سلامتی

مسافر طیاروں کے تصادم سے بال بال بچنے سے ایران میں حفاظتی تشویش، ناکامیوں کی نشاندہی

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

زمینی عملے کے ارکان گزشتہ 13 ستمبر کو کابل میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی آئی اے کے مطابق، 24 جولائی کو پی آئی اے کے دو طیارے ایرانی فضائی حدود میں آپس میں ٹکرانے سے بال بال بچے تھے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

زمینی عملے کے ارکان گزشتہ 13 ستمبر کو کابل میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پی آئی اے کے مطابق، 24 جولائی کو پی آئی اے کے دو طیارے ایرانی فضائی حدود میں آپس میں ٹکرانے سے بال بال بچے تھے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

اسلام آباد -- فضائی کمپنی کے ایک اہلکار نے منگل (26 جولائی) کے روز بتایا کہ ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی انسانی غلطی کی وجہ سے دو پاکستانی مسافر بردار طیارے ایرانی فضائی حدود میں بلندی پر آپس میں ٹکراتے ٹکراتے بچے۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) نے کہا کہ یہ واقعہ اتوار کے روز اس وقت پیش آیا جب ایرانی ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) نے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز PK-268 کو 36,000 فٹ سے 20,000 فٹ تک اترنے کے لیے کلیئر کیا۔

سرکاری فضائی کمپنی کے مطابق، پی آئی اے کی ایک اور مسافر بردار پرواز -- PK-211 جو دبئی کی طرف عازمِ سفر تھی -- 35,000 فٹ کی اونچائی سے نیچے اتر رہی تھی، اور ہوائی جہاز ایک دوسرے سے 1,000 فٹ کے اندر پاس پاس آ گئے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ کاک پٹ میں نصب "تصادم سے بچنے کے نظام نے دونوں پائلٹوں کو راستہ درست کرنے اور طیاروں کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے بعد ٹکراؤ سے بچنے میں مدد کی۔"

10 جنوری 2020 کو گرائے گئے یوکرین کے طیارے کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ [ارنا]

10 جنوری 2020 کو گرائے گئے یوکرین کے طیارے کی باقیات دیکھی جا سکتی ہیں۔ [ارنا]

انہوں نے کہا، "ہم واقعے کی تحقیقات کے لیے ایرانی حکام کو خط لکھیں گے کیونکہ اے ٹی سی کو پشاور جانے والی پرواز کو اترنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔"

ایرانی ایئر لائن ایسوسی ایشن (آئی اے اے) کے ترجمان میر اکبر رضوی نے بدھ کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ آئی اے اے نے دونوں پائلٹوں سے مزید معلومات کی درخواست کی ہے اور وہ تحقیقات کر رہی ہے۔

تاہم ایک ایرانی اہلکار نے پاکستانی دعوے کو مسترد کر دیا۔

ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی کے مشیر ہادی یوسف پورزاری نے منگل کو ٹویٹ کیا، "ایران کی فضائی حدود خطے میں محفوظ ترین ہے۔"

پابندیوں کی زد میں رہنے والے ایران کو حالیہ برسوں میں کئی فضائی آفات کا سامنا رہا ہے، حکام اپنے پرانے ہوائی بیڑے کو ہوا میں رکھنے کے لیے فاضل پرزہ جات کے حصول میں مشکلات پر شاکی رہے ہے۔

المناک یادیں

اس واقعے نے سنہ 2020 کے حادثے کی یادیں تازہ کر دی ہیں جس میں ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے دو میزائلوں سے یوکرین انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پرواز 752 کو سہواً مار گرایا تھا، جس میں سوار تمام 176 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

یوکرین کا طیارہ 8 جنوری 2020 کو گر کر تباہ ہو گیا تھا، اس سے چند ہی گھنٹے قبل جب تہران نے آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں امریکی افواج پر میزائل داغے تھے.

زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل کی نشاندہی کرنے والی ویڈیو اور واقعاتی ثبوت کے باوجود، تہران کئی دنوں تک میزائل حملے سے فلائٹ 752 کو گرانے سے انکار کرتا رہا۔

طیارہ مار گرائے جانے کے تین دن بعد اس وقت کے صدر حسن روحانی نے بالآخر اعتراف کیا تھا کہ طیارہ آئی آر جی سی نے گرایا تھا۔

اس اعتراف -- اور چھپانے کی کوشش -- پر ایران میں کئی دن تک حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہے تھے۔

ہزاروں ایرانی "آمر مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے -- جو سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی طرف اشارہ تھا -- "جھوٹے مردہ باد" اور دیگر حکومت مخالف نعرے لگائے۔

