سفارتکاری

جزائر پیسیفیک کے ممالک نے چین کے ”اچھے بھائی“ کی پیشکش کو مسترد کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

30 مئی کو سوا، فیجی میں فیجی کے وزیرِ اعظم فرینک بینیماراما (دائیں) کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے بعد چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی (درمیان) جا رہے ہیں۔ [لیون لورڈ/اے ایف پی]

30 مئی کو سوا، فیجی میں فیجی کے وزیرِ اعظم فرینک بینیماراما (دائیں) کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے بعد چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی (درمیان) جا رہے ہیں۔ [لیون لورڈ/اے ایف پی]

سووا فیجی – پیر (30 مئی) کو چین کی پیشکش کے ”بددیانتی پر مبنی“ ہونے کے خدشات کے ساتھ جنوبی بیسیفیک میں ایک وسیع پیمانے کے علاقائی سلامتی کے معاہدے کے لیے بیجنگ کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

فریقین کا کہنا ہے کہ اگر چین کے علاقۂ عملداری کے پانیوں میں چین کی کاروائیاں کوئی اعشاریہ ہیں، تو جنوبی بحرِ الکاہل کے ممالک کا محتاط ہونا دانشمندانہ ہے۔

جزائر بحرالکاہل کے 10 ممالک نے فیجی کے دارالحکومت سووا میں چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کے ساتھ مزاکرات کے دورانہیں بیجنگ کے مدار میں لانے کے لیے چین کی کوشش کو مسترد کر دیا۔

چین جنوبی بحرالکاہل میں اپنی سرگرمیوں کو تیزی سے بڑھانے کی پیشکش کرتے ہوئے اس تضویری طور پر اہم خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے رسوخ کو براہِ راست چیلنج کر رہا ہے۔

اس مجوزہ معاہدے کے تحت بیجنگ جزیرۂ بحرالکاہل کی پولیس کو تربیت دے گا، سائیبر سیکیورٹی میں ملوث ہو گا، سیاسی روابط بڑھائے گا، حساس بحری نقشہ سازی کرے گا، اور خشکی پر اور پانی میں قدرتی وسائل تک زیادہ رسائی حاصل کرے گا۔

راغب کرنے کے لیے بیجنگ کئی ملین ڈالر کی مالی معاونت دے رہا ہے، ممکنہ طور پر چین-جزیرۂ بحرالکاہل مفت تجارت کا معاہدہ اور 1.4 بلین افراد کی وسیع منڈی تک رسائی پیش کر رہا ہے۔

ہمسایوں کو دھمکانا

فیجی کے رہنماؤ سے ملاقات کے دن ہی چین نے تائیوان کے ائیر ڈیفنس آئیڈنٹیفیکیشن زون (اے ڈی آئی زیڈ) میں اس برس کی دوسرا بڑا حملہ کیا جس میں تائیبی نے خبر دی کہ 30 جیٹ علاقہ میں داخل ہوئے جن میں سے 20 لڑاکہ تھے۔

جمہوریہ تائیوان چین کے حملے کے مستقل خطرے میں رہتا ہے، جو اس جزیرہ کو اپنا علاقۂ عملداری سمجھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس پر بزورِ بازو قبضہ کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔

پیر کے روز کا حملہ 23 جنوری کے بعد سے سب سے بڑا تھا، جب 39 ہوائی جہاز اے ڈی آئی زیڈ میں داخل ہوئے۔

اے ایف پی کی ایک ڈیٹا بیس کے مطابق، گزشتہ برس تائیوان نے اپنی اے ڈی آئی زیڈ میں چینی جنگی جہازوں کے 969 حملے ریکارڈ کیے – جو 2020 میں ہونے والے تقریباً 380 حملوں سے دوگنا ہیں۔

2022 میں اب تک تائیوان نے 465 حملوں کی اطلاع دی ہے، جو کہ گزشتہ برس کے اسی عرصہ سے تقریباً 50 فیصد زیادہ ہیں۔

درایں اثناء، منگل کو منیلا نے انکشاف کیا کہ انہوں نے فلپائین کے عملداری کے پانیوں میں چینی کوسٹ گارڈ کے ایک بحری جہاز کی جانب سے بحری تحقیقی کشتی کو مبینہ طور پر دھمکائے جانے پر احتجاج کی غرض سے بیجنگ کے ایک اعلیٰ سفارتکار کو طلب کیا۔

یہ انکشاف اسی روز سامنے آیا جب منیلا نے کہا کہ اس نے متنازع جزیرہ سپراٹلے کے قریب اس کے مطابق، بیجنگ کے ”ساڑھے تین ماہ کی یک طرفہ ماہی گیری کی چھٹی کے نفاذ“ پر ایک جداگانہ سفارتی احتجاج جاری کیا۔

منیلا اور بیجنگ طویل عرصہ سے بحیرۂ جنوبی چین کے علاقوں پر ایک تنازع پر ہیں، جس کے تقریباً تمام علاقہ پر چین اپنے بلاشرکتِ غیرے حقوق حاصل ہونے پر مصر ہے، اور ہاگ کی جانب سے 2016 کے اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے کہ اس کے تاریخی دعوے بے بنیاد ہیں۔

'ایک اچھا بھائی'؟

پیر کی ملاقات سے قبل چین کے ریاستی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق، چینی صدر ژی جن پنگ نے ایک پیغام دیا کہ چین خطے کے لیے ”ایک اچھا بھائی“ ہو گا اور یہ کہ ان کی ”منزل مشترک“ ہے۔

لیکن بحرالکاہل کی ریاستوں اور دیگر متعلقہ اتحادیوں کی جانب سے بیجنگ کی اس پیش کش کی کچھ مزاحمت سامنے آئی۔

مغربی طاقتیں ان معاہدوں کے خلاف کھڑی ہوئی ہیں، جبکہ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پیسیفیک کو تنبیہ کی ہے کہ چین کے ساتھ ”خال شفافیت والے مبہم اور غیرواضح معاہدوں“ سے ہوشیار رہے۔

آسٹریلیا نے جنوبی بحرالکاہل کے ممالک کو خطے میں دور تک چین کی اپنی سیکیورٹی رسائی کو بڑھانے کے لیے کوششوں سے روکنے کی غرض سے امریکہ کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی ہے۔

ساتھی رہنماؤں کو ایک حالیہ خط میں فیڈیریٹڈ سٹیٹس ٱف میکرونیشیا کے صدر ڈیوڈ پانیولو نے تنبیہ کی کہ یہ پیشکش ”چالبازانہ“ تھی اور یہ ”حکومت“ اور کلیدی صنعتوں کے ”معاشی کنٹرول میں چین کے رسوخ کو یقینی بنائے گی“۔

ان مزاکرات کے بعد، جب قائدین نے کہا کہ وہ علاقائی استصوابِ رائے کے فقدان کی وجہ سے بیجنگ کے مجوزہ ”مشترکہ ترقی کے تصور“ پر اتفاق نہیں کر سکتے تو ایک نرم خو عوامی ملامت سامنے آئی۔

خطے پر وینگ کی 10 روزہ سفارتی یلغار کے دوران حمایت حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار کام کرتے ہوئے – چینی حکام نے تسلیم کیا کہ ان کی گزارشات ہدف تک نہ پہنچ سکیں۔

فیجی میں چین کے سفارتکار قائن بو نے سووا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ”دس ممالک سے عمومی حمایت تھی، لیکن چند مخصوص مسائل پر چند تحفظات ضرور تھے اور ہم نے اتفاق کیا ہے کہ ان دو دستاویزات پر بعد ازاں بات چیت ہو گی جب تک کہ ہم کسی معاہدے پر نہ پہنچ جائیں۔“

مکمل پیشکش عوامی نہیں بنائی گئی، تاہم پیر کی ملاقات سے قبل نکل کر اے ایف پی سمیت میڈیا تک پہنچ گئی۔

چین نے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتوں میں ان پیشکشوں کو عوام کے سامنے رکھتے ہوئے ایک ”پوزیشن پیپر“ جاری کرے گا۔

قرض کا پھندا

سووا سے بات کرتے ہوئے وانگ نے خود کو بچانے والا اعلان کیا کہ 10 ممالک نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو (بی آر آئی) سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر اتفاق کیا ہے۔

وانگ نے بیجنگ کے ارادوں سے فکرمند ہونے والوں کو ”زیادہ متفکر نہ ہونے اور زیادہ نہ گھبرانے“ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طرفین ”تعاون پرمزید اتفاقِ رائے تشکیل دینے کے لیے مسلسل اور گہرائی میں بات چیت اور مشاورت جاری رکھیں گے۔“

ژی نے چین کے معاشی اور سیاسی رسوخ کو پھیلانے کے لیے 2013 میں ٹرلین ڈالر بی آر آئی کا آغاز کیا، جبکہ بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبے عالمی طور پر اس کی مصنوعات کی ترسیل میں معاون دیکھے گئے ہیں۔

بی آر آئی پر ایک قریبی نگاہ سے قدرتی وسائل پر اجارہ داری اور عسکری عزائم کو چین سے میڈیٹرینیئن، بشمول مشرقِ وسطیٰ، وسط ایشیا اور افریقہ میں مقامات تک پھیلانے کے بیجنگ کے مقصد کا انکشاف ہوتا ہے۔

دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ بی آر آئی کا مقصد چینی مقاصد کے لیے غریب تر ممالک کے قدرتی وسائل کو نکالنا اور ان کی ترسیل شامل ہے.

چین اس وسیع سرمایہ کاری کے منصوبوں میں کسی بھی قسم کے پوشیدہ مقاصد کی تردید کرتا ہے، تاہم ناقدین دلیل دیتے ہیں کہ یہ اس سکیم سے حاصل ہونے والے مالی مفاد کو اپنی طاقت میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے، جسے وہ ” قرضوں کے پھندے کی سفارتکاری “ یعنی – قرض لینے والوں پر سخت شرائط عائد کرنا اور ایسے معاہدے لکھنا جن کی وجہ سے اسے مقروض ممالک کے مالی مسائل میں گھر جانے پر اس کے تضویری اثاثہ جات ضبط کرنے کی اجازت مل جائے— کہتے ہیں۔

مشاہدین نے چینی مالیات پر انحصار کرنے سے متعلق خطرے کی نشاندہی کی ہے، اور چینی سرمایہ کاری کی شرائط سے متعلق بڑھتی ہوئی بے چینی موجود ہے۔

جرمن چانسلر اولاف سکولز نے گزشتہ جمعہ کو تنبیہ کی کہ غریب ممالک میں چین کے کئی برسوں طویل شغل سے ایک ”شدید خدشہ“ لاحق ہے جو دنیا کو آئندہ مالی بحران میں گرا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ”ایک حقیقی سنجیدہ خطرہ یہ ہے کہ عالمی جنوب میں آئندہ بڑا قرض کا بحران ان قرضوں سے پیدا ہو گا جو چین نے دنیا بھر میں دے رکھے ہیں اور اس کا مکمل خلاصہ موجود نہیں کیوں کہ بہت زیادہ کھلاڑی اس میں شامل ہیں۔“

سکولز نے کہا، ”پھر اس سے چین اور عالمی جنوب ایک بڑے معاشی اور مالیاتی بحران میں دھنس جائیں گے اور اتفاقی طور پر، دیگر دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500