سلامتی

کیا چینی افواج بگرام ایئر بیس پر موجود ہیں؟

از سلیمان

13 اپریل کو چینی فوجی 'گرفتاری اور تباہی' کی تربیتی مشق کے دوران چھاپے کی نقل کرتے ہوئے۔ [چینی وزارت دفاع]

13 اپریل کو چینی فوجی 'گرفتاری اور تباہی' کی تربیتی مشق کے دوران چھاپے کی نقل کرتے ہوئے۔ [چینی وزارت دفاع]

کابل -- آن لائن گردش کرنے والی ایک حالیہ رپورٹ جس کے مطابق بگرام ایئرفورس بیس پر چینی فوجی تربیت کاروں کو تعینات کیا گیا ہے، نے افغانوں میں تشویش پیدا کر دی ہے جو پہلے ہی ملک میں چینی دلچسپی میں اضافے پر شاکی ہیں۔

اکتوبر کے اوائل میں نامعلوم ذرائع نے اے این ڈی میگزین کو بتایا کہ " بگرام ایئر فورس بیس پر متعدد چینی فوجی طیارے اترے ہیں"۔

اس وقت ان کا مقصد واضح نہیں تھا، لیکن میگزین نے 13 مارچ کو بتایا کہ "چینی فوجی اہلکار بگرام میں زمین پر موجود ہیں، اور وہ حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو تربیت دے رہے ہیں"۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کے عناصر اور پاکستانی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے اہلکار بھی اڈے پر موجود ہیں۔

کابل سے 70 کلومیٹر شمال میں، بگرام ایئر بیس کی گزشتہ 5 جولائی کو تمام امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد کی تصویر۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل سے 70 کلومیٹر شمال میں، بگرام ایئر بیس کی گزشتہ 5 جولائی کو تمام امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد کی تصویر۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

حالیہ بیانات نے ان دعوؤں کی تائید کرتے ہیں۔

افغانستان کے سابق نائب صدر اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے سابق ڈائریکٹر امر اللہ صالح نے 22 اپریل کو ٹویٹ کیا، "غیر ملکی افواج کے ایک چھوٹے سے دستے نے بگرام ایئربیس کے کچھ اندرونی حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔"

"میں اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ کون ہیں اور وہ کیا کام انجام دیتے ہیں۔ تاہم یہ زیادہ دیر تک اندھیرے میں نہیں رہے گا۔ وہ حقانی ملیشیاؤں کو تربیت دیتے ہیں جس کی تصدیق متعدد ذرائع کرتے ہیں۔"

حقانی نیٹ ورک کو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں ہونے والے کچھ مہلک ترین حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے القاعدہ سے تاریخی تعلقات ہیں اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" کی خراسان شاخ (داعش-خ) کے ساتھ شراکت داری ہے۔

فروری 2021 میں افغان حکام نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہمی کا خیال رکھتا ہے، آئی ایس آئی ایس حملوں کا آغاز کرتی ہے اور ذمہ داری قبول کرتی ہے، جس سے الزامات کے سامنے دھویں کی دیوار بن جاتی ہے۔

چین بحران کو 'بڑھا رہا ہے'

چین نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی تاہم یہ خبر سوشل میڈیا پر پھیل رہی ہے جس پر افغانوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ناروے میں ایک افغان سیاسی تجزیہ کار، رحمت اللہ بیزحان نے کہا، "بگرام کا مسئلہ اور چینیوں کی طرف سے حقانی جنگجوؤں کی تربیت ایک بہت اہم موضوعِ بحث ہے۔"

اگرچہ "ایسی تعیناتی کی ابھی تک انٹیلیجنس کمیونٹی کی طرف سے تصدیق یا اطلاع نہیں دی گئی ہے"، انہوں نے کہا، "چینی فوجیوں کی بگرام ایئر بیس یا [عام طور پر] افغانستان میں کسی بھی تزویراتی امور کو انجام دینے کے لیے تعیناتی بہت جلد بازی اور بچگانہ اقدام ہو گا۔ "

بیزحان نے کہا، "وزیر خارجہ اور دیگر چینی حکام، جن کی حکومت نے کابل کی [نئی] انتظامیہ کو تسلیم نہیں کیا ہے، کے افغانستان کے دورے بہت مشکوک ہیں۔"

چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بات چیت کے لیے 24 مارچ کو کابل کا دورہ کیا۔

