ایک جانب حکومت ایران اپنے غیرملکی ایجنڈا کو مالیات فراہم کرنے کے لیے پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے ، جبکہ دوسری جانب عام ایرانی سخت معاشی و معاشرتی حالات اور کم تنخواہوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
احتجاج کنندگان کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لیے حکومت سے مدد حاصل کرنے کے بجائے تمام شعبہ ہائے زندگی سے ملک گیر احتجاج میں حصہ لینے والے مظاہرین کو خاموش کرایا جا رہا ہے اور دبایا جا رہا ہے ۔
"مزدور بچے" کہلانے والے نابالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تہران اور ایران کے دیگر بڑے شہروں میں بھیک مانگنے یا کام کرنے پر مجبور ہے۔ ان میں سے چند کے پاس گلیوں کے علاوہ سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
دیگر کے ہمراہ، اساتذہ، کسانوں، سبکدوش ملازمین اور تیل و گیس، پیٹروکیمیکلز اور توانائی کی صنعتوں کے کارکنان کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جسے اقوام متحدہ (یو این) میں حقوق کے ماہرین نے حال ہی میں "پرتشدد کریک ڈاون" کے طور پر بیان کیا۔
11 ماہرین نے 15 جون کے ایک بیان میں حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہم اساتذہ، مزدوروں کے حقوق کے پاسداران اور یونیئن رہنماوں، وکیلوں، حقوق انسانی کے پاسداران اور سول سوسائٹی کے دیگر کرداروں کی گرفتاریوں میں حالیہ اضافہ سے تشویش کا شکار ہیں۔"
21 جولائی کو میڈیا فعالیت پسند واحد اشتری، جس نے مجلس کے خطیب محمد باقر غالباف کے خاندان کے ترکی میں پر تعیش خریداری کی خبر دی، کو دو برس قید کی سزا سنا دی گئی۔
موسم گرم ہونے کے ساتھ ساتھ، حکومت نے فورسز کی ایک بڑی تعداد، جس میں اکثریت خواتین کی ہے، کو خود کو مکمل طور پر پردہ کرنے سے انکار کرنے والی عام خواتین کے خلاف کریک ڈاون کے لیے تعینات کر دیا ہے۔ یہ فورسز "قانون کے مطابق پوری طرح سے پردہ نہ کرنے والی" خواتین کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہیں، تاہم ان میں سے متعدد گرفتاری مزاحمت کرتی ہیں۔
حکومتی فورسز اور لباس کے ضوابط کی مکمل طور پر پابندی نہ کرنے والے شہریوں کے درمیان گلیوں اور عوامی نقل و حمل میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس(آئی آر جی سی-کیو ایف) کے مرحوم کمانڈر قاسم سلیمانی کے ساتح قریبی تعلقات رکحنے والے غالباف پر تہران میں میئر کے عہدے پر گزارے گئے عرصہ کے دوران بڑی مقدار میں پیسے کے غبن کا الزام تھا۔ وہ مقدمے سے صاف بچ گیا جس میں دیگر پر جرم ثابت ہوا۔
اپریل میں اس کے خاندان سے متعلق شہ سرخی آئی کہ وہ ترکی کے ایک دورہ کے دوران خریدے گئے سامان سے بھرے 20 بڑے سوٹ کیس واپس لائے جس سے ایک ایسے وقت میں عوام غم و غصہ سے بپھر گئی جب کہ ایران میں متعدد سختاں جھیل رہے ہیں۔
اس کے برعکس حکومت کے عہدیداران بشمول علی خامنہ ای مسلسل یہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ کس قدر سادگی سے رہتے ہیں اور ان کے پاس کتنا کم مال ہے، باوجودیکہ تمام شواہد اس کے برعکس ہیں۔
فلم ساز خاموش
