معیشت

علاقائی معیشتیں ایران کے مصنوعات کو کم قیمت پر بیچنے کے اثرات محسوس کر رہی ہیں

از نبیل عبداللہ التمیمی اور فارس العمران

12 جولائی 2015 کو صنعا کے ایک بازار میں ایک یمنی دکاندار مغزیات اور کشمش فروخت کرتے ہوئے۔

12 جولائی 2015 کو صنعا کے ایک بازار میں ایک یمنی دکاندار مغزیات اور کشمش فروخت کرتے ہوئے۔

ایرانی مصنوعات اور پیداوار پورے خطے میں دکانوں اور سپر مارکیٹوں کی شیلفیں بھر رہی ہیں، منڈی کی سیرابی مقامی اشیا کو باہر نکال رہی ہے اور ان کو پیدا کرنے والوں کے لیے معاشی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

یہ خاص طور پر شام، عراق اور یمن جیسے ممالک کے معاملے میں سچ ہے، جہاں مقامی اقتصادی ماہرین کے مطابق، ایران اپنی سیاسی اور اقتصادی رسائی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شام میں، تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اس کی پراکسیوں کے شکاری اقدامات کے شام کی معیشت کے لیے نقصان دہ نتائج ہوں گے۔

شامی ماہرِ معاشیات اور دمشق یونیورسٹی کے لیکچرار محمود مصطفیٰ کے مطابق، ایران شامی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے ذریعے شام کی معیشت کے تمام شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

2 اپریل 2018 کو ایک عراقی خاتون کسان دیوانیہ میں گرین ہاؤس کے باہر کٹے ہوئے ٹماٹروں کو ٹوکریوں میں ڈالتے ہوئے۔ [حیدر ہمدانی/اے ایف پی]

2 اپریل 2018 کو ایک عراقی خاتون کسان دیوانیہ میں گرین ہاؤس کے باہر کٹے ہوئے ٹماٹروں کو ٹوکریوں میں ڈالتے ہوئے۔ [حیدر ہمدانی/اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ ان میں سے بہت سے معاہدے یکطرفہ ہیں، جس کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو ہو گا۔ مثال کے طور پر شام میں ایرانی منڈیاں قائم ہو چکی ہیں اور ایران نے شام کے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں پر نمایاں کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

فارس النجار نے المشارق کو بتایا کہ اسی طرح، "یمن ایرانی مصنوعات کے لیے ایک کھلی منڈی بن گیا ہے"۔

النجار نے کہا، "یہ اُن ملکی مصنوعات اور دیگر درآمدی مصنوعات کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے جو سرکاری بندرگاہوں کے ذریعے ملک میں داخل ہوتی ہیں اور معیارات اور تصریحات کے معائنے سے مشروط ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ایران سے سیب اور کیوی جیسے پھلوں اور کچھ اقسام کے بسکٹ اور کیک کی آمد نے مقامی پیداوار اور اشیاء کی طلب کو کم کر دیا ہے۔

یہ "اشیاء پیدا کرنے والوں کے لیے نقصانات اور پیداوار میں کمی کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں خاندانوں کی مدد کرنے والے کچھ مزدوروں کو ملازمت سے نکالا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مسئلہ بڑھ جاتا ہے"۔

یمنی کسانوں کا اثر محسوس کرنا

ماہرِ معاشیات عبدالعزیز ثابت نے کہا کہ ایران سے درآمد شدہ پیداوار کا "مقامی زرعی مصنوعات پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔"

انہوں نے توجہ دلائی کہ یمنی وزارت زراعت نے کشمش اور گری دار میوے کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے، بشمول ایران سے، "کیونکہ وہ اسی طرح کی یمنی مصنوعات پر منفی اثر ڈالتے ہیں"۔

انہوں نے کہا، "درآمدات سستی ہیں اور ان کا معیار ناقص ہے، اور یمنی صارفین سب سے کم قیمت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کی قوتِ خرید مسلسل کم ہو رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس چیز نے یمنی کسانوں کو نقصان پہنچایا ہے، یہ نشاندہی کرتے ہوئے کہ ایرانی کشمش کی آمد نے "50 سے 70 فیصد کے درمیان کسانوں کو نقصان پہنچایا ہے"۔

چونکہ یمنی لوگ جنگ، سرکاری تنخواہوں کی معطلی اور کام رکنے کے دوران گزارہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، "اس کی کم قیمت کی وجہ سے ایرانی کشمش کی طلب پیدا ہوئی، حالانکہ وہ بہت گھٹیا معیار کی ہے"۔

انہوں نے کہا، "ان حالات میں یمنی لوگ معیار کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ان اشیاء کی خریداری کی فکر کرتے ہیں، خصوصاً تہواروں کے مواقع پر"۔

صنعا میں حوثیوں کے زیرِ تسلط وزارتِ زراعت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یمنی انگوروں کی کاشت کا رقبہ کم ہو کر 1,869 ہیکٹر رہ گیا ہے جو سنہ 2013 میں 13,000 ہیکٹر تھا۔

ثابت نے کہا کہ یہ ان مشکل حالات میں یمنی مصنوعات کو غیر منصفانہ مقابلے کے تابع کرنے کا نتیجہ ہے جس کا صارفین کو سامنا ہے۔

