معیشت

روس، ایران کو اچھوت کی حیثیت سے ایک اور نتیجے کا سامنا ہے: کوئی اسپیئر پارٹس نہیں

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

یکم اپریل کو روس کے شہر ٹولیٹی میں لاڈا کار ڈیلرشپ کی پارکنگ میں لاڈا آٹوموبائلز کے سامنے ایک کتا کھڑا ہے۔ روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے نتیجہ میں لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے، وہ اسپیئر پارٹس کی کمی کا شکار ہے۔ [یوری کدوبنوف/اے ایف پی]

یکم اپریل کو روس کے شہر ٹولیٹی میں لاڈا کار ڈیلرشپ کی پارکنگ میں لاڈا آٹوموبائلز کے سامنے ایک کتا کھڑا ہے۔ روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کے نتیجہ میں لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے، وہ اسپیئر پارٹس کی کمی کا شکار ہے۔ [یوری کدوبنوف/اے ایف پی]

جب ایک روسی کار ساز کمپنی نے ایران سے کہا کہ وہ اسے ایسے اہم پرزے فراہم کرے جن تک یوکرین پر حملے کے بعد عائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے، اسے رسائی حاصل نہیں ہے، ایک ایسا لمحہ فکریہ تھا جس نے بین الاقوامی اچھوت ریاستوں کی حثیت سے، دونوں حکومتوں کو درپیش نتائج کا خلاصہ پیش کر دیا۔

ایرانی آٹو پارٹس میکرز ایسوسی ایشن سے حسین بحرینی نےکمپنی کا نام بتائے بغیر کہا کہ ایک روسی کار ساز کمپنی نے پرزے خریدنے کے بارے میں استفسار کیا تھا۔ یہ خبر سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے 2 مئی کو دی تھی۔

بحرینی نے کہا کہ جن پُرزوں کی مانگ ہے ان میں بریک سسٹم، سیٹ بیلٹ، ایئر بیگ، الٹرنیٹرز، ایئر کنڈیشنر، تھرموسٹیٹ اور پاور ونڈو سسٹم شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "روسی کار ساز ادارے کی جانب سے، ساز و سامان کے ایرانی مینوفیکچررز کے ساتھ تعاون کے مطالبے کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ کمپنیاں جو روس کو سامان فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں... پیداوار کے معیار اور مقدار کے لحاظ سے ۔۔۔ اس شمالی پڑوسی کی مارکیٹ میں موجودگی کے لیے اپنی قسمت آزما سکتی ہیں۔"

قومی کیریئر ایران ایئر 39 طیاروں کا بیڑا چلاتا ہے، جن میں سے زیادہ تر ایئربس جیٹ طیارے ہیں۔ [Presstv.ir]

قومی کیریئر ایران ایئر 39 طیاروں کا بیڑا چلاتا ہے، جن میں سے زیادہ تر ایئربس جیٹ طیارے ہیں۔ [Presstv.ir]

ایرانی کاروں کے کچھ پُرزے، جن میں انجن کولنگ اور سسپنشن سسٹم شامل ہیں، حالیہ برسوں میں روس کو پہلے ہی برآمد کیے جا چکے ہیں۔

مغربی کار سازوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کاروں کو اسمبل کرنے کے لیے روس کا رخ کیا ہے کیونکہ ملک کی معیشت میں توسیع ہو رہی تھی۔

لیکن جب سے ماسکو نے فروری میں یوکرین میں فوج بھیجی ہے، متعدد کار سازوں نے روس کو اپنی کاروں یا پرزوں کی فروخت روک دی ہے -- بشمول آڈی، ہونڈا، جیگوار اور پورشے۔

جن کمپنیوں نے روسی پیداوار کو روک دیا ہے ان میں بی ایم ڈبلیو، فورڈ، ہنڈائی، مرسیڈیس، واکسویگن اور والوو شامل ہیں۔

آٹو میکر ایوٹوویز - روس کی سب سے بڑی کار ساز کمپنی جس کا ملک کا سب سے بڑے برانڈ لاڈا ہے، ایک ایسا اداراہ ہے جس کی زیادہ تر ملکیت فرانس کے نسان-ریناولٹ گروپ کے پاس ہے - درآمد شدہ پُرزوں کی کمی کی وجہ سے تقریباً تعطل کا شکار ہے۔

ریناولٹ گروپ پر، یوکرین پر حملہ کرنے پر روس کا بائیکاٹ کرنے کے لیے شدید دباؤ ہے اور وہ ایوٹوویز سے دستبرداری اختیار کرنے پر غور کر رہا ہے۔

یہ روسٹیک کے ساتھ شراکت رکھتے ہوئے ایوٹوویز کا مالک ہے، جو کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے منظور شدہ قریبی اتحادی سرگئی چیمیزوف کے زیر انتظام ایک سرکاری دفاعی گروپ ہے۔

