میڈیا

پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے چین کو بہت سے آن لائن پلیٹ فارمز کے ساتھ ہیراپھیری کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے

پاکستان فارورڈ

محققین کے مطابق، چین دنیا بھر میں پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کر رہا ہے۔ [پیکسلز]

محققین کے مطابق، چین دنیا بھر میں پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کر رہا ہے۔ [پیکسلز]

بیجنگ سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی ایک فوج کو استعمال کر رہا ہے اور چین کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے، خاص طور پر سنکیانگ کے علاقے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کی صورتحال، کے لیے سرچ انجن کے نتائج کا استحصال کر رہا ہے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے 6 جولائی کو خبر دی کہ چین جمہوری اداروں کو کمزور کرنے اور دنیا بھر کے سامعین تک پروپیگنڈہ پہنچانے کے مقصد سے بیانیہ پھیلانے کے لیے -- گوگل، بنگ، یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر سمیت آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہا ہے۔

بروکنگز نے، جمہوریت کے تحفظ کے لیے جرمن مارشل فنڈ کے اتحاد کے ساتھ تعاون سے، مئی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "جغرافیائی اہمیت کے متعدد موضوعات پر، بیجنگ نے ریاستی حمایت یافتہ ذرائع ابلاغ کو پھیلانے کے لیے سرچ انجن کے نتائج کا فائدہ اٹھایا ہے جو چینی کمیونسٹ پارٹی [سی سی پی] کے پروپیگنڈے کو بڑھاتے ہیں۔"

اس میں کہا گیا کہ سنکیانگ کے بارے میں معلومات کے لیے سرچ انجنوں کا رخ کرنے والے انٹرنیٹ صارفین کو "حیرت انگیز طور پر چینی سرکاری ذرائع ابلاغ کی طرف سے ان موضوعات پر شائع ہونے والے مضامین کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔

ترکی کے شہر استنبول میں، 22 فروری 2021 کو چینی قونصل خانے کے باہر، ایغور اپنے رشتہ داروں کی خبر جاننے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

ترکی کے شہر استنبول میں، 22 فروری 2021 کو چینی قونصل خانے کے باہر، ایغور اپنے رشتہ داروں کی خبر جاننے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [اوزان کوس/اے ایف پی]

بیجنگ پر الزام ہے کہ اس نے ایک ملین سے زیادہ ایغوروں اور ترک زبان بولنے والے دیگر افراد، جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے، کو برسوں سے جاری رہنے والے کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر دور مغربی علاقے میں حراست میں رکھا ہے جسے امریکہ، دیگر حکومتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے "نسل کشی" کا نام دیا ہے۔"

مئی میں سنکیانگ کے حراستی مراکز پر جاری کی گئی نئی فائلیں، حقوق کی خلاف ورزیوں کے مزید ثبوت فراہم کرتی ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر قید، تشدد، منظم عصمت دری، جبری نس بندی اور جبری مشقت کے استعمال کے پرتشدد طریقے شامل ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 24 مئی کو بتایا کہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ میں ممکنہ طور پر اعلیٰ ترین سطح پر بدسلوکی کی منظوری دی گئی تھی۔

انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ"یہ تصور کرنا بہت مشکل ہو گا کہ دبانے، حراست میں لینے اور نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی مہم کو چلانے کی منظم کوششوں کو پی آر سی حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں کی آشرباد حاصل نہیں ہو گی -- اس کی منظوری حاصل نہیں ہو گی۔

چینی حکومت کسی بھی قسم کی زیادتیوں کی تردید کرتی ہے اور کیمپوں کو "پیشہ ورانہ تربیتی مراکز" کے طور پر بیان کرتی ہے جو اسلامی بنیاد پرستی کی رغبت کو روکنے کے لیے ہنر سکھاتے ہیں۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرچ انجن کے نتائج میں، چینی سرکاری ذرائع ابلاغ کو لگانا، بیجنگ کی طرف سے، سنکیانگ کی صورتحال کے بارے میں بیرونی تاثرات کو اپنی مرضی سے شکل دینے کی کوشش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

نومبر 2021 اور فروری 2022 کے درمیان، چار ماہ کے عرصے میں، بروکنگز اور الائنس فار سیکیورنگ ڈیموکریسی نے سنکیانگ سے منسلک اصلاحات کے لیے سرچ انجن کے نتائج کا ریکارڈ رکھا۔