اے ایف پی نے خبر دی کہ 19 جولاءی کو ایران کے عدالتی مقتدرہ نے اعلان کیا کہ اختلاف رائے رکھنے والے ایک ایوارڈ حاصل کرنے والے فلم ساز جعفر پناہی، جسے گزشتہ ہفتے تہران میں گرفتار کیا گیا، کو چھ برس قید کی سزا کاٹنی ہو گی جو اسے 2010 میں دی گئی تھی۔
پناہی کو بین الاقوامی فلم میلوں میں ایسی فلموں پر متعدد ایوارڈ ملے جن میں جدید ایران پر تنقید کی گئی۔
مصطفی علی احمد اور محمد رسولوف کے ساتھ ساتھ وہ اس مہینے گرفتار کیے جانے والے ہدایت کاروں میں تیسرے ہیں، جنہوں نے 2020 میں برلن میں گولڈن بیئر ایوارڈ جیتا۔
عدلیہ کے ترجمان مسعود ستائشی نے کہا، "پناہی کو 2010 میں چھ برس قید کاٹنے کی سزا ملی" اور انہیں "اپنی قید گزارنے کے لیے ایون جیل لے جایا گیا۔"
ایون جیل ملک کی بدنام ترین جیل ہے، جہاں تقریباً تمام چوٹی کے سیاسی قیدیوں کو قید رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ اگست ایران کے جیل خانہ جات کے ڈائریکٹر نے تسلیم کیا کہ ایون میں انسانی حقوق کی پامالی کی ہیک شدہ ویڈیو – جس میں گارڈ قیدیوں کو ذدوکوب کر رہے ہیں – مصدقہ ہے۔
لیکن انہوں نے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ سے معذرت نہ کی۔
پاناہی کو 2010 میں بڑے پیمانے پر متنازع صدارتی انتخابات کے ردً عمل کے طور پر 2009 کے احتجاج کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ ان انتخابات کے نتیجہ میں اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد نے دوسری مرتبہ دفتر سنبھالا؛ بعد ازاں ہونے والے مظاہروں نے ایران میں گرین تحریک پیدا کی۔
پناہی پر "نظام کے خلاف پراپیگنڈا پھیلانے" کا الزام تحا اور انہیں چھ برس قید کی سزا سنائی گئی اور ان پر فلموں کی ہدایت کاری کرنے یا سکرین پلے لکھنے اور ملک چھوڑنے کی پابندی لگا دی گئی۔
لیکن انہوں نے 2010 میں صرف دو ماہ جیل میں گزارے اور بعد ازاں انہیں اس شرط پر چھوڑ دیا گیا کہ ان کی آزادی کسی بھی وقت ختم کی جا سکتی ہے۔
پناہی کو 11 جولائی کو رسولوف کی صورت حال کی پیروی کرنے کے بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
یہ گرفتاریاں اس امر کے بعد سامنے آئیں کہ جب پناہی اور رسولوف نے مئی میں ایک کھلے خط میں متعدد ساتھیوں کی گرفتاریوں پر احتجاج کیا۔
بین الاقوامی غم و غصہ
مہذب دنیا میں اس کا رد عمل فوری اور شدید تھا۔
کان فلم میلے کے منتظمین نے کہا کہ وہ فنکاروں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ "بظاہر ایران کے فنکاروں کے خلاف دباو کی ایک لہر کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"
وینس فلم میلے نے ہدایت کاروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا، جبکہ برلن فلم میلے نے کہا کہ یہ "پریشان کن اور غصہ دلانے ولا عمل ہے۔"
امریکہ نے تہران کی جانب سے "آزادیء اظہار کو روکنے کے لیے جاری کوششوں کی مذمت کی۔"
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، "ہم حکومت ایران پر زوردیتے ہیں کہ وہ ایسے تمام میڈیا کارکنان، فعالیت پسندوں اور پرامن مظاہرین کو رہا کرے جنہیں اس نے بے جا حراست میں رکھا ہوا ہے۔"
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ فرانس نے منگل کو دوبارہ پناہی کی "فوری" رہائی کا مطالبہ کیا اور اس کی "بلا جواز گرفتاری" کی مخالفت کی۔