پیر (9 مئی) کو، ایک امریکی دفاعی اہلکار نے کہا کہ بین الاقوامی پابندیوں سے روس کی ہتھیاروں کی صنعت متاثر ہو رہی ہے، جو ماسکو کے خلاف الیکٹرانک پرزوں پر پابندی کی وجہ سے، یوکرین میں روس کی فوج کی طرف سے استعمال کیے جانے والے گائیڈڈ میزائلوں کو تبدیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔

پینٹاگون کے سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ روس نے یوکرین میں اتنے میزائل داغے ہیں کہ "ان کے پاس درست گائیڈڈ گولہ بارود کے دخائر میں کمی کے مسائل ہیں اور انہیں استعمال شدہ کی جگہ نئے فراہم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے"۔

اہلکار نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس کی بنیاد پر، واشنگٹن کا خیال ہے کہ پابندیوں - خاص طور پر الیکٹرانک پرزوں پر - نے "روسی دفاعی صنعتی بیس پر اثر ڈالا ہے۔"

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ یہی وجہ ہے کہ ماریوپول یا خرکیو جیسے بڑے شہر ایسے بموں کی زد میں آئے ہیں جو فوجی ہدف اور رہائشی عمارت میں فرق نہیں کر سکتے۔

اچھوت ریاستیں اور اسپیئر پارٹس

اسپیئر پارٹس تک رسائی، تہران کے لیے طویل عرصے سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جو برسوں سے بین الاقوامی سطح پر اچھوت کا مقام رکھتا رہا ہے۔

ایران کو 2018 میں امریکہ کی طرف سے دوبارہ عائد کی گئی سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کا اسی فیصد خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ سیکٹر بوسیدہ ہو چکا ہے اور گزشتہ دہائی میں اس کی تجدید یا تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

ارنا کو 8 دسمبر کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں، ایران کی ایئر لائن ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ، علی رضا برخور نے انکشاف کیا کہ ایران کے شہری طیاروں کے نصف سے زیادہ بحری بیڑے اسپیئر پارٹس کی کمی کی وجہ سے گراؤنڈ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ایران میں غیر فعال طیاروں کی تعداد 170 سے زیادہ ہو گئی ہے... جس کی وجہ اسپیئر پارٹس اور بالخصوص انجن کا غائب ہونا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا، تو ہم مستقبل قریب میں مزید طیارے گراؤنڈ ہوتے دیکھیں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں امید ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ایئرلائنز کو مالی اعانت فراہم کرنا ہو گی تاکہ وہ گراؤنڈ ہوائی جہازوں کی بحالی کے لیے اسپیئر پارٹس فراہم کر سکیں۔"

ایرانی اقتصادی روزنامے فنانشل ٹریبیون کے مطابق، قومی کیریئر ایران ایئر39 طیاروں کا بیڑا چلاتا ہے، جن میں سے زیادہ تر ایئربس طیارے ہیں۔

پابندیوں کے خاتمے کے بعد 2016 میں، ایران نے 100 ایئربس جیٹ طیارے، 80 بوئنگ طیارے اور 40 اے ٹی آر طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔

لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ کو پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد ترسیل میں خلل آنے سے پہلے، صرف 11 طیارے موصول ہوئے۔

سیاسی محقق عبدالنبی بکر نے کہا کہ ایران کی معیشت اور نقل و حمل کے بحری بیڑے کی بگڑتی ہوئی حالت "نہ صرف پابندیوں کی وجہ سے بلکہ اس کی وجہ ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کی جانب سے عوامی سرمایے کو اپنی علاقائی پراکسیوں کے لیے استعمال کرنا بھی ہے"۔

ایران کی بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے سابق نمائندے علی رضا منذری نے دسمبر میں آئی ایل این اے کو بتایا کہ "دنیا کے ساتھ ایران کے مالی تعلقات کمزور ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمیں ہوائی جہاز بیچنے والوں کو نقد رقم ادا کرنی ہوتی ہے اور جب طیاروں کی خریداری کے لیے مالی اعانت کی بات آتی ہے تو ہم غیر ملکی قرضوں اور سرمایہ کاری کو استعمال نہیں کر سکتے۔"

نقل و حمل کے تجزیہ کار مہرداد اراسی نے کہا کہ"فی الحال، ایرانی حکومت کے صرف چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "تاہم، دونوں ممالک کے پاس ہوا بازی کی ٹیکنالوجی کے معاملے میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حقیقت میں، وہ اپنے مسافر طیارے امریکی اور یورپی کمپنیوں جیسے کہ ایئربس اور بوئنگ سے خریدتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500