پناہ گزین

مسلمان علماء نے افغانیوں کے ساتھ ایران کے برتاؤ کو "غیر اسلامی، غیر انسانی" قرار دیا ہے

از عمر

افغانستان کے مذہبی علماء نے ایرانی حکومت کی طرف سے افغان مہاجرین کے ساتھ کیے جانے والے بُرے سلوک کی مذمت کی ہے اور تشدد اور مارپیٹ کی حالیہ خبروں کے بعد اسے غیر اسلامی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

ہرات، افغانستان -- مذہبی علماء نے ایرانی حکام کی طرف سے افغان مہاجرین کے ساتھ کیے جانے والے بُرے سلوک کی مذمت کی ہے اور تشدد اور مارپیٹ کے حالیہ واقعات کی خبروں کے بعد اسے غیر اسلامی اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔

ایرانی نے کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے مگر اگست کے بعد سے مہاجرین کی جو نئی لہر آئی ہے اس نے حکام اور عام شہریوں کی برداشت کا امتحان لیا ہے۔

حالیہ مہینوں میں سوشل میڈیا پر ایران میں افغان مہاجرین کی بھیانک تصاویر اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں خون میں لت پت نوجوان افغان شہریوں کو دکھایا گیا ہے جن پر خنجروں اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہرات میں اس وقت مظاہرے شروع ہو گئے جب ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ایرانی سرحدی محافظوں اور شہریوں کو، افغان شہریوں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا، حالانکہ یہ واضح نہیں تھا کہ یہ تصاویر کب اور کہاں فلمائی گئی تھیں۔

ہرات شہر میں ایک ایسے افغان جلا وطن کو، 19 اپریل کو اقوامِ متحدہ کے مہاجر کیمپ کے باہر دیکھا جا سکتا ہے، جسے ایرانی حکام نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

ہرات شہر میں ایک ایسے افغان جلا وطن کو، 19 اپریل کو اقوامِ متحدہ کے مہاجر کیمپ کے باہر دیکھا جا سکتا ہے، جسے ایرانی حکام نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

افغانستان کے مذہبی علماء کو کہنا ہے کہ ایرانی حکومت اسلامی اقدار کا احترام نہیں کرتی ہے اور بے گناہ افغان شہریوں پر تشدد کر کے اور انہیں ہلاک کر کے، اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

ہرات شہر سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی عالم، مولوی عبداللہ مولوی زادہ نے کہا کہ "اسلام اور پیغمبر [محمد] کے اقتباسات [حدیث] کے مطابق، ایران میں افغان مہاجرین کے ساتھ تشدد اور ان کے ساتھ بدسلوکی سختی سے منع ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر وہ سچے مسلمان ہوتے تو ایرانی فوج کبھی بھی افغان مہاجرین کو مارتی پیٹتی یا تشدد کا نشانہ بناتی"۔

مولوی زادہ نے کہا کہ اگر کسی مسلمان کو دوسرے مسلمان ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑے تو یہ اس ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں پناہ دیں"۔

ہرات شہر کے ایک اور مذہبی عالم مولوی غلام محمد محمدی نے کہا کہ اگرچہ ایرانی حکومت اپنے آپ کو اسلامی قرار دیتی ہے مگر افغان مہاجرین سے اس کا سلوک مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین کے خلاف ایرانیوں کا تشدد غیر انسانی اور شرعی قانون کی خلاف وزری ہے۔

نہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلام بھائی چارے اور ہمدردی کا مذہب ہے کہا کہ "ایران ان بے بس افغان مہاجرین کے ساتھ برا سلوک اور ان پر تشدد نہیں کر سکتا جو کام اور کھانے کی تلاش میں ان کے ملک جاتے ہیں

افغانستان کے مذہبی علماء کے مطابق، اسلامی نکتہ نظر سے، ایک مسلمان ہمسایہ کے بہت سے حقوق ہیں جن کا دوسرے مسلمان ہمسایے کو لازمی احترام کرنا چاہیے۔

ہرات سے تعلق رکھنے والے ایک اور مذہبی عالم قاری مخمد عارف نوری نے کہا کہ افغان مہاجرین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایران میں افغان مہاجرین کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی اور جبر اسلامی اقدار کی خلاف ورزی ہے اسلام ایسے رویے کو رد کرتا ہے"۔

نوری نے کہا کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ایک کو دوسرے سے بُرا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

ہرات کے ایک شہری صبغت اللہ اعظمی نے کہا کہ "ایران اپنے کسی بھی ہمسایے کا کبھی بھی اچھا دوست نہیں رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے ہمسائیوں کی تباہی سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی حکومت افغان مہاجرین کو --- انسان نہیں سمجھتی ہے"۔

عالمی عدالتوں کو قدم اٹھانا چاہیے

کچھ افغان تجزیہ کاروں اور وکلاء بین الاقوامی عدالتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایران میں افغان مہاجرین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی تفتیش کریں۔

ہرات شہر سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل محمد عارف آریافر نے کہا کہ ہجرت کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق، ایرانی حکومت افغان مہاجرین کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے ایران میں افغان مہاجرین کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی دیکھی ہے۔ مہاجرین مکمل طور پر بے بس ہیں اور ان کے پاس اپنا دفاع کرنے کا کوئی چارہ نہیں ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "کچھ چونکا دینے والی ایسی خبریں بھی موجود ہیں کہ ایرانی حکومت نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر بے گناہ افغان مہاجرین کو ہلاک کر دیتی ہے اور پھر ان کے اعضاء فروخت کر دیے جاتے ہیں"۔

آریافر نے کہا کہ ان تمام مشتبہ جرائم کی معتبر بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے تحقیقات کروائی جانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی میں افغان مہاجرین کے قتل اور تشدد میں ملوث ہر شخص کی شناخت کی جانی چاہیے اور اسے سزا دی جانی چاہیے۔ ایران میں افغان مہاجرین کو کئی دیہائیوں سے دبایا جا رہا ہے مگر ہم نے ان کے مجرموں کو کبھی بھی سزا پاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے"۔

غور کے ایک سیاسی تجزیہ کار محمد ظاہر اندیشمند نے کہا کہ ایران میں افغان مہاجرین کے ساتھ ظلم، ناروا سلوک اور قتل انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے جس کی جامع تحقیقات ہونی چاہیں۔

انہوں نے ایران کی صورتِ حال کے حوالے سے کہا کہ "کوئی بھی افغان مہاجرین کی شکایات کو نہیں دیکھتا ہے".

اندیشمند نے کہا کہ اقوام متحدہ کو ایران میں موجود افغان مہاجرین کے تشویش ناک حالات میں مداخلت کرنی چاہیے اور مستقبل میں ہونے والے ناروا سلوک اور جبر کو روکنا چاہیے۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ایرانی حکومت "کسی بھی تنظیم کو [گمشدگیوں] کی تحقیقات کرنے کی اجازت نہیں دیتی کہا کہ "ہم بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں جو ایران میں کئی سالوں سے لاپتہ ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500