معاشرہ

غربت نے 70 افغان جوڑوں کو اجتماعی شادی پر مجبور کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

کابل میں 13 جون کو ایک اجتماعی شادی، جس میں سینکڑوں مہمانوں نے شرکت کی، میں درجنوں افغان خواتین جو موٹی سبز شالوں میں چھپی ہوئی تھیں، کی شادی کی گئی۔ انتہائی غریب افغانستان میں شادی ایک مہنگا معاملہ ہے، جس میں روایتی طور پر بھاری جہیز، مہنگے تحائف اور شاندار تقریبات شامل ہیں۔ [عارف کریمی/اے ایف پی ٹی وی/ اے ایف پی]

کابل -- سوموار (13 جون) کو کابل میں ایک اجتماعی شادی میں، جس میں سینکڑوں مہمانوں نے شرکت کی، درجنوں افغان خواتین جو کہ موٹی سبز شالوں میں چھپی ہوئی تھیں، کی شادی کی گئی۔

انتہائی غریب افغانستان میں شادی ایک مہنگا معاملہ ہے، جس میں روایتی طور پر بھاری جہیز، مہنگے تحائف اور شاندار تقریبات شامل ہوتی ہیں۔

تاریخی طور پر، ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے جوڑے جو اخراجات نہیں اٹھا سکتے، بعض اوقات وسائل جمع کر کے، کم لاگت والی اجتماعی شادیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔

سوموار کی تقریب، جس میں 70 جوڑوں کو شادی کے بندھن میں باندھا گیا، ایسے افغانستان میں حال ہی میں منعقد کی جانے والی سب سے بڑی تقریب تھی، جو اس وقت معاشی طور پر بے حال ہے۔

کابل میں 13 جون کو، اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد ایک افغان جوڑا شادی ہال کے باہر چہل قدمی کر رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو، اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد ایک افغان جوڑا شادی ہال کے باہر چہل قدمی کر رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

دلہنیں، 13 جون کو کابل میں ایک شادی ہال کے اندر کھڑی، اجتماعی شادی کی تقریب کے آغاز کا انتظار کر رہی ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

دلہنیں، 13 جون کو کابل میں ایک شادی ہال کے اندر کھڑی، اجتماعی شادی کی تقریب کے آغاز کا انتظار کر رہی ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو، اجتماعی شادی کی تقریب شروع ہونے کا انتظار کرتے ہوئے دولہے، ایک شادی ہال کے اندر بیٹھے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو، اجتماعی شادی کی تقریب شروع ہونے کا انتظار کرتے ہوئے دولہے، ایک شادی ہال کے اندر بیٹھے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران، وہیل چیئر پر ایک دولہا شادی ہال کے اندر آ رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران، وہیل چیئر پر ایک دولہا شادی ہال کے اندر آ رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو اجتماعی شادی کی تقریب کے لیے ایک دلہن (بائیں) کار میں شادی ہال پہنچ رہی ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو اجتماعی شادی کی تقریب کے لیے ایک دلہن (بائیں) کار میں شادی ہال پہنچ رہی ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

ایک افغان جوڑا 13 جون کو کابل میں اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد شادی ہال سے نکل رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

ایک افغان جوڑا 13 جون کو کابل میں اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد شادی ہال سے نکل رہا ہے۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

افغان جوڑوں کو لے جانے والی سجی ہوئی کاریں، 13 جون کو کابل میں اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد، شادی ہال سے نکل رہی ہیں۔ [سہیل ارمان /اے ایف پی]

افغان جوڑوں کو لے جانے والی سجی ہوئی کاریں، 13 جون کو کابل میں اجتماعی شادی کی تقریب کے بعد، شادی ہال سے نکل رہی ہیں۔ [سہیل ارمان /اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو اجتماعی شادی کی تقریب شروع ہونے کا انتظار کرتے ہوئے دولہے ایک شادی ہال کے اندر بیٹھے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو اجتماعی شادی کی تقریب شروع ہونے کا انتظار کرتے ہوئے دولہے ایک شادی ہال کے اندر بیٹھے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران، دولہے ایک شادی ہال کے باہر تحائف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

کابل میں 13 جون کو ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران، دولہے ایک شادی ہال کے باہر تحائف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ [سہیل ارمان/اے ایف پی]