انہوں نے کہا، "جو انگور اور کشمش پر لاگو ہوتا ہے، وہ دیگر ایرانی مصنوعات پر بھی لاگو ہوتا ہے جنہوں نے یمنی مارکیٹوں پر حملہ کیا، جیسے کھانا پکانے کا تیل اور گاڑیوں کا موبل آئل، جو کہ سستی قیمتوں کی وجہ سے مقامی مصنوعات کو متاثر کرتے ہیں۔"

ثابت نے کہا کہ ان میں سے کچھ مصنوعات "انسانی صحت اور ماحولیات پر ان کے گھٹیا معیار کی وجہ سے منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔"

پچھلے سال کے آخر میں، متعدد ممالک نے کھادوں اور پھپھوندی کے ذرات اور قرنطینہ کے ناکافی وقت کا حوالہ دیتے ہوئے درآمدی ایرانی پیداوار کو مسترد کر دیا تھا۔

بھارت، روس، ازبکستان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، عمان اور ترکمانستان سبھی نے ایران سے پھلوں اور سبزیوں، بشمول کیوی، کالی مرچ اور آلو کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی۔

عراقی معیشت کو شدید نقصان

دریں اثنا، پنیر، کریم، دودھ اور دہی جیسی ایرانی ڈیری مصنوعات عراقی منڈی پر حملہ آور ہو رہی ہیں، عراقی ڈیری مصنوعات سے کم قیمت پر پرچون میں فروخت ہو رہی ہیں۔

ایرانی ٹماٹر اور ٹماٹر کے پیسٹ کی بڑی مقدار میں آمد کا بھی ٹماٹر کے عراقی کاشتکاروں پر بُرا اثر پڑا ہے، جنہوں نے احتجاجاً فصل تلف کر دی، جس سے عراقی حکومت نے ان درآمدات پر پابندی عائد کر دی۔

ماہر معاشیات سلام سمیسم نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسی اقتصادی پالیسی اپنائے جو درآمدات کے مقابلے میں ملکی پیداوار کو ترجیح دے۔

انہوں نے المشارق کو بتایا، "عراقی منڈی اس وقت ایران اور دیگر ممالک سے درآمد شدہ اشیاء اور مصنوعات سے بھری پڑی ہے۔"

انہوں نے کہا، "مؤثر کنٹرول یا نگرانی کے طریقۂ کار کے بغیر جاری مصنوعات کی کم قیمت پر فروخت، نے قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، کیونکہ بہت سے کارخانوں اور کاروباری اداروں نے کام مکمل طور پر روک دیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "حتیٰ کہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی چند اشیاء کے بھی درآمدات سے سخت مسابقت کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈھیر لگ رہے ہیں جن کا کوئی خریدار نہیں ہے۔"

سمیسم نے کہا، "درآمدات کے لیے دروازے چوپٹ کھولنے کا مطلب بنیادی طور پر ملک میں زرعی اور صنعتی پیداوار میں رکاوٹ، اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری میں اضافہ اور ریاست کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "دریں اثنا، جن ممالک سے یہ سامان درآمد کیا جاتا ہے ان کی معیشتوں کو نئی زندگی دی جاتی ہے۔"

عراقی سامان کی حفاظت کے لیے اقدامات

سمیسم نے یاد دلایا کہ دو برس قبل عراقی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی ڈالر کے مقابلے دینار کی سرکاری شرح مبادلہ کو کم کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا، "بقیہ ملکی مصنوعات منڈی میں ایرانی، چینی اور ترکی کی اشیاء کے مقابلے میں زندہ رہنے کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ عراقی سامان کی حفاظت کے لیے، "حکومت کو سوچی سمجھی اور حقیقت پسندانہ بصیرت اور منصوبہ بندی پر مبنی اقتصادی پالیسی نافذ کرنی چاہیے، نہ کہ ردِعمل میں یا عارضی اقدامات کرنے چاہیئیں"۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، یہ ضروری ہے کہ پہلے صنعتی اداروں کو مناسب اعانت اور سرمایہ فراہم کی جائے تاکہ پیداواری لائنیں دوبارہ کام کر سکیں اور انہیں منڈی کی ضروریات کی بنیاد پر تیار کیا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے اور مقامی صنعت کو رعایتی نرخوں پر خام مال اور چلانے کا سامان خریدنے کے قابل ہو کر پیداواری ترقی کی کوششوں میں حصہ لینے کے لیے مراعات دی جانی چاہیئیں۔

کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو مالی مدد کی فراہمی کے ذریعے زرعی شعبے اور خوراک کی صنعتوں کو زندہ کیا جا سکتا ہے، تاکہ ان کی بیج، کھاد، چارے اور پیداواری مشینری کی ضروریات پوری ہو سکیں۔

انہوں نے کہا، "ملکی پیداوار کو بحال کرنے کے منصوبے کے لیے مقامی مصنوعات کو نقصان دہ تجارتی طریقوں اور بدعنوان سرگرمیوں سے بچانے کے لیے اقدامات اور قانون سازی کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان کی منڈی میں تشہیر اور فروخت پر توجہ دی جائے۔"

انہوں نے کہا کہ اس میں درآمد شدہ مصنوعات پر ملکی مصنوعات کو فروغ دینے کی آن لائن کوششیں شامل ہیں، "مقامی مصنوعات کو حاصل اخلاقی حمایت کو اجاگر کرنا ملکی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500