اسے پتہ چلا کہ "گوگل نیوز اور بنگ نیوز کے سرفہرست نتائج میں سے 21.5 فیصد نے چینی ریاست کے حمایت یافتہ ذرائع ابلاغ کو لائے اور یوٹیوب پر ایک چوتھائی سرفہرست نتائج ریاست کے حمایت یافتہ اکاؤنٹس کے تھے"۔

"ویب پر تلاش میں، 6.5 فیصد سرفہرست نتائج میں ریاستی ذرائع ابلاغ شامل تھے۔"

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنکیانگ کی صورتحال کے بارے میں خود کو آگاہ کرنے کے خواہاں صارفین کو چینی سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلائے گئے پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والے

بیجنگ مختلف سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والوں کے ذریعے، چین کے بارے میں غیر ملکیوں کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔

ایسے ہی ایک یوٹیوب چینل پر، برطانوی باپ اور بیٹے کی جوڑی، لی اور اولی بیرٹ چین میں زندگی کی ایک پرجوش اور دلچسپ تصویر پیش کرتے ہیں -- اور سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان کے بارے میں چین کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے آمرانہ حکومت پر کی جانے والی تنقید کا بھی جواب دیتے ہیں۔

ایک ویڈیو میں، جسے 277,000 سے زیادہ بار دیکھا گیا، لی بیریٹ نے کہا کہ سنکیانگ کے حوالے سے "جبری مشقت" اور "نسل کشی" جیسی اصطلاحات، لوگوں کے جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "پورے کا پورا مغرب، چین کے عروج کو روکنے کے لیے سنکیانگ کے علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی امید کر رہا ہے۔"

یوٹیوب کی ایک اور شخصیت، سائرس جانسن، جو امریکہ اور جرمنی کی دوہری شہریت رکھتے ہیں اور اس وقت چین میں مقیم ہیں، اسی طرح کا مواد پوسٹ کرتے ہیں۔

انہوں نے ایک ویڈیو، جسے 440,000 سے زیادہ بار دیکھا گیا ہے، میں کہا کہ "مغرب میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چین اتنا کامیاب ہو جائے گا۔ اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ ہمیشہ چین پر حملہ کرتے ہیں۔"

بیسٹ چائنا انفو یوٹیوب چینل کے بیری وی نے کہا کہ "وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نسل کشی ہے۔ ایک نسل کشی۔ نسل کشی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ظلم کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس سب کو کئی بار رد کیا گیا ہے۔"

انگریزی میں بات کرنے والے کاکیشیائی مردوں کی ویڈیوز ان کہانیوں کو صداقت فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں جنہیں وہ گھما پھرا کر پیش کر رہے ہیں۔

دی نیویارک ٹائمز نے 13 دسمبر کو خبر دی تھی کہ "مگر کیمرے کے دوسری طرف، اکثر حکومتی منتظمین، ریاست کے زیر کنٹرول نیوز میڈیا اور دیگر سرکاری افزوں گروں کی ایک بڑی مشینری کھڑی ہوتی ہے -- یہ تمام چینی حکومت کی طرف سے، بیجنگ کے حامی پیغامات کو کرہ ارض پر پھیلانے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔"

یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ویڈیوز میں کیا پیش کیا جاتا ہے اور ان کا مقصد چین کے بارے میں مغرب کے بڑھتے ہوئے منفی تاثرات کا مقابلہ کرنا ہے۔

لیکن، اگر وہ اپنے آپ کو پروپیگنڈے کے ہتھیار کے طور پر نہیں بھی دیکھتے ہیں، بیجنگ کے "بھیڑیا جنگجو" سفارت کاروں کا گروہ، انہیں اسی طرح استعمال کر رہا ہے۔ چینی سفارت کاروں، سفارتخانے کے عملے اور دیگر حکام نے یہ ویڈیوز نیوز کانفرنسوں میں دکھائی اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کو پھیلایا ہے۔

نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ چینی حکام، یوٹیوب اور ٹویٹر کو "وسیع تر دنیا کے لیے پروپیگنڈا کے میگا فونز" کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جن دونوں پر چین کے اندر معلومات کے بے قابو پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔

چینی سوشل میڈیا کے لیے مواد کے سابقہ ثالث طور پر کام کرنے والے، ایرک لیو نے کہا کہ "چین عالمی سوشل میڈیا میں آنے والا ایک نیا انتہائی بڑا استحصال کنندہ ہے۔ اس کا مقصد جیتنا نہیں ہے بلکہ اس وقت تک افراتفری اور شکوک و شبہات پھیلانا ہے جب تک اصلی سچ ختم نہ ہو جائے۔"

