سلامتی

روس کے خلاف یوکرین کی مزاحمت نے تائیوان کے شہریوں کو شہری جنگ کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، 18جون کو جنگی ورکشاپ میں شرکت کے دوران تائیوان کا ایک شہری، کارل گستاف ریکوئل لیس رائفل کی نقل اٹھائے ہوئے ہے۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، 18جون کو جنگی ورکشاپ میں شرکت کے دوران تائیوان کا ایک شہری، کارل گستاف ریکوئل لیس رائفل کی نقل اٹھائے ہوئے ہے۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

نیو تائپے سٹی، تائیوان -- فوجی کیموفلاج میں ملبوس حملہ کرنے والی رائفل کے ساتھ تیار، "پروفیسر" یہ تائی پے کے باہر پارکنگ میں ایک گاڑی کے پیچھے سے دیکھ رہے ہیں، وہ اپنے گردونواح کا جائزہ لے رہے ہیں اور آگے بڑھنے کے لیے اشارے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ دراصل مارکیٹنگ میں کام کرتا ہے اور اس کا ہتھیار ایک نقل ہے -- لیکن وہ ہفتے کے آخر میں شہری جنگی ورکشاپ میں شرکت کر رہا ہے تاکہ اس چینی حملے کے لیے تیاری کی جا سکے جو اس کی نظر میں انتہائی حقیقی خطرہ ہے۔

47 سالہ یہ، جس کا تربیت کے دوران تعارفی نشان "پروفیسر" ہے، نے سیشن کے درمیان وقفے کے دوران اے ایف پی کو بتایا کہ "روس اور یوکرین کے درمیان جنگ وہ بڑی وجہ ہے جس سے میں اس ورکشاپ میں آیا ہوں۔"

جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فروری کے آخر میں اپنی فوجوں کو یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے تائیوان کے بہت سے شہریوں کے تاریک ترین خوف کو شکل دے دی۔

تائیوان کا ایک شہری 18 جون کو نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، آتشیں اسلحہ کی ورکشاپ کے حصے کے طور پر ایک نقلی ہینڈگن سے ہدف بنا رہا ہے۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

تائیوان کا ایک شہری 18 جون کو نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، آتشیں اسلحہ کی ورکشاپ کے حصے کے طور پر ایک نقلی ہینڈگن سے ہدف بنا رہا ہے۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

تائیوان کے شہری 18 جون کو نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، آتشیں اسلحہ کی ورکشاپ کے ایک حصے کے طور پر، فائرنگ کی مشق کے دوران اپنے اہداف کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

تائیوان کے شہری 18 جون کو نیا تائپے شہر کی لنکو ڈسٹرکٹ میں، آتشیں اسلحہ کی ورکشاپ کے ایک حصے کے طور پر، فائرنگ کی مشق کے دوران اپنے اہداف کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [سیم یہ/ اے ایف پی]

تائیوان کی 1949 سے اپنی حکومت ہے لیکن وہ چین کے حملے کے مسلسل خطرے میں زندگی گزار رہا ہے۔ بیجنگ اس جزیرے کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور اس نے ایک دن اس پر قبضہ کرنے کا عزم کیا ہے -- اگر ضروری ہوا تو وہ اس کے لیے طاقت بھی استعمال کر سکتا ہے۔

لیکن یوکرین میں جنگ نے ، یہ سمیت بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

یوکرین کی افواج کی طرف سے کی جانے والی مزاحمت نے اسے امید دلائی ہے کہ صحیح حکمت عملی کے ساتھ، تائیوان کو بھی اپنے زیادہ طاقتور پڑوسی کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

وہ اکیلا نہیں ہے -- شہری جنگی کورس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ فروری سے اب تک ان کے طلباء کی تعداد تقریباً چار گنا ہو گئی ہے۔ آتشیں اسلحہ اور ابتدائی طبی امداد کے کورسز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

فوری ضرورت کا احساس کرتے ہوئے، چین اور روس نے 24 مئی کو، یوکرین پر کریملن کے حملے کے بعد سے اپنی پہلی مشترکہ فوجی مشق کا انعقاد کیا، جس میں شمال مشرقی ایشیا کے سمندروں پر بمبار طیارے بھیجے گئے جہاں غیر ملکیوں راہنماؤں کی ایک اہم ملاقات ہو رہی تھی۔

'بہترین دفاع جارحیت ہے'

روس کے حملے سے بہت پہلے ہی، تائیوان میں چین کے حوالے سے بے چینی پھیل رہی تھی۔

ان ورکشاپس کا اہتمام کرنے والی کمپنی کے سی ای او میکس چیانگ کا کہنا ہے کہ 2020 کے بعد سے تائیوان کے شہریوں میں "بحران کا شدید احساس" پیدا ہوا ہے، جب چینی جنگی طیاروں نے جزیرے کے فضائی دفاعی شناختی زون (اے ڈی آئی زیڈ) میں باقاعدگی سے دراندازی کرنا شروع کر دی تھی۔

