دہشتگردی

داعش شام کے سربراہ کی ہلاکت سے تنظیم کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں 'نمایاں کمی'

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایک تصویر میں سڑک پر پڑے ہوئے دو گڑھے دکھائے گئے ہیں جہاں 12 جولائی کو ایک امریکی ڈرون نے شمالی شام میں جنڈیرس کے قریب خلتان گاؤں کے قریب داعش کے رہنما ماہر العجل کو نشانہ بنایا۔ [رامی السید/اے ایف پی]

ایک تصویر میں سڑک پر پڑے ہوئے دو گڑھے دکھائے گئے ہیں جہاں 12 جولائی کو ایک امریکی ڈرون نے شمالی شام میں جنڈیرس کے قریب خلتان گاؤں کے قریب داعش کے رہنما ماہر العجل کو نشانہ بنایا۔ [رامی السید/اے ایف پی]

گزشتہ ہفتے شام میں "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے سرکردہ رہنماء کی ہلاکت دہشت گرد گروہ کے لیے ایک اور دھچکہ ہے جو سنہ 2019 میں اپنے آخری علاقوں سے بھی محروم ہو گیا تھا۔

پینٹاگون اور مقامی تنظیموں نے بتایا کہ شام میں داعش کا سربراہ 12 جولائی کو امریکی ڈرون حملے میں اس وقت ہلاک ہو گیا جب وہ صوبہ حلب میں موٹرسائیکل پر سوار جا رہا تھا۔

امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ڈیو ایسٹبرن نے بتایا کہ ماہر العجل جنڈیرس قصبے کے قریب مارا گیا، اور اس کا ایک قریبی ساتھی اس حملے میں شدید زخمی ہوا۔

پینٹاگون نے کہا کہ العجل داعش کے سرکردہ پانچ رہنماؤں میں سے ایک اور شام میں داعش کا رہنماء تھا۔

اس مقام پر ملبہ دیکھا جا سکتا ہے جہاں پینٹاگون کے مطابق 12 جولائی کو شمالی شام کے گاؤں خلتان کے قریب امریکی ڈرون نے شام میں داعش کے رہنما ماہر العجل کو نشانہ بنایا تھا، اور اس کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے ایک شدید زخمی ہو گیا تھا۔ [رامی السید/اے ایف پی]

اس مقام پر ملبہ دیکھا جا سکتا ہے جہاں پینٹاگون کے مطابق 12 جولائی کو شمالی شام کے گاؤں خلتان کے قریب امریکی ڈرون نے شام میں داعش کے رہنما ماہر العجل کو نشانہ بنایا تھا، اور اس کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے ایک شدید زخمی ہو گیا تھا۔ [رامی السید/اے ایف پی]

اس نے کہا کہ تنظیم کے اندر ایک بڑا قائد ہونے کے علاوہ، العجل عراق اور شام سے باہر داعش کے نیٹ ورکس کی ترقی کے لیے جارحانہ طریقے سے آگے بڑھانے کا ذمہ دار تھا۔

شامی مشاہدہ گاہ برائے انسانی حقوق نے تصدیق کی ہے کہ العجل شمال مغربی حلب کے ضلع جنڈیرس میں ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اس حملے نے "ایک اہم دہشت گرد کو میدانِ عمل سے باہر کر دیا اور داعش کی خطے میں اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے، وسائل بنانے اور اپنی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے"۔

ایک بیان میں سینٹکام کا کہنا تھا، "اس کارروائی کی وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی تھی تاکہ اس کی کامیابی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔"

سینٹکام کے ایک اور ترجمان، کرنل جو بکینو نے کہا، "یہ حملہ خطے کے لیے سینٹکام کی ثابت قدمی اور داعش کی پائیدار شکست کی تصدیق کرتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "داعش کے ان رہنماؤں کو ہٹانے سے دہشت گرد تنظیم کی مزید سازشیں کرنے اور عالمی حملے کرنے کی صلاحیت تہہ و بالا ہو جائے گی۔"

اگرچہ داعش اب بھی مختلف ممالک میں مصروفِ عمل ہے، سنہ 2019 میں بین الاقوامی اتحاد کے شام کے علاقے البغوز میں اس کے آخری ٹھکانے پر قبضہ کرنے کے بعد سے اس کا کوئی علاقائی اڈہ نہیں بچا.

احرار الشرقیہ سے روابط

ڈرون حملے کے مقام پر سڑک میں دو چھوٹے گڑھے پڑے ہوئے تھے اور تباہ شدہ موٹر سائیکل کا ملبہ تھا۔

مقامی دیہاتیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ داعش کے دونوں ارکان اس علاقے کے نہیں تھے جہاں انہیں مارا گیا تھا۔

شامی جمہوری افواج (ایس ڈی ایف) کے ایک ترجمان نے کہا کہ دونوں افراد کا تعلق شمالی شام میں سرگرم ایک مسلح گروپ احرار الشرقیہ سے تھا۔

گروپ نے داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے سابق رہنماؤں اور ارکان کو مربوط کیا ہے، اور شمالی شام میں حملے کیے ہیں۔

احرار الشرقیہ سنہ 2019 میں ممتاز کرد خاتون سیاست دان حورین خلف کے قتل کی ذمہ دار تھی، جس پر بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

امریکی وزارتِ خزانہ نے اس گروہ اور اس کے دو رہنماؤں کو جولائی 2021 میں شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کے الزام میں اپنی پابندیوں والی بلیک لسٹ میں رکھا تھا۔

اُس وقت وزارتِ خزانہ کا کہنا تھا، "احرار الشرقیہ نے عام شہریوں، خاص طور پر شامی کردوں کے خلاف متعدد جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جن میں غیر قانونی قتل، اغواء، تشدد اور نجی املاک پر قبضے شامل ہیں۔"

انتہاپسند رہنماؤں کو نشانہ بنانا

16 جون کو، امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی اتحادی افواج نے شمالی شام میں طلوع فجر سے پہلے کی گئی فضائی کارروائی میں داعش کے ایک بڑے بم ساز کو پکڑا تھا۔

صوبہ حلب کی کارروائی کی تیاری میں ایس ڈی ایف کے ارکان ملوث تھے۔

بین الاقوامی اتحاد کا کہنا تھا، "گرفتار شخص ایک تجربہ کار بم ساز اور عملی سہولت کار ہے جو داعش کی شامی شاخ کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک بن گیا تھا۔"

واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ امریکی حکام نے اس کی شناخت ہانی احمد الکردی کے طور پر کی تھی، جسے "الراقہ کا والی" بھی کہا جاتا ہے، جو داعش کا سابق حقیقی دارالحکومت تھا۔

امریکی فوج اور مشاہدہ گاہ نے کہا کہ 27 جون کو شمال مغربی شام کے شہر ادلب کے کنارے پر ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے وابستہ حراس الدین کا ایک یمنی رہنما مارا گیا تھا۔

ادلب شہر اور قمیناس قصبے کے درمیان سڑک پر حملے کے وقت ابو حمزہ الیمنی موٹر سائیکل پر اکیلا سفر کر رہا تھا۔

3 فروری کو داعش کے سرکردہ رہنماء ابو ابراہیم القرشی نے شام کے صوبہ ادلب میں امریکی خصوصی افواج کے چھاپے کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا.

داعش کے رہنماء کے معروف پیشرو ابوبکر البغدادی کو بھی سنہ 2019 میں ادلب میں اسی طرح کے ایک چھاپے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

دونوں کارروائیوں میں ایس ڈی ایف کے ارکان ملوث تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500