کابل -- ماہرینِ تعلیم کے مطابق، غربت، بے روزگاری اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے پر لگائی جانے والی پابندیاں، ان عوامل میں شامل ہیں جن کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان بھر میں 400 سے زیادہ نجی اسکول بند ہوئے ہیں۔
افغانستان کی نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے رکن ذبیح اللہ فارقانی نے کہا کہ "بدقسمتی سے، زیادہ تر نجی اسکول تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات میں غربت، بے روزگاری اور لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے آگے کی تعلیم پر پابندی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "اس صورتحال کی وجہ سے پورے افغانستان میں 400 سے زیادہ نجی سکول بند ہو گئے ہیں" جن میں سے 150 کابل میں اور 250 دوسرے صوبوں میں واقع تھے۔
اس سے پہلے، تقریباً 3,600 نجی اسکول، جن میں کابل کے 1,200 اسکول بھی شامل ہیں، پورے افغانستان میں کام کر رہے تھے۔
فارقانی نے کہا کہ معاشی بدحالی کے باعث بہت سے افغان شہری اپنی ملازمتوں اور کاروبار سے محروم ہو چکے ہیں، جس سے ان کے لیے اپنے بچوں کی اسکول کی فیس کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے -- جو کہ ان نجی اسکولوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ "غربت اور بے روزگاری نے نہ صرف طلباء کے اندراج کی تعداد میں کمی کی ہے بلکہ نجی اسکولوں کے لیے مالی بحران بھی پیدا کیا ہے۔"
کابل کے نور جہاں پرائیویٹ ہائی سکول کے پرنسپل جان آقا حکمت نے کہا کہ "حالیہ پیش رفت نے افغان شہریوں کی زندگیوں کے مختلف پہلووُں پر منفی اثر ڈالا ہے، جس میں سے تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ "
انہوں نے کہا کہ "گزشتہ سالوں میں، ہمارے اسکول میں پہلی سے بارہویں جماعت میں 650 مرد اور خواتین طالب علم تھے۔ لیکن اب ہمارے اسکول میں صرف 215 طلباء ہیں۔"
امیدیں اور خواب رُک گئے ہیں
فارقانی نے کہا کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں جاری رہیں تو مزید نجی اسکول بند ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "افغانستان بھر میں، ان نجی اسکولوں میں طلباء کی کل تعداد میں سے تقریباً 30 سے 40 فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے سے روکنا، بہت سے پرائیویٹ اسکولوں کو بند ہو جانے پر مجبور کردے گا اور اگر ایسی صورتحال برقرار رہی تو مزید اسکولوں کو بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔"
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیش رفت، تعلیم کے شعبے کی تباہی کو تیز تر کر دیتی ہے۔
کابل کے ستارہِ نور جہاں پرائیویٹ ہائی سکول کی مالک اور سربراہ بہارہ محمدی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "حالیہ پیش رفت نے افغان شہریوں کی زندگیوں کے مختلف پہلووُں کو متاثر کیا ہے اور بدقسمتی سے، تعلیمی شعبے کو کسی بھی دوسرے شعبے سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔"
محمدی نے کہا کہ "زیادہ تر طلباء غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ اساتذہ بھی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور نجی تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔"
محمدی کے اسکول میں زیر تعلیم 480 طلباء میں سے صرف 240 باقی بچے ہیں۔ دوسروں کو غربت یا لڑکیوں پر ملک گیر پابندی کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
گزشتہ اگست سے اب تک، 21 اساتذہ میں سے 11 اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
محمدی نے کہا کہ "گزشتہ سال تک سکول میں اندراج توقع سے زیادہ تھا اور طلباء نے اپنی کلاسوں میں بڑی دلچسپی کے ساتھ شرکت کی تھی۔ علاوہ ازیں، طلباء اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پر امید تھے اور وہ ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ اور اساتذہ بننے پر اپنی نظریں مرکوز کر رہے تھے۔"
"تاہم، یوں لگتا ہے کہ اب ان کے خواب غائب ہو گئے ہیں۔ ان کے چہرے پر اب مسکراہٹ ہے اور نہ ہی روشن مستقبل کی کوئی امید ہے۔"
ستارہِ نور جہاں میں چوتھی جماعت کے طالبِ علم مہدی جن کی عمر 12 سال ہے نے کہا کہ "میرے آدھے ہم جماعت، بشمول ہمارے ہم جماعت جو اول پوزیشن لیتے تھے اور بہت ذہین تھے، کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔"
"وہ بہت غریب ہو گئے تھے اور اسکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ مزید یہ کہ وہ کتابیں اور اسٹیشنری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔"
مہدی نے کہا کہ "مجھے اپنے دوستوں اور ہم جماعت کے لیے بہت افسوس ہوتا ہے اور یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ وہ اب ہماری جماعت کا حصہ نہیں رہے"۔
شٹ ڈاؤن اساتذہ کے لیے بھی مشکل رہا ہے۔
کابل شہر کے ایک نجی اسکول کی استاد آصفہ عابدی نے کہا کہ "میں ایک نجی اسکول میں پڑھانے سے اتنی کمائی کر رہی تھی کہ اپنے پانچ رکنی خاندان کی کفالت کر سکتی تھی۔ انہوں نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنے اسکول کا نام پوشیدہ رکھا ہے۔
"غربت اور معاشی بحران کی وجہ سے طلباء کے داخلوں میں کمی آئی ہے اور میری تنخواہ میں 50 فیصد کمی کی گئی ہے۔"
عابدی نے کہا کہ"اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو تمام اسکول بند ہو جائیں گے اور ہزاروں اساتذہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ مزید برآں، ایسی صورت حال میں معاشرے میں بے روزگاری اور غربت پھیل جائے گی۔"
کامیابیوں کو کھو دینا
بہت سے معلمین کے لیے، سب سے بڑا خوف دو دہائیوں کے دوران کیے جانے والے کام کو روک دینے کا ہے۔
کابل کی ایک نجی یونیورسٹی کی لیکچرار شریفہ فہیمی نے کہا کہ "پچھلی دو دہائیوں کے دوران، نجی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کو، تعلیم کے شعبے میں ایک بڑی کامیابی خیال کیا جاتا ہے۔"
فہیمی نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی یونیورسٹی کا نام پوشیدہ رکھا۔
"افغانستان بھر میں ہزاروں تعلیمی ادارے کھل گئے تھے۔ اس دوران کئی لاکھ طلباء فارغ التحصیل ہوئے اور اتنی ہی تعداد روزگار کی منڈیوں میں داخل ہوئی۔"
انہوں نے کہا کہ "اگر نجی تعلیمی ادارے تعلیم دینے کا اپنا کام بند کر دیتے ہیں تو نہ صرف گزشتہ 20 سالوں کی کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی بلکہ ہزاروں لوگ اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے اور ملک میں غربت اور بے روزگاری واضح طور پر پریشان کن صورت حال بن جائے گی۔"