ورلڈ بینک کے طرف سے 15 مارچ کو جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق، بیروزگاری، خاص طور پر نوجوانوں میں، گزشتہ اگست سے بڑھی ہے، جب کہ دو تہائی سے زیادہ کارکنوں کی اجرتیں "ڈرامائی طور پر" گر گئی ہیں۔

اکتوبر اور دسمبر 2021 کے درمیان تقریباً 5,000 افغان گھرانوں کا سروے ٹیلی فون کے ذریعے کیا گیا۔

سروے میں شامل ستر فیصد گھرانوں نے کہا کہ وہ کھانے کی بنیادی چیزوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی خریدنے سے قاصر ہیں، یہ تعداد مئی 2021 میں کیے گئے سروے سے دوگنی ہے۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ (یو این) اور دیگر عالمی امدادی اداروں کے مطابق، افغانستان کے 38 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔

خوشی کی کرن

بڑھتی ہوئی غربت اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی صورتحال کے ساتھ، پیر کی اجتماعی شادی نے منگنی شدہ افراد کو خوشی کی ایک کرن دکھائی ہے۔

دولہا عباد اللہ نیازئی، جنہوں نے شادی کے لیے آٹھ سال انتظار کیا تھا، کہا کہ "آج کوئی نوجوان مہنگی شادی کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان کی صورتحال سب پر عیاں ہے۔ تقریباً 98 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان اخراجات کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے۔"

اقلیتی شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ دولہا عصمت اللہ بشردوست نے کہا کہ "میرے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسوں کی کمی تھی اور اس لیے ہم نے اجتماعی شادی کی تقریب میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔"

روایتی افغان ٹوپی پہنے ہوئے بشردوست نے کہا کہ ان کی شادی ممکنہ طور پر ان کی زندگی کا "خوش ترین دن" ہو گی۔

تاہم، سماجی زندگی پر سخت پابندیوں کی وجہ سے تقریبات ڈرامائی طور پر ماند پڑ گئی ہیں۔

افغانستان میں شادیاں ہنگامہ خیز رنگا رنگ تقریبات ہوتی تھیں جن میں گانا، ناچنا اور کچھ حد تک مردوں اور عورتوں کے درمیان گھل مل جانا بھی ہوتا تھا۔

سخت علیحدگی

پیر کے روز دولہوں اور دلہنوں کو پوری تقریب کے دوران الگ الگ رکھا گیا تھا۔

مخالف جنس کے مہمانوں کو، تقریباً ایک درجن ایسے سیکورٹی اہلکاروں نے جو ہتھیاروں کے ساتھ گشت کر رہے تھے، الگ کر دیا تھا اور تقریب کے خیراتی منتظمین کی طرف سے شاعری پڑھنا اور تقاریر ہی واحد تفریح تھی۔

صحافیوں کو دلہنوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، جنہوں نے اپنی اوڑھی ہوئی شالوں کے نیچے چمکتے سفید گاؤن پہن رکھے تھے، لیکن انہیں ان کی تصویر کشی اور فلم بنانے کی اجازت تھی۔

ہر جوڑے کے لیے ایک سرخ اور سفید شادی کا کیک تیار کیا گیا تھا لیکن اسے صرف مردوں کے سامنے رکھا گیا تھا، جو روایتی سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔

تقریب کے اختتام پر دولہے -- جن میں سے ہر ایک نے پلاسٹک کے نام کا بیج پہنا ہوا تھا -- اپنی دلہنوں کو لیا اور پھولوں اور ربنوں سے سجی کاروں میں بیٹھ کر پنڈال سے باہر نکل گئے۔

کابل کے شادی ہال میں ایک دن کی بکنگ کی قیمت 10,000 ڈالر اور 20,000 ڈالر کے درمیان ہے اور سیلاب ویلفیئر آرگنائزیشن کے منتظم سید احمد سیلاب نے کہا کہ کچھ شادی شدہ جوڑے اخراجات کی وجہ سے "سالوں سے انتظار کر رہے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "وہ برے رسم و رواج (عالیشان تقریبات، جہیز، مہمانوں کی بڑی تعداد)، زیادہ اخراجات اور سخت مطالبات کی وجہ سے شادی کی انفرادی تقریبات منعقد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔"

انہوں نے کہا کہ ان سب نے "سالوں سے پیسہ کمانے اور کچھ بچت کرنے کا انتظار کیا تاکہ وہ شادی کر سکیں۔ اسی لیے ہم نے اس اجتماعی شادی کا اہتمام کیا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500