جب حملہ کرتے ہوئے روسی فوجی منصوبہ بندی کے مطابق کیف، یوکرین اور اس کے مضافات پر فوری قبضہ کرنے میں ناکام رہے، تو انہوں نے اپارٹمنٹ کی عمارات اور کاروباری اداروں کو سے ہر چیز لوٹنا شروع کر دی۔
کیف کے مضافاتی علاقے ہوسٹومیل میں، روسی افواج کے پسپا ہونے، شکست کھانے اور حوصلہ ہارنے کے بعد رہائشیوں نے زبردست لوٹ مار کی اطلاع دی تھی۔
پولیٹیکو نے 13 اپریل کو خبر دی کہ ایک مقامی باشندے کے مطابق، ایک رہائشی عمارت میں 90 فیصد اپارٹمنٹوں میں زبردستی گھسا گیا، انہیں لوٹا گیا، توڑ پھوڑ کی گئی اور تباہ و برباد کر دیا گیا۔
ایک اور مقامی رہائشی نے بتایا کہ اس نے دو فوجیوں کو کلہاڑی لیے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس میں داخل ہوتے دیکھا تھا، جسے استعمال کر کے انہوں نے دروازے پر لگے تالے کو توڑا تھا۔
اس نے کہا کہ جب روکا گیا تو ایک روسی افسر نے دعویٰ کیا کہ وہ ہتھیار تلاش کر رہے تھے۔ "'میں نے کہا، 'آپ کی فوج لٹیروں کی فوج ہے ... آپ کے فوجی ... شہری آبادی کے دروازے توڑ رہے ہیں اور انہیں لوٹ رہے ہیں۔'"
اس نے یاد کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ایک روسی فوجی کو اپنے کندھے پر کسی اور کے جوتے کے رکھے بھاگتے ہوئے دیکھا۔ دوسرے خالی اپارٹمنٹس سے لوٹے گئے سامان کے تھیلے لے جا رہے تھے۔
اس نے کہا، "یہ انتہائی شرمناک ہے۔"
مبصرین نے کہا کہ ان جنگ زدہ علاقوں میں لوٹ مار ایک عام بات ہے جہاں روسی فوج اور کریملن کے حمایت یافتہ کرائے کے فوجی لڑ رہے ہیں، انہوں نے یاد دلایا کہ فوجی اور کرائے کے فوجی میدان جنگ میں کمزور اور گھر میں محروم ہوتے ہیں۔
گھریلو اشیاء اور 'ٹرافیاں'
جب یوکرین کے قانون نافذ کرنے والے اہلکار روسی فوجیوں کی طرف سے چھوڑے گئے ملبے کا جائزہ لے رہے ہیں، انہوں نے یوکرینیوں کے گھروں سے واشنگ مشینوں، سائیکلوں، پرفیوم اور زیورات سے لے کر کھلونوں اور ماہی گیری کے آلات تک ہر چیز کی چوری درج کی ہے۔
سیکیورٹی سروس آف یوکرین (ایس بی یو) کی جانب سے 12 اپریل کو شائع ہونے والی ٹیلی فون پر گفتگو کے مسودے میں، ایک روسی فوجی کے والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ قبضہ کردہ رہائش گاہ سے مچھلی پکڑے والی کنڈیاں اٹھا لے۔
باپ نے اپنے سپاہی بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ "وہاں موجود سب کچھ اٹھا لو، لیکن ہوشیار رہنا، دیکھنا، کہیں وہ لوٹ مار کا الزام تم پر نہ لگا دیں۔ یہ ایک ٹرافی کی طرح ہے، لیکن وہاں کسی کو اپنی تصویر لینے نہ دینا۔"
دی لندن ٹائمز نے 6 اپریل کو خبر دی کہ پکڑی گئی دیگر فون کالوں میں، روسی سپاہی لوٹی ہوئی اشیاء سے اپنے مکانوں کی بقایا قسطیں ادا کرنے کے بارے میں اپنی بیگمات سے بڑھکیں مار رہے تھے۔
ایس بی یو کی طرف سے سنی گئی ایک کال میں، ایک فوجی کی بیوی نے اس سے لیپ ٹاپ، بے آواز جوتے اور صحیح سائز کا سوٹ مانگا۔
ایس بی یو نے کہا، "روسی فوجی کو یہ سب کچھ یوکرین کے قبضے میں لیے گئے گھروں سے حاصل کرنا ہے۔ وہ شیخی بگھارتا ہے کہ اسے پہلے ہی کچھ اچھے کاسمیٹکس اور ٹی شرٹیں مل چکی ہیں، اور اس کے ساتھیوں نے لُوٹ کے سامان کے پورے تھیلے اٹھا رکھے ہیں!"
