سفارتکاری

چین کے عسکری دورۂ ایران سے بیجنگ کے ارادوں پر تشویش میں اضافہ

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایرانی وزیرِ دفاع محمد رضا اشتیانی (درمیان میں) 27 اپریل کو چینی وزیر دفاع وئی فینگ (دائیں) کے دورۂ تہران پر ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ [ایرانی وزارت دفاع]

ایرانی وزیرِ دفاع محمد رضا اشتیانی (درمیان میں) 27 اپریل کو چینی وزیر دفاع وئی فینگ (دائیں) کے دورۂ تہران پر ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ [ایرانی وزارت دفاع]

تہران -- گزشتہ ہفتے ایک اعلیٰ سطحی چینی عسکری وفد کے دورۂ ایران نے دونوں ممالک کے گہرے ہوتے ہوئے تزویراتی تعلقات کو اجاگر کیا ہے اور علاقائی استحکام پر تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔

گزشتہ بدھ (27 اپریل) کے روز ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ملک کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار چین کے ساتھ تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ تہران بیجنگ کے وزیرِ دفاع کے ساتھ ملاقات میں "اپنے طویل مدتی تزویراتی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے"۔

رئیسی نے کہا، "علاقائی اور عالمی پیش رفت ایران اور چین کے تزویراتی تعاون کی اہمیت کو پہلے سے کہیں زیادہ ظاہر کرتی ہے۔"

رئیسی نے چینی وزیر دفاع وئی فینگ کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ "یکطرفہ پن کا مقابلہ کرنا اور استحکام اور نظم و ضبط پیدا کرنا ہم خیال آزاد طاقتوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔"

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی (دائیں) 27 اپریل کو چینی وزیر دفاع وئی فینگ کے دورۂ تہران پر ان کا استقبال کرتے ہوئے۔ [ایرانی وزارت دفاع]

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی (دائیں) 27 اپریل کو چینی وزیر دفاع وئی فینگ کے دورۂ تہران پر ان کا استقبال کرتے ہوئے۔ [ایرانی وزارت دفاع]

وئی نے کہا کہ ان کے دورے کا مقصد ایران اور چین کے درمیان "تزویراتی دفاعی تعاون کو بہتر بنانا" ہے۔

ایرانی وزارتِ دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا کہ وئی نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد رضا اشتیانی سے بھی ملاقات کی، جنہوں نے "کثیر الطرفیت کو مضبوط بنانے" کی ضرورت پر زور دیا۔

رئیسی نے کہا کہ ایران کی ترجیح"25 سالہ جامع تعاون کے منصوبے کا کامیاب نفاذ" تھی جس پر اس نے، پانچ سال کی خفیہ بات چیت کے بعد، چین کے ساتھ مارچ 2021 میں دستخط کیے تھے۔

معاہدے کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں اور تہران نے صرف اتنا کہا ہے کہ اس میں "سیاسی، تزویراتی اور اقتصادی شقیں" شامل ہیں۔

جامع، ہمہ گیر معاہدے پر ایران کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ہے، ایرانی حکومت کے کچھ مخالفین نے اسے " ایران کی چین کو فروخت" قرار دیا ہے۔

ایران چین تجارت میں اضافہ

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق، گزشتہ 12 ماہ میں ایران کی چین کو برآمدات میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ چین سے درآمدات میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رائٹرز نے 1 مارچ کو خبر دی کہ ٹینکر وں سے باخبر رہنے والے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے حالیہ مہینوں میں چین کی ایرانی تیل کی خریداری میں ریکارڈ سطح پر اضافہ ہوا ہے، جو کہ سنہ 2017 کی سب سے زیادہ خریداری سے تجاوز کر گئی ہے جب تجارت امریکی پابندیوں کے تابع نہیں تھی۔

تین ٹینکر ٹریکرز کے اندازے کے مطابق، چینی درآمدات جنوری کے لیے 700,000 بیرل یومیہ سے تجاوز کر گئیں، جس نے سنہ 2017 میں چینی کسٹمز کی جانب سے ریکارڈ کی گئی 623,000 بیرل یومیہ کی انتہائی مقدار کو پیچھے چھوڑ دیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق، 3 اپریل کو نیشنل ایرانی آئل کمپنی این آئی او سی کے سی ای او محسن خوجستہ مہر نے اعلان کیا، "معاشی دباؤ کے باوجود تیل کی پیداوار پابندیوں سے پہلے کے اعدادوشمار تک پہنچ گئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پیداوار کو پابندیوں سے پہلے کی 3.8 ملین بیرل یومیہ کی سطح پر بحال کر دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا: "اب ہم اپنی برآمدات کو دوگنا کرنے کی حالت میں ہیں۔"

چین طویل عرصے سے راڈار کے نیچے سے ایرانی تیل درآمد کر رہا ہے، جس کی ترسیل سرکاری کسٹم ڈیٹا میں ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ خریداروں کو امریکی پابندیوں کا خوف ہوتا ہے۔

