ہیرات – ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کی جانب سے "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور افغانستان میں خیال کیے جانے والے نسلی تناؤ کے بارے میں حالیہ آراء نے افغانوں کے مابین تند تنقید کو بھڑکا دیا ہے۔
پیر (25 اپریل) کو تہران میں ایک نیوز کانفرنس میں خطیب زادے نے کہا کہ افغانستان میں کوئی اکثریتی یا اقلیتی نسلی گروہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پشتون اقلیتی نسلی گروہ ہیں، جبکہ افغان عوام کی اکثریت تاجک اور ہزارہ پر مشتمل ہے۔
ہیرات کے رہائشیوں نے ترجمان کی ان آراء پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ انہیں افغانستان میں نسلی تناؤ بھڑکانے کے لیے حکومتِ ایران کی نیت کا واضح اشارہ سمجھتے ہیں۔
ہیرات شہر کے ایک رہائشی حسین قادری نے کہا، "افغانستان میں ابھرنے والے مسائل کے پیشِ نظر، حکومتِ ایران افغان نسلی گروہوں کے مابین تقسیم کو اشتعال دلانے اور تنازع کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کو افغانستان کے نسلی گروہوں اور داخلی امور پر آراء دینے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ افغان کسی بھی ایرانی مداخلت اور تفریقیت کے خلاف کھڑے رہیں گے۔
ہیرات شہر ہی کے ایک اور رہائشی جاوید نیائش نے کہا کہ تہران اپنے ہی ملک میں اقلیتی گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہا ہے لیکن افغانستان میں تنازع کو طوالت دینے کے ایک حربہ کے طور پر بے شرمی سے افغان نسلی گروہوں پر آراء دینے کی جسارت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا، "حکومتِ ایران کی جانب سے نسلی تناؤ سے نفرت پیدا کرنے کا عمل ہمارے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کی واضح علامت ہے۔ افغانستان میں ایران کی مداخلت کو رکنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلوں میں نہ جلے۔"
نیائش نے کہا، "حکومتِ ایران کئی برسوں سے افغانستان میں نسلی تناؤ کو ہوا دے رہی ہے لیکن کبھی اپنا ہدف پورا نہیں کر سکی۔ افغانوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ متحد ہیں، اور کوئی ان کے مابین تفریق پیدا نہیں کر سکتا۔"
فاطمیون کے ذریعے افغانستان کی تباہی
مزید آراء دیتے ہوئے خطیب زادے نے کہا کہ ایران افغانستان میں داعش کے خلاف لڑائی میں قیادت کرنے کو تیار ہے اور وہ اس دہشتگرد گروہ کے خلاف جنگ میں اپنے تجربات بانٹنے کو تیار ہے۔
تاہم عسکری تجزیہ کار اور متعدد افغان ان آراء کو فاطمیون ڈویژن – سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کی قدس فورس (آئی آر جی سی- کیو ایف) کی بنائی ہوئی، افغانوں پر مشتمل، ایک ملشیا— سے افغانستان میں افواج تعینات کرنے کی تہران کی نیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ہیرات سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری تجزیہ کار وحید اللہ نیکبین نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ، افغانستان میں داعش حملوں کے بڑھتے ہوئے خدشہ کو ملک میں فاطمیوں جنگجوؤں کو لانے کا ایک ممکنہ موقع سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا، "حکومتِ ایران نے عراق اور شام میں داعش سے لڑنے کے لیے افغانوں کو فاطمیون میں بھرتی کیا اور اب انہیں افغانستان میں تعینات کرنا چاہتی ہے۔ یہ حکومت فاطمیون افوج کو صرف اپنے اہداف میں پیش رفت اور ضمنی جنگوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ایرانی افواج داعش سے جنگ کرنے کے لیے نااہل ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ملک میں مجبور افغان پناہ گزینوں کو استعمال کیا ہے اور اپنی فاطمیون فوج کے جزُ کے طور پر انہیں گھسیٹ کر میدانِ جنگ میں لاتے ہیں۔"
نیکبین نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی جانب سے افغانستان میں فاطمیون افواج کی تعیناتی ایک نسلی اور مذہبی جنگ چھیڑ دے گی۔
ہیرات شہر کے رہائشی محمد اکبر حسینی نے کہا کہ اسی وجہ سے افغان کبھی داعش کے خلاف جنگ کے بہانے سے ایرانی حکومت کو افغانستان میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا، "حکومتِ ایران نے عراق اور شام کو تباہ کر دیا اور داعش کے خلاف لڑائی کے بہانے ہزاروں معصوم لوگوں کا قتلِ عام کیا۔ مزید برآں اس حکومت کے تنخواہ دار سپاہیوں نے عراق شام اور یمن میں ہزاروں معصوم لوگوں کا خون بہایا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "مشرقِ وسطیٰ میں متعدد ممالک میں تباہی لانے کے بعد ایران افغانستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔"
حسینی نے کہا کہ ایران کو سمجھ لینا چاہیئے کہ افغانستان اس کا جغرافیائی سیاسی کھیل کا میدان نہیں اور یہ کہ افغانستان کے لیے اس کے فاسد منصوبے ناکام ہوں گے۔
ایران کی اشتعال انگیزی
خطیب زادے کے آراء ایرانی اور افغان سرحدی افواج میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے پسمنظر کے دوران سامنے آئے۔
مثال کے طور پر ایرانی سرحدی افواج کی ایک گاڑی اور آٹھ سرحدی محافظ اتوار کو ہیرات کے اسلام قلعہ سرحدی پھاٹک کے راستے افغانستان میں داخل ہوئے اور ایک مقامی سڑک کی تعمیر کو روکنے کی کوشش کی۔
افغان سرحدی افواج نے ایرانی سپاہیوں کو کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھا اور ان کی گاڑی ضبط کر لی۔
اس سانحہ کے بعد ایران نے ٹینکوں اور عسکری آلات کے ساتھ سرحد کے قریب سینکڑوں فوجی تعینات کر دیے، جس سے سرحد پر صورتِ حال مزید تناؤ کا شکار ہو گئی۔
ہیرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک فعالیت پسند نذیر ثابت نے کہا کہ افغانستان میں ایرانی افواج کا داخلہ ملک کی علاقائی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا، "حکومتِ ایران سرحدی علاقوں میں اپنی افواج تعینات کر کے افغانستان کو اپنی عسکری طاقت دکھانا چاہتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "ایران کو افغانستان پر حملہ کرنے سے گریز کرنا چاہیئے، اگر دنوں ملکوں کے مابین تنازع پھوٹ پڑا تو ایرانی افواج خواہ کتنی ہی طاقتور ہوں، میدانِ جنگ میں داخل ہونے کے بعد زندہ نہیں لوٹیں گی۔"
ہیرات کے شہری گلبدین سیفی نے کہا کہ سرحد پر ایران کی عسکری مشقیں واضح اشتعال ہیں۔
انہوں نے کہا، "جبکہ افغانستان کو شدید معاشی چیلنجز درپیش ہیں، حکومتِ ایران معاونت فراہم کرنے کے بجائے صورتِ حال کو غیر مستحکم کر کے افغانستان کو ایک اور تنازع میں گھیرنا چاہتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "حکومتِ ایران نے کبھی افغانستان میں امن و استحکام کا ساتھ نہیں دیا لیکن اس امر کو یقینی بنانے کے لیے اپنی تمام تر قوت کو استعمال کیا ہے کہ یہ ملک ضمنی جنگوں کا میدان بنا رہے۔"