ہرات، افغانستان -- صوبہ ہرات میں میعاد ختم ہونے والی، ناقص اور جعلی ایرانی ادویات کی اسمگلنگ میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے پورے افغانستان میں صحت عامہ کی سہولیات کا معیار پست ہوا ہے۔
افغانستان کے مغربی علاقے کی فارماسسٹس یونین کے مطابق، ہرات کے بازاروں میں پائی جانے والی آدھی سے زیادہ ادویات کی یا تو معیاد ختم ہو چکی ہے یا کم معیار کی ہیں اور انہیں اسمگلر غیر قانونی طور پر ملک میں لائے ہیں۔
یونین کے رہنما عبدالکریم شیرزاد نے کہا کہ "ایرانی ساختہ، کم معیار کی دوائیوں کی بہت بڑی مقدار، غیر قانونی راستوں سے ملک میں داخل ہوتی ہے اور کچھ مقدار سرحدی کسٹم دفاتر کے ذریعے [اسمگلرز] کی طرف سے رشوت دینے کے بعد ملک میں آتی ہے"۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ادویات "معیار کا معائنہ کیے بغیر بازار میں داخل ہوتی ہیں" کہا کہ "اسمگلرز انتہائی سرگرمی کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں اقسام کی کم کوالٹی کی ادویات مارکیٹ میں درآمد کر رہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "کم معیار کی ادویات دشوار گزار علاقوں سے درآمد کی جاتی ہیں اور مہینوں تک صحراؤں اور پہاڑوں پر، گرم اور سرد درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہیں جبکہ [اسمگلر] صحت کے رہنما اصولوں کو نظر انداز کرتے ہیں"۔
شیرزاد نے کہا کہ افغانستان میں زیادہ تر غیر معیاری اور معیاد ختم ہو جانے والی دوائیں، ایران سے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ دیگر پاکستان سے لائی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ایران سے درآمد شدہ میعاد ختم ہونے والی اور کم معیار کی دوائیں ایران میں استعمال نہیں کی جاتی ہیں بلکہ پیچیدہ اور غیر مانوس ناموں سے تیار کی جاتی ہیں اور افغانستان کو برآمد کی جاتی ہیں۔"
افغانستان کی دواسازی کی صنعت کو تباہ کرنا
درجنوں ادویات ساز ادارے، ہرات میں قانونی طور پر کام کرتے ہیں، مختلف ممالک سے کوالٹی-کنٹرولڈ اور لیبارٹری سے ٹیسٹ شدہ ادویات درآمد کرتے ہیں اور تقریباً 120 اقسام کی ادویات اور مختلف طبی آلات تیار کرتے ہیں۔
ہرات شہر کی ایک دوا ساز کمپنی، ہرات- وردک فارما کے سی ای او محمد ویس سہاک نے کہا کہ ایسے رجسٹرشدہ ادارے جنہوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، پڑوسی ممالک سے ادویات کی اسمگلنگ کی وجہ سے جمود کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی ساختہ زیادہ تر ادویات پر، دیگر اشیا کا غلط لیبل لگا دیا جاتا ہے اور پھر انہیں کسٹم کے ذریعے درآمد کیا جاتا ہے۔
سہاک نے کہا کہ "کسٹم کے کچھ ملازمین درحقیقت تعاون کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسمگلروں کے ساتھ شریک بھی ہوں۔" انہوں نے مزید کہا کہ کسٹم کے شعبے میں بدعنوانی ایک بڑی تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم تمام درآمدی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ تاہم، اسمگلر کسٹم ڈیوٹی کا ایک پیسہ ادا کیے بغیر ناقص معیار کی ادویات درآمد کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال کا تسلسل، دواسازی کی درآمد کرنے والی کمپنیوں کے کاموں کو خطرے میں ڈال دے گا اور ان کی سرمایہ کاری کو زیادہ خطرے لاحق ہو جائے گا۔"
ہرات انڈسٹریل سٹی میں سینا فارما فارماسیوٹیکل فیکٹری کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد فرید رؤفی نے کہا کہ جعلی اور کم معیار کی ادویات کی درآمد نے کاروبار پر منفی اثر ڈالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم 110 قسم کی ادویات تیار کرتے ہیں، لیکن اس سے مماثل [کم معیار کی] ادویات ہر روز بازار میں آتی ہیں۔ اس نے ہماری مصنوعات کی سقاحت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔"
رؤفی نے کہا کہ "کم معیار کی ادویات بہت سستے داموں دستیاب ہیں۔ ہماری اعلیٰ معیار کی دوائیں، قیمت پر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں"۔ رؤفی نے مزید کہا کہ اس صورت حال نے ان کی کمپنی کے آپریشنز کو نقصان پہنچایا ہے۔
ہرات انڈسٹریل سٹی میں ہری فارما فارماسیوٹیکل فیکٹری کے ڈائریکٹر عبدالبصیر واعظی نے کہا کہ ان کی فیکٹری، کمتر ادویات کے غیر منصفانہ مقابلے کی وجہ سے پیداوار کم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
اس کے نتیجے میں، اسے اپنے تقریباً 40 فیصد ملازمین کو برخاست کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ "ہم اعلیٰ معیار کی ادویات تیار کرتے ہیں تاہم، کمتر ادویات کی تقسیم نے مارکیٹ میں ہماری مصنوعات کی فروخت کو متاثر کیا ہے۔ [صارفین] معاشی مسائل کی وجہ سے سستی ادویات خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "اگرچہ ہم روزانہ 46 اقسام کی ادویات تیار کر سکتے ہیں، لیکن ہم اپنی پیداوار کو بہت کم اقسام تک محدود رکھتے ہیں اور اس کی وجہ دوسرے درجے کی درآمدی ادویات کی موجودگی کے ساتھ ساتھ مانگ کی کمی بھی ہے۔"
صحت کے خطرات
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایران سے آنے والی ناقص اور جعلی ادویات بھی مریضوں کی صحت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
محمد داؤد یارمند جو کہ ہرات شہر میں انٹرنل میڈیسن کے ماہر ہیں، نے کہا کہ "بدقسمتی سے، ہرات کی دواخانوں میں بہت سی کم معیار کی ادویات دستیاب ہیں اور ڈاکٹر لامحالہ انہیں روزانہ مریضوں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔"
یارمند نے خبردار کیا کہ کم معیار کی یا معیاد ختم ہو جانے والی دوائیں، خطرناک ہیں اور مریضوں کی موت کا باعث بن سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا وہ غیر موزوں ادویات "علاج نہیں کرتیں بلکہ مریضوں کی صحت کی مجموعی حالت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور... ممکنہ طور پر دوسری بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں"۔
ہرات شہر کے رہائشی 54 سالہ عبدالعزیز نیازی نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو، جسے لُو لگ گئی تھی، چار بار ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ہیں لیکن دوائی تجویز کرنے کے باوجود اس کی حالت بہتر نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا گزشتہ تین ہفتوں سے بیمار ہے اور ڈاکٹر کے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، ڈاکٹر نے درجنوں دوائیں تجویز کیں، اور خواہ وہ کتنی ہی ادویات کیوں نہ کھائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا، سب کچھ بے سود تھا۔
انہوں نے کہا کہ "اگر یہ دوا اصلی اور اعلیٰ معیار کی ہے تو یہ ایک بہت ہی آسان بیماری کا علاج کیوں نہیں کر سکتی ہے؟" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو علاج کے لیے جلد ہی پاکستان لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