بیزحان نے کہا، "چین کی طرف سے افغانستان میں گھومنے پھرنے اور نیٹ ورک بنانے کی کوششوں سے ملک کے استحکام، سلامتی یا حکومت کی تشکیل کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، بلکہ اس سے اس کے بحران میں اضافہ ہو گا۔"

"یہ چینیوں کو واضح طور پر سمجھے جانے والے کھیل سے ایک مبازرتی کھیل کی طرف لے جائے گا جس کی انہیں بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔"

افغان امور میں مداخلت

کئی دوسرے تجزیہ کاروں نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی چینی فوجی کی موجودگی افغانستان کے قومی مفادات کے خلاف اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

جرمنی میں ایک افغان تجزیہ کار، ویس نصیری نے کہا، "اگر یہ خبر درست ہے کہ چینیوں نے افغانستان میں فوجی بھیجے ہیں، تو یہ چین کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی ہو گی، اور ایسی موجودگی کو درحقیقت مداخلت سمجھا جاتا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔"

انہوں نے کہا، "واضح بات یہ ہے کہ چین امریکہ کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور فوجی مقابلے میں ہے۔ چین افغانستان میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔"

عبدالبصیر سالنگی، جو اب ترکی میں پروان کے سابق گورنر ہیں، نے کہا، "افغانستان میں چینی فوجی موجودگی خطے اور دنیا کے لیے ایک حساس معاملہ ہے"۔

انہیں چینی افواج کی افغانستان میں موجودگی پر شکوک و شبہات ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ "میرانشاہ، پشاور اور کوئٹہ میں حقانی نیٹ ورک کی ملیشیاؤں کو چینی تربیت دیے جانے کا بہت امکان ہے"۔

ایک افغان سیاسی اور عسکری تجزیہ کار، اسلام آباد کے عارف کیانی نے کہا کہ چین نے خفیہ تجزیہ کاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو یغور باغیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے افغانستان بھیجا ہو گا۔

کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں سیاسیات کے طالب علم، 27 سالہ جاوید خالقی نے اس بات سے اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا، "اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ [چینی] حقانی نیٹ ورک کی ملیشیاؤں کو تربیت دے رہے ہوں تاکہ افغانستان میں یغور جنگجوؤں کو دبایا جا سکے۔"

چین کی نظریں افغانستان کی معدنیات کی کانوں پر

دوسرے تجزیہ کار اس اقتصادی قدر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو چین کو افغانستان میں مل سکتی ہے۔

چینی کمپنیاں پہلے ہی افغانستان کے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر چکی ہیں، اور کابل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بیجنگ کی بیلٹ اینڈ روڈ پہل کاری (بی آر آئی) کی افغانستان اور وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے راستے توسیع کی راہ ہموار کریں گے۔

دیگر اہداف کے علاوہ، بی آر آئی کا مقصد چینی مفاد کے لیے غریب ممالک کے قدرتی وسائل کو نکالنے اور بھیجنے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔

مرزا محمد یارمند، سابق نائب وزیر داخلہ جو اب فرانس میں ہیں، نے کہا "چین کی پالیسیاں ظاہر کرتی ہیں کہ چین افغانستان کی کانوں میں بہت دلچسپی رکھتا ہے"۔

انہوں نے کہا، "وہ ٹھیکے لینے اور افغانستان کی معدنیات کی کانوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ... فاصلہ بہت آسان اور سستا ہے۔"

یارمند کے خیال میں، بیجنگ اس کام کو افغانستان میں فوجیں بھیجنے سے بہتر سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا، "چینی افواج کے افغانستان آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ ایک بڑے علاقائی تنازعے اور مشرق اور مغرب کے درمیان تصادم کا باعث بنے گا"۔

یونیورسٹی کے طالب علم خالقی نے کہا، "چینی افواج کی موجودگی کسی بھی افغان کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ چین نے افغانستان کے استحکام، سلامتی یا اقتصادی ترقی کے لیے کوئی تعاون نہیں کیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "افغانستان میں چین کا واحد مقصد ہماری کانوں کو لوٹنا ہے۔ چین کی فوجی موجودگی افغانوں کے قومی مفاد کو پورا نہیں کرتی بلکہ اس سے صورتحال پیچیدہ ہو جائے گی اور افغانستان میں پراکسی جنگوں میں اضافہ ہو جائے گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500