر یہ باقاعدہ نظام استعمال کریں تو ہمارے لیے بچاؤ کے آپریشنز کے دوران بحریہ یا کوسٹ گارڈز کے ساتھ تعاون کرنا اور مچھلیاں پکڑنے کی اسناد سے متعلق تذبذب کو حل کرنا آسان ہو گا۔“

پی ایس ایم اے عہدیدار کے مطابق، پاکستانی حکام نے ان دام کشتیوں پر نصب چینی تکنیکی آلات پر بھی خدشات اٹھائے ہیں۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی درخواست کرنے والے، گوادر میں تعینات، پی ایس ایم اے عہدیدار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، ”چینی دام کشتیوں پر نصب ایسے تکنیکی آلات ملک کی ساحلی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔“

مقامی افراد ان خبروں سے متنبہ ہو گئے ہیں۔

گوادر میں ماہی گیروں کے ایک رہنما بشیر ہوت نے کہا، ”چینی ماہی گیر دام کشتیاں پاکستان کے ساحل سے تھوڑا دور غیر قانونی طور پر کام کرتی ہیں، اور مچھلیوں کی آبادی سکڑ رہی ہےاور آبی وسائل تباہ ہو رہے ہیں۔“

ہوت نے کہا، ”حکومتِ پاکستان کو نہ صرف مقامی ماہی گیر برادری کا معاش بچانے بلکہ ملک کی بحری سلامتی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چینی دام کشتیوں پر مکمل پابندی آئد کر دینی چاہیئے۔“

یالے یونیورسٹی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک آن لائن جریدے یالے انوائرنمنٹ 360 کی اگست 2020 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ماضی میں بھی چینی کشتیوں پر دو کشتیوں کے درمیان پھیلائے گئے گہرے سمندر کے دام کش جال استعمال کرنے کا الزام رہا ہے، اس عمل کی تحفظ پسند اس لیے مذمت کرتے ہیں کیوں کہ اس میں لا پروائی سے اور ضائع ہو کر مچھلی مر جاتی ہے۔

اس میں کہا گیا، ”ملک کے قریبی سمندروں کا صفایا کرنے کے بعد چین کا ماہی گیر بیڑا حالیہ برسوں میں دیگر ممالک کے پانیوں کا استحصال کرنے کے لیے مزید آگے جہاز رانی کر رہا ہے۔“

بڑھتے ہوئے چینی رسوخ پر تحفظات

گوادر میں ہزاروں ماہی گیر کارکنان نے اپنے ذرائع ماش اور روزمرہ زندگیوں پر چینی رسوخ سے متعلق مقامی رہائشیوں کو اپنے خداشات پہنچانے اور مقامی اور چینی دام کشتیوں کی گہرے سمندر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خاتمہ کے مطالبہ کے لیے، جس نے پاکستانی ماہی گیر کارکنان کے ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا ہے، متعدد ریلیوں میں شرکت کی ہے۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے ساتھ متعدد کثیر بلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے معاہدے کیے ہیں، جس سے ملک میں چینی رسوخ سے متعلق خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

قانون سازوں اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا چینی رسوخ – جس کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیاں مقامی افراد پر اثرات کی پرواہ کیے بغیر مقامی وسائل کا استحصال کر رہی ہیں —صوبہ میں شدید بدامنی پیدا کر رہا ہے۔

بلوچستان میں بڑھتے ہوئے چینی رسوخ نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند تنظیموں کو ایک دوسرے سے اتحاد کر لینے کی ترغیب دی ہے، جس سے ان خدشات کو ہوا ملی ہے کہ یہ مشترکہ گروہ خطے میں پر تشدد کاروائیوں میں اضافہ کرے گا۔

اپریل کے اوائل میں بلوچ راجیہ اجوئی سانگر (بی آر اے ایس) کے ایک جزُ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں ریاست کی زیرِ انتظام ایک جامعہ میں ایک خود کش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں بی ایل اے عسکریت پسندوں نے فروری میں فوجی ناکوں پر جڑواں حملے بھی کیے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500