تاہم، جنوری میں، چین کے کسٹمز کے محکمے نے جاری پابندیوں کے باوجود ایک سال میں ایرانی خام تیل کی پہلی درآمد کی اطلاع دی تھی۔

تیل کے کئی تاجروں نے رائٹرز کو بتایا کہ سال کے آغاز سے، ایرانی ترسیل برینٹ کی معیاری قیمت سے 5 ڈالر فی بیرل کم پر تجارت کر رہی ہے۔

تیل کی منڈی کے ایک تجزیہ کار جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کے مطابق، ایران کی تیل کی زیادہ تر برآمدات "پیچیدہ راستوں اور دلالوں کے ذریعے چین کی طرف جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہر ماہ ایک چھوٹی سی مقدار شام میں داخل ہوتی ہے"۔

ایران سے چین کی ایندھن کی درآمدات اس وقت سامنے آتی ہیں جب تہران پورے خطے میں اپنے پراکسیوں کو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور مسلح کرتا رہتا ہے، بشمول یمن میں حوثی، لبنان اور عراق، شام اور اس سے آگے کے دیگر مختلف ممالک میں حزب اللہ۔

چین سے بیلسٹک میزائل کے پرزہ جات اسمگل کرنے والے ایرانی دلالوں کے خلاف 30 مارچ کو امریکی پابندیوں کا اعلان خطے میں عدم استحکام میں بیجنگ کے حصے کی ایک اور علامت ہے۔

جھوٹ اور فریب

دریں اثنا، چونکہ اعلیٰ ایرانی حکام تیل کی برآمدات پر ریکارڈ آمدنی کا دعویٰ کر رہے ہیں، قانون ساز، مبصرین اور عام شہری حیران ہیں کہ یہ ساری رقم کہاں جا رہی ہے۔

یہ مسئلہ خاص طور پر سنگین ہے کیونکہ ایرانی عوام بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مایوسی کا شکار ہیں۔

ٹویٹر ، جس پر ایران میں پابندی ہے لیکن بہت سے ایرانی حکام اور شہری استعمال کرتے ہیں جو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) پر انحصار کرتے ہیں، پر تیل کے مبینہ منافعے کے بارے میں گفتگوؤں کے کئی سلسلے ایسے سوالات پر اختتام پذیر ہوئے کہ یہ رقم براہ راست عام ایرانی لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کیوں نہیں لا رہی۔

صحافی اور کارکن عبداللہ گنجی، جو آئی آر جی سی کے قریب ہیں، نے 10 اپریل کو ٹویٹ کیا، "اتفاقاً، میں نے بھی یہی سوال کیا تھا اور وزیر تیل سے پوچھا: 'اگر آپ زیادہ تیل بیچ رہے ہیں اور آپ رقم واپس کر سکتے ہیں، تو ہمیں لوگوں کی زندگیوں پر اس کا اثر کیوں نظر نہیں آتا؟"

"انہوں نے کہا: ہم نے اس رقم کا زیادہ تر حصہ گزشتہ سال کے 17 بلین ڈالر کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے خرچ کیا۔ اس کا باقی حصہ عالمی منڈی میں دگنی قیمتوں والی کھانے پینے کی اشیاء کی درآمد پر خرچ کیا گیا۔"

وزیر تیل جواد اوجی نے 24 مارچ کو کہا، "ایران سنہ 2018 میں ملک کی تیل کی صنعت پر پابندیوں کے بعد سے خام برآمدات اور محصولات کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے"۔

سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے وزیر تیل کے بیان کے متعلق اپنی اپنی رائے دی، جن میں سے ایک نے کہا، "کیونکہ پیسے چوری کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔"

ایک اور بولا "یہ سب جھوٹ ہے۔"

داخل ہوتے ہوئے چینی فوجی

ایک اور بڑھتی ہوئی تشویش خطے میں چین کی براہِ راست عسکری موجودگی ہے۔

بیجنگ کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے ہزاروں چینی فوجی ایران میں تعینات کیے جانے کی خبروں نے 25 سالہ معاہدے کی رازداری کے بارے میں موجودہ خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

ایرانی حکومت کے کچھ ملکی ناقدین نے اس معاہدے کو پچھلی صدی کے نوآبادیاتی معاہدوں سے تشبیہ دی ہے، جس میں ممکنہ فوجی تعیناتی چین کے ارادوں کی نوآبادیاتی نوعیت کو اجاگر کرتی ہے۔

ایرانی بحریہ کے ایک سابق تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے گزشتہ برس کہا کہ بیجنگ کے نقطۂ نظر سے، "[25 سالہ] معاہدے کا نقطہ یہ ہے کہ چین ایران میں قدم جمائے، خاص طور پر خلیج فارس میں جاسک اور کیش کے جزیروں پر"۔

بیجنگ پہلے ہی بحرِ ہند کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں کا ایک سلسلہ تعمیر کر چکا ہے، جس سے بحیرۂ جنوبی چین سے سوئز نہر تک ایندھن بھرنے اور دوبارہ سپلائی کرنے والے اسٹیشنوں کا ایک سلسلہ بن گیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500