حقوقِ انسانی

انسانی حقوق کے ایرانی کارکنوں کے خلاف کردار کشی کی آن لائن مہم میں پاکستانی اداروں کا استعمال

از زرق خان

تہران کے پرویز پارک میں 27 فروری کو خواتین ایک بینچ پر بیٹھی ہیں۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

تہران کے پرویز پارک میں 27 فروری کو خواتین ایک بینچ پر بیٹھی ہیں۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

اسلام آباد -- انتہائی دولت مند اور ایرانی خواتین کو خاموش کرنے کی خواہش رکھنے والا کوئی شخص، پاکستان کے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے اداروں کو، اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے خلاف ایک گندی مہم چلانے کے لیے ادائیگی کر رہا، ان کی آن لائن موجودگی کو نشانہ بنا رہا اور ان کی اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر رہا ہے۔

اپریل کے وسط میں شروع ہونے والی ہراساں کرنے کی ایک مربوط مہم میں، ایران میں جنسی تشدد کی کہانیاں سانجھی کرنے والے کم از کم 25 انسٹاگرام اکاؤنٹس کو، بوٹس کی فوجوں نے نشانہ بنایا اور انہوں نے اکاؤنٹس کو جعلی سبسکرپشنز سے بھر دیا۔ یہ خبر ڈیجیٹل فرانزک کے غیر منافع بخش ادارے کوریم نے 16 جون کو دی ہے۔

انسٹاگرام ایسا واحد بڑا عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جس تک ایران میں ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے بغیر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، جبکہ دیگر مشہور بین الاقوامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز -- بشمول فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب -- ایرانی حکومت نے بلاک کر دیے ہیں۔

کوریم نے رپورٹ کیا کہ چار ہفتوں کے دوران، #می ٹو تحریک سے منسلک حقوقِ نسواں کے ممتاز ایرانی کارکنوں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس پر تقریباً 10 لاکھ جعلی سبسکرائبرز بھر گئے۔

کوریم نے خبر دی ہے کہ تقریباً 50,000 اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد، یہ واضح ہو گیا کہ ایک ہندوستانی-پاکستانی انسٹاگرام فالوور پیکج کو ایرانی #می ٹو سے متعلقہ اکاؤنٹس کا ایک سیلاب لانے کا حکم دیا گیا تھا۔ [کوریم - دی میڈیا فاؤنڈیشن]

کوریم نے خبر دی ہے کہ تقریباً 50,000 اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد، یہ واضح ہو گیا کہ ایک ہندوستانی-پاکستانی انسٹاگرام فالوور پیکج کو ایرانی #می ٹو سے متعلقہ اکاؤنٹس کا ایک سیلاب لانے کا حکم دیا گیا تھا۔ [کوریم - دی میڈیا فاؤنڈیشن]

اکاؤنٹس کو سنبھالنا ناممکن ہو گیا اور اکاؤنٹس کے منتظمین کو دوسرے بوٹس کو شامل ہونے سے روکنے کے لیے اپنے پروفائلز کو "نجی" میں تبدیل کرنا پڑا۔

کوریم نے نام لیے بغیر کہ حملے کے پیچھے کون ہو سکتا ہے کہا کہ یہ حملہ واضح طور پر نشانہ بنا کر کیا گیا تھا -- اور حملہ آور نے ہزاروں ڈالر خرچ کیے تاکہ بوٹس کی فوج کو ان اکاؤنٹس کو فالو کرنے کی ہدایت کی جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرو اور دعا کمیونیکیشن کو فروغ دیتے ہوئے، سوشل میڈیا مارکیٹنگ (ایس ایم ایم) کے دو اداروں نے جو کہ صوبہ پنجاب سے کام کر رہے ہیں، انسٹاگرام فالوور پیکجز فروخت کیے جو ایرانی خواتین کارکنوں کے خلاف مہم میں استعمال کیے گئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیکجز میں، جتھوں میں فروخت کیے گئے ایسے اکاؤنٹس شامل ہیں جن میں جنوبی ایشیائی، ہندوستانی یا پاکستانی صارف ناموں کی اسٹاک کی تصاویر اور اکاؤنٹ کے بائیو میں انگریزی اقتباسات کو استعمال کیا گیا ہے۔

یہ پیکج "50 ڈالر میں 10,000 پیروکار، یا 1,500 ڈالر میں 10 لاکھ تک جعلی پیروکار" پیش کرتا ہے اور ہر قسم کے جعلی پیروکاروں، پروڈکٹ کے جائزے اور "لائکس" خریدنے کے لیے ڈیش بورڈ پیش کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ادائیگی پے پال یا کریپٹو کرنسی کے ذریعے قبول کی جاتی ہے۔

ہو سکتا ہے کہ مجرم نے صرف پیسے بچانے کے لیے پاکستانی بوٹس کا انتخاب کیا ہو۔

کوریم نے خبر دی ہے کہ "ہزاروں جعلی پاکستانی اکاؤنٹس خریدنا، ایرانی شناخت دکھانے والے اکاؤنٹس خریدنے کے مقابلے میں کم مہنگا ہے۔ ایس ایم ایم کے لیے پاکستانی مارکیٹ بہت بڑی ہے جس میں بہت سارے باز فروخت کار اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بڑھانے کے لیے ادائیگی کرنے کے خواہشمند گاہکوں کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔"