پروپیگنڈے کو ختم کرنے کی کوشش

آسٹریلیاء کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) نے 10 دسمبر کو کہا کہ سی سی پی کی طرف سے، اثر و رسوخ والے غیر ملکی افراد کا استعمال، عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ان کی طرف سے ریاست سے وابستہ اکاؤنٹس کی شناخت اور ان پر لیبل لگانے کی کوششوں کے لیے ایک بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔

اے ایس پی آئی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والے غیر ملکی افراد کی طرف سے سنکیانگ کے بارے میں بنائے جانے والے مواد کو "خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تنقیدی رپورٹنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے، چینی ریاست کی جانب سے وسیع تر عالمی پروپیگنڈے کے حصے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کے لیے اسے اکثر امریکہ میں قائم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلایا جاتا ہے"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ "جنوری 2020 اور اگست 2021 کے درمیان، امریکہ میں قائم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، چینی ریاست کے زیر کنٹرول 156 اکاؤنٹس نے، کم از کم 546 فیس بک پوسٹس، ٹویٹر پوسٹس شائع کیں اور سی جی ٹی این، گلوبل ٹائمز، ژنہوا یا چائنا ڈیلی ویب سائٹس سے شیئر کیے گئے مضامین شائع کیے جنہوں نے 13 صاحبِ اثر اکاؤنٹس سے، سنکیانگ سے متعلقہ سوشل میڈیا کے مواد کو پھیلایا۔

اس نے مزید کہا کہ "سوشل میڈیا کے غیر ملکی صاحبانِ اثر کو دکھانے والی ویڈیوز، اکثر ترجیحی مواد ہوتی ہیں جسے چینی ریاستی ادارے دوبارہ باندھتے ہیں اور آن لائن پھیلا دیتے ہیں۔"

یہ خیال کہ غیر ملکیوں کی طرف سے بنایا جانے والا پروپیگنڈا خاص طور پر طاقتور ہو سکتا ہے، چینی حکومت کی ایک دیرینہ حکمت عملی ہے۔

چائنا ڈیلی کے اُس وقت کے مدیرِ اعلی ژو لنگ نے 2016 میں ایک تقریر میں کہا تھا کہ "ہم نے ہمیشہ 'بولنے کے لیے منہ ادھار لینے' کو بہت اہمیت دی ہے اور غیر ملکی پروپیگنڈہ کرنے کے لیے بین الاقوامی دوستوں کا استعمال کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ موثر ہونے کے لیے، چین کے پروپیگنڈے کو "ہم کیا بتانا چاہتے ہیں" کو اس چیز کے ساتھ ملانا چاہیے جو غیر ملکی سامعین "سننا چاہتے ہیں"۔

سوشل میڈیا کمپنیوں نے اس محاذ پر بیجنگ کی کوششوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔

گوگل کے تھریٹ اینالیسس گروپ (ٹیگ) نے چینی پروپیگنڈا پھیلانے والے سینکڑوں یوٹیوب چینلز کو ختم کرنے کی اطلاع دی۔

جنوری میں ادارے نے 4,361 یوٹیوب چینلز کو چین سے تعلق رکھنے والی مربوط اثر و رسوخ کی مہمات کی جاری تحقیقات، کے حصے کے طور پر ختم کیا، فروری میں اس نے 6,103 یوٹیوب چینلز کو ختم کیا اور مارچ میں اس نے 7,304 یوٹیوب چینلز کو ختم کیا۔

اپریل اور مئی میں گوگل نے مختلف موضوعات پر غلط معلومات پھیلانے والے کل 5,616 یوٹیوب چینلز کو ختم کیا۔

گزشتہ دسمبر میں، ٹویٹر نے تقریباً 3,500 اکاؤنٹس بند کر دیے جو حکومت کا حامی پروپیگنڈا پوسٹ کر رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر اس نیٹ ورک کا حصہ تھے جس نے سنکیانگ میں مسلمانوں پر ہونے والے جبر سے متعلق چینی بیانیے کو بڑھاوا دیا تھا۔

تقریبا اسی وقت، فیس بک نے 500 سے زائد اکاؤنٹس کو ہٹا دیا جب انہوں نے ایک جعلی سائنسدان کی پوسٹس کو پھیلایا جس کا حوالہ چینی سرکاری ذرائع ابلاغ نے دیا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500