گزشتہ ہفتے اس وزارت نے "ایران میں فنکاروں کی صورت حال کی پریشان کن ابتری" کا حوالہ دیا تھا۔
ایران نے حالیہ ہفتوں میں 8 جولائی کو گرفتار کیے جانے والے اصلاحاتی سیاستدان مصطفی تاج زادے سمیت متعدد رہنما کرداروں کو گرفتار کیا۔
ستائشی نے منگل کے روز کہا، تاج زادے "ملکی سلامتی کے خلاف کام کرنے کی نیت سے جمع ہونے اور تصادم کرنے اور نظام کے خلاف پراپیگنڈا" کے الزام میں "اس وقت ایون جیل میں قبل از عدالتی کاروائی حراست میں ہیں۔"
اس سیاستدان کو اولاً 2009 میں احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو متنازع بنانے والی گرین موومنٹ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
ایران میں جمہوری اور "نظام کی تبدیلیوں" کی مہم چلانے والے تاج زادے پر 2010 میں قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں 2016 میں وہ اپنی سزا کی مدت پوری کر کے رہا ہوئے۔
وہ 1997 سے 2005 تک اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کے دور میں نائب وزیر داخلہ تھے۔
مشکوک لین دین
دراین اثناء، حکومت ایران نے مشکوک لین دین جاری رکھا ہوا ہے، جس میں فرنٹ کمپنیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور بین الاقوامی پابندیوں سے بچتے ہوئے تیل کی غیر قانونی سمگلنگ اور منتقلی، جعل سازی اور غیر قانونی ترسیل زر شامل ہیں۔
امریکہ نے 6 جولائی کو تہران پر تیل سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی پر ایک درجن سے زائد پٹرولیم اور پیٹروکیمیکل پیدا کنندگان، ٹرانسپورٹرز اور فرنٹ کمپنیوں کو بلیک لسٹ کر دیا۔
ان 15 نامزد افراد اور کمپنیوں نے مشرقی ایشیا کو ایرانی پٹرولیم، پیٹرولیم مصنوعات اور پیٹروکیمیکل مصنوعات کی غیر قانونی فروخت اور ترسیل کے لیے خلیج اساسی فرنٹ کمپنیوں کے ایک جال کا استعمال کیا۔
قبل ازان امریکہ نے 16 جون کو فرنٹ کمپنیز کے ہمران چین اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں پابندیوں سے بچنے پر تین ایرانی پیٹروکیمیکل پیدا کنندگان پر پابندی عائد کی۔
کیرمن اساسی سیاسی تجزیہ کار فرامراز ایرانی نے المشرق سے بات کرتے ہوءے کہا کہ یہ بچولیے حکومت سے منسلک افراد ہیں، جنہیں "پابندیوں سے منفعت حاصل کرنے والے" کہا جاتا ہے۔
22 جون کی ایک رپورٹ میں وال سٹریٹ جرنل نے مغربی اور ایرانی سفارت کاروں اور عہدیداران کے حوالہ سے کہا کہ ایران نے "ضمنی کمپنیوں کے ایک نیٹ ورک، فارن ایکسچینج ہاوسز اور بچولیوں کے ذریعے" پابندیوں کو چقمہ دیا ہے۔
کیپیٹل مارکیٹ تجزیہ کار حسن زمانی نے کہا کہ حکومت کے زیرانتظام ایرانی کمپنیوں نے ایران سے باہر بینک کھاتے کھول رکھے ہیں اور فرنٹ کمپنیز بنا رکھی ہیں جو ایرانی تیل اور تیل کی مصنوعات کو کسی بھی ممکنہ کرنسی میں فروخت کرتی ہیں۔
زمانی نے ایک عالمی انسداد غیر قانونی ترسیل زر واچ ڈاگ کا حوالہ دیتے ہوءے کہا، "ایران اس وقت غیر قانونی ترسیل زر کی ایک عالمی جنت ہے، کیوں کہ وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا رکن نہیں۔"
پابندیوں سے بچ کر اور اس منافع کا استعمال کرتے ہوئے لبنان، عراق، شام اور یمن میں اپنے ضمنیوں کو مسلح کر کے، یہ حکومت ایرانی عوام کی اکثریت کو غربت کی جانب دھکیل رہی ہے۔