کچھ طلباء مظاہرین نے آئی آر جی سی کو "نااہل" اور "قوم کے لیے شرمندگی" بھی کہا۔

ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد، مارچ 2021 میں، ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے ایک حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک آپریٹر نے فلائٹ 752 کی "غلط شناخت" کی اور کمانڈر کی اجازت کے بغیر میزائل فائر کیا۔

البتہ، جون 2021 میں شائع ہونے والی کینیڈا کی ایک سرکاری رپورٹ میں ایرانی سویلین اور عسکری حکام کو اس سانحے کے لیے "مکمل طور پر ذمہ دار" قرار دیا گیا تھا۔

تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ فضائی دفاعی یونٹ کے آپریٹر نے میزائلوں کو لانچ کرنے کے لیے "ممکنہ طور پر اپنے طور پر کام کیا" لیکن اس نے ایرانی حکام کی "نااہلیت، لاپرواہی اور انسانی زندگی کے لیے دانستہ بے اعتنائی" کا بھی حوالہ دیا۔

رپورٹ، جس میں ثبوتوں، جائے حادثہ اور گواہوں تک رسائی کی کمی کو بھی تسلیم کیا، کے مطابق ایرانی طیارہ شکن میزائل کا عملہ انتہائی چوکس تھا، لیکن حکام نے اس وقت فضائی حدود کو بند نہیں کیا اور نہ ہی فضائی کمپنیوں کو مطلع کیا۔

نومبر میں پرواز PS752 کے متاثرین کے لواحقین کی انجمن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران کے اعلیٰ عہدے دار ذمہ دار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، "فوجی چوکسی کی اعلیٰ ترین سطح پر، ایران کی حکومت نے جان بوجھ کر شہری پروازوں کے لیے فضائی حدود بند نہ کر کے ممکنہ امریکی حملوں کے خلاف مسافر پروازوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔"

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ انٹرویو کی ایک آڈیو فائل، جو 25 اپریل 2021 کو میڈیا کو لیک ہوئی، نے واقعات کے حکومتی مؤقف کو ایک اور دھچکا پہنچایا۔

ظریف نے کہا کہ نہ تو روحانی کو، ان کی کابینہ کے ارکان کو، اور نہ ہی عملی طور پر آئی آر جی سی کے اعلیٰ عہدے داروں کے علاوہ کسی اور کو فلائٹ 752 کے گرائے جانے کے بارے میں علم تھا۔

انہوں نے کہا، واقعے کے اگلے روز، ان پر اس کے بارے میں ٹویٹ کرنے اور آئی آر جی سی کی جانب سے اسے نشانہ بنانے سے انکار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

جب انہوں نے آئی آر جی سی کے اہلکاروں سے کہا کہ وہ روحانی کابینہ کو حقیقت سے آگاہ کریں تاکہ وہ شاید کوئی حل تلاش کر سکیں، انہوں نے مزید کہا، انہوں نے "میری طرف ایسے دیکھا جیسے میں توہین رسالت کر رہا ہوں"۔

غلط ترجیحات

حالیہ برسوں میں دیگر شعبوں میں نظام کی ناکامیاں اور حادثات بھی ایران کی اپنے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے یا اپنی شہری دفاع اور افواج کو تربیت دینے میں ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں، بعض اوقات اس کے المناک نتائج بھی نکلتے ہیں۔

ایران کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے اور اہم بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے، حکومت نے اپنے کم ہوتے ہوئے وسائل آئی آر جی سی اور اس کی علاقائی پراکسیوں پر خرچ کرنے کا انتخاب کیا ہے، جن میں لبنانی حزب اللہ، عراقی ملیشیا اوریمن میں حوثی شامل ہیں۔

ایران کے اندر داخلی عدم اطمینان بڑھ رہا ہے کیونکہ اس کی معیشت اور عام شہریوں کی زندگی حکومتی قائدین کی بدانتظامی اور غلط ترجیحات کا شکار ہوتی رہی ہے۔

اس عدم اطمینان کو اس بڑھتے ہوئے شواہد کی وجہ سے تقویت ملی ہے کہ خامنہ ای اور آئی آر جی سی میں ان کے اتحادیوں سمیت سرکردہ رہنماؤں نے حکومت کے بیرون ملک توسیع پسندانہ ایجنڈے کو اپنے شہریوں کی معاشی بہبود پر ترجیح دی ہوئی ہے۔

شواہد بتاتے ہیں کہ ایران کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے جی رہی ہے۔ اگرچہ عوامی طور پر دستیاب اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایران میں بے روزگاری کی مجموعی شرح تقریباً 12 فیصد ہے، لیکن حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، بعض مبصرین کے مطابق یہ شرح 50 فیصد تک ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500