کوریم نے کہا کہ تاہم، ان جعلی اکاؤنٹس کا استعمال "ایرانی خواتین کی تحریک کو خاموش کرنے کے لیے ایک ڈیجیٹل حملے کی ایک شکل کے طور پر استعمال، [یوں]شاید ان مکار خدمات کے باز فروخت کنندگان کو معلوم نہیں ہے"۔

خواتین کے خلاف مہم

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے خلاف گندی مہم، ایران کے سول سوسائٹی اور حقوق کے کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا حصہ ہے جو سماجی مسائل کو دبانے کی مہم چلا رہے ہیں۔

اس ماہ، ایرانی حکام نے ملک کے "حجاب اور عفت" کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف ایک نیا سخت کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، جس کے تحت نو سال سے زیادہ عمر کی خواتین اور لڑکیوں کا لوگوں کے سامنے اسکارف پہننا لازمی ہے۔

1979 کے انقلاب کے بعد نافذ ہونے والے ایران کے شرعی قانون کے تحت، خواتین اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور ڈھیلے ڈھالے "باحیا" کپڑے پہننے کی پابند ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو عوامی سرزنش، جرمانے یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایرانی خواتین کی ایک بڑی تعداد اس قانون کی پابندی نہیں کرتی۔

اس سال، تہران نے اعلان کیا کہ 12 جولائی کو "قومی حجاب اور عفت کے دن" کے طور پر منایا جائے گا تاکہ خواتین اور ان کے جسموں کے حوالے سے ملک کے سخت قوانین کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔

تاہم ایرانی خواتین جو لباس کے ان پابندیوں سے تنگ آ چکی ہیں نے اس دن انسٹاگرام پر "#No2Hijab" مہم میں حصہ لیا اور ایسی ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں وہ اپنے بالوں کو ننگا کر رہی تھیں اور انہوں نے حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرنے والی پوسٹس بھی لکھیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن شاہ، جو یونائیٹڈ فار ایران انڈیپینڈنٹ رائٹس گروپ سے وابستہ ہیں نے کہا کہ ایران کے اندر، انسانی حقوق کے کارکن، خاص طور پر خواتین کے حقوق سے وابستہ افراد، تہران کے مظالم اور حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انسٹاگرام استعمال کر رہے ہیں۔

شاہ جنہوں نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر صرف اپنا آخری نام استعمال کیا ہے، نے کہا کہ ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے اور انہیں معاوضہ لے کر چلائی جانے والی ایک مہم کے ذریعے جنسی تشدد اور موت کی دھمکیاں دی ہیں۔

29 جون کو، انسانی حقوق کے متعدد گروہوں، جن میں آرٹیکل 19، ایکسیس ناؤ، یونائیٹڈ فار ایران اور فرنٹ لائن ڈیفنڈرز شامل ہیں، نے ایرانی خواتین کے حقوق کے محافظوں کے وسیع نیٹ ورک اور ایران کی #می ٹو تحریک کے کارکنوں کے خلاف "مستقل، اجرتی مہم" کے "مربوط حملوں" کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔

بیان میں انسٹاگرام اور فیس بک کی بانی کمپنی میٹا پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر جعلی پیروکاروں کی چھان بین کرے اور انہیں ختم کرے اور انسانی حقوق کے محافظوں، کارکنوں اور عام شہریوں کے لیے آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی کارکن عشرت علی نے ایرانی خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے خلاف آن لائن چلائی جانے والی کردار کشی کی مہم میں، پاکستانی سوشل میڈیا کمپنیوں کے ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے خواتین کے حقوق کے پاکستانی گروہوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ملک کے حکام پر سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔

علی نے کہاکہ "خواتین کے حقوق کے پاکستانی کارکن، تہران کی کٹر حکومت کے خلاف جدوجہد میں، انسانی حقوق کے ایرانی کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔"

ایرانی خواتین 'دوسرے درجے کی شہری'

اقوام متحدہ (یو این) کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کے مطابق، جس میں گھریلو تشدد، ایسے ہزاروں واقعات جن میں بڑی عمر کے مرد 10 سے 14 سال کی لڑکیوں سے شادی کر رہے ہیں اور قانون اور عمل میں مسلسل جاری رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا حوالہ دیا گیا ہے، ایران میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 13 سال ہے اور اس سے کم عمر لڑکیوں کی بھی ایران کے شرعی قانون کے تحت عدالتی اور والدین کی رضامندی سے شادی کی جا سکتی ہے۔

"اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال" پر اقوام متحدہ کی رپورٹ جسے 13 جنوری کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمع کرایا گیا، کے مطابق "مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے درمیان، 10 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کی 31,000 سے زیادہ شادیاں ریکارڈ کی گئیں، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 10.5 فیصد زیادہ ہیں۔"

ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جاوید رحمان نے اسلامی جمہوریہ میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک پر "فوری اصلاحات" کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ کے ایک بیان کے مطابق، انہوں نے مارچ 2021 میں کہا کہ "ایرانی قانون اور عمل میں صریح امتیاز موجود ہے جسے تبدیل ہونا چاہیے۔"

"اپنی زندگی کے متعدد شعبوں بشمول شادی، طلاق، ملازمت اور ثقافت میں ایرانی خواتین کو یا تو محدود کیا جاتا ہے یا انہیں اپنے شوہروں یا والدین سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے وہ اپنی خودمختاری اور انسانی وقار سے محروم ہو جاتی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ "یہ تعمیرات مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں اور اب ان کی اصلاح کی جانی چاہیے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500