اُس سال تقریباً 380 اڑانیں ریکارڈ کی گئیں- یہ ایسی تعداد ہے جو 2021 میں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی، اور لگتا ہے کہ اس سال بھی ایسا ہی ہونے کا امکان ہے۔

تائیوان کی وزارت دفاع کے مطابق، چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے 2022 کے پہلے چھ ماہ میں تائیوان کے اے ڈی آئی زیڈ میں 555 پروازیں کیں، جن میں سے 398 میں جنگی طیارے استعمال ہوئے تھے۔

لیکن دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ بڑھتی ہوئی دراندازی، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پی ایل اے ممکنہ تنازعہ کی تیاریوں کے حصے کے طور پر، طویل فاصلے تک فضائی حدود کو کنٹرول کرنے کی اپنی صلاحیت تیار کر رہی ہے۔ یہ خبر ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے 10 جولائی کو دی تھی۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق، چین جامع طور پر فوجی لحاظ سے تائیوان کی تعداد سے زیادہ ہے، تائیوان کے 88,000 فوجیوں کے مقابلے میں ایک ملین سے زیادہ زمینی فورس کے اہلکار، 6,300 ٹینکوں کے مقابلے میں 800 ٹینک اور 1,600 لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں تعداد 400 ہے۔

لیکن یوکرین نے ایک عملی خاکہ فراہم کیا ہے کہ اس فرق کی اہمیت کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔

اس نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ شہروں پر کنٹرول کے لیے لڑنا کس طرح حملہ آور قوتوں کے لیے مشکل اور مہنگا ہو سکتا ہے -- اور تائیوان کے 23 ملین افراد میں سے زیادہ تر شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔

جب کہ یہ اور اس کے 15 ساتھی ساتھی پارکنگ لاٹ میں دوڑ رہے ہیں، خستہ حال عمارتوں اور گاڑیوں کے پیچھے جھک کر دشمن کے ٹھکانوں پر حملوں کی نقل کرتے ہوئے، وہ یوکرین کے تباہ حال شہروں میں سیکھے گئے کچھ اسباق کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "بہترین دفاع جارحیت ہے" جبکہ روشن عکاس واسکٹ میں ملبوس استاد قریب ہی کھڑے نوٹس لے رہے ہیں۔

"دو ٹوک الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کو نیست و نابود کرنا اور دشمن کی کسی بھی پیش قدمی کو روکنا۔"

'اگلی باری تائیوان کی ہے'

پارکنگ کے قریب ایک گودام میں، 34 سالہ روتھ لام پہلی بار ہینڈ گن چلانا سیکھ رہی ہے۔

ایمرجنسی کی گاڑیوں کی لائٹس بنانے والی کمپنی میں کام کرنے والی لام نے کہا کہ اس کے بیشتر یورپی گاہکوں نے اسے بتایا تھا کہ یوکرین میں جنگ نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ "مگر ایسا ہوا"۔

اسے امید ہے کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو بندوق کو استعمال کرنے کا طریقہ جاننا اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کر سکتا ہے اور وہ دوستوں کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے کی مشق جاری رکھنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بارش ہونے سے پہلے اپنی چھتری تیار کر لیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ چیزیں کب ہونے والی ہیں۔"

مئی میں کیے گئے ایک سروے میں، 61.4 فیصد جواب دہندگان نے کہا تھا کہ حملے کی صورت میں وہ ہتھیار اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

تائیوان کے تھنک ٹینک نیکسٹ جین فاؤنڈیشن کے سی ای او چن کوان ٹنگ نے کہا کہ "جارحیت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے یوکرین کے عوام کے عزم نے، تائیوان کے شہریوں کے اپنے وطن کی حفاظت کے عزم میں اضافہ کیا ہے۔"

38 سالہ لن پنگ یو، ایک سابق چھاتہ بردار جو شہری جنگی طریقوں کی کلاس میں "اپنی جنگی صلاحیتوں کو چمکانے" کے لیے آیا تھا، نے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ "جب کسی ملک کے شہریوں میں اپنی سرزمین کی حفاظت کا پختہ ارادہ اور عزم ہو تو صرف اسی وقت ہی وہ بین الاقوامی برادری کو اپنی مدد کے لیے آنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔"

یہ کا خیال ہے کہ سوال یہ نہیں کہ آیا انہیں اپنی نئی مہارتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلایا جائے گا بلکہ یہ ہے کہ کب ایسا ہو گا۔

ہانگ کانگ کی مثال دیتے ہوئے، جہاں بیجنگ گزشتہ چند سالوں میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے، انہوں نے سادگی سے کہا: "اگلی باری تائیوان کی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500