دوسروں نے مذاق کیا ہے کہ یہ حملہ "سپر مارکیٹ کے پھیرے جیسا" رہا ہے۔
روسی فوجیوں کو بیلاروسی ڈاک خانے سے تقریباً 2,000 کلوگرام چوری شدہ سامان اپنے اہل خانہ کو بھیجنے کی تصاویر کھینچی گئی ہیں اور کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یوکرین کے تاریخ دان اور سیاسیات کے ماہر اولیکسینڈر پالیے نے روسی فوجیوں کی اپنے وطن میں محرومی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ کے پاس گھر کے اندر بیت الخلاء تک نہیں ہے۔
اس نے کاروان سرائے کو بتایا، "یوکرین کے ایک شہر میں، انہوں نے ایک کتبہ چھوڑا ہے -- 'تمہیں اتنی اچھی زندگی کس نے جینے دی؟"
انہوں نے کہا، "ان کے پاس کچھ نہیں ہے، انہیں کسی چیز کی اجازت نہیں ہے اور اس لیے ان کی سوچ ہے -- دوسروں کو اس کی اجازت کیوں ہے؟ روسی حسد سے مغلوب ہیں، اس لیے وہ یوکرین کے خوبصورت گھروں میں نظر آنے والی ہر چیز کو ختم کر رہے ہیں۔"
'غریب، کمزور، کم محفوظ'
مبصرین نے کہا کہ کریملن روسی نجی عسکری کمپنیوں -- ان میں سے بدنام زمانہ ویگنر گروپ -- کو دنیا بھر کے جھگڑوں میں، خصوصاً قدرتی وسائل سے مالا مال علاقوں میں استعمال کرتا ہے۔
روسی تاجر یوگنی پریگوزن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اتحادی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ویگنر گروپ کے پیچھے اس کا پیسہ ہے، جو 2014 میں اس وقت منظر عام پر آیا جب روس نے یوکرین سے کریمیا کو توڑ کر اس کا الحاق اپنے ساتھ کیا تھا۔
یوکرین کے علاوہ, روس کے کرائے کے فوجی شام، وینزویلا، سوڈان، وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر)، مالی، لیبیا، چاڈ اور مڈغاسکر میں موجود ہیں۔
امریکی بحریہ کے ریئر ایڈمرل ملٹن سینڈز، جو سپیشل آپریشنز کمانڈ افریقہ کے سربراہ ہیں، نے مارچ کے شروع میں واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، "ویگنر آتا ہے، ملک کو مزید غیر مستحکم کرتا ہے، معدنی وسائل کو تباہ کرتا ہے اور چھوڑنے کا انتخاب کرنے سے پہلے وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کماتا ہے۔"
"ملک غریب، کمزور اور کم محفوظ رہ جاتا ہے۔ ہر بار۔"
لیبیا میں، ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی 2018 سے روس کی حمایت یافتہ لیبیائی نیشنل آرمی کو مضبوط کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں جن کی قیادت طاقتور جنرل خلیفہ ہفتار کر رہا ہے۔
لیبیا کے تیل کے وسیع ذخائر اور بحیرۂ روم پر اس کا تزویراتی محلِ وقوع ماسکو کے لیے پُرکشش ہے، جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں مضبوط ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے۔
ویگنر گروپ 2018 سے مشکل میں پڑی سی اے آر حکومت کو آگے بڑھانے میں مدد دے رہا ہے۔ بدلے میں، پریگوزن سے منسلک ایک کمپنی کو سونے اور ہیروں کی کان کے لیے لائسنس دے دیا گیا ہے۔
روس ہراول دستوں کو تقویت دینے کے لیے درجنوں شامی اور لیبیا کے جنگجوؤں کو سی اے آر میں لایا ہے، اور اب یوکرین میں لڑنے کے لیے شامیوں کو بھرتی کر رہا ہے۔
25 مارچ کو فارن پالیسی نے شائع کیا کہ کم معاوضہ اور بُری طرح لیس شامی اور لیبیا کے کرائے کے فوجیوں نے بھی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی -- مرغیاں، بکریاں اور دیگر مویشیوں کے ساتھ ساتھ پیسے، موٹر سائیکلیں اور گدے چرائے۔
مالی میں، جہاں ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی صدارتی محل کی حفاظت کر رہے ہیں، مورا میں مارچ کے ایک آپریشن پر تنازعہ بھڑک اٹھا ہے جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مالی کی فوج اور ذرائع ابلاغ اور ہیومن رائٹس واچ کے ذریعے انٹرویو کیے گئے عینی شاہدین نے اس آپریشن کو شہریوں کا قتل عام قرار دیا، جس میں مالی کے فوجیوں اور غیر ملکی جنگجوؤں کی طرف سے عصمت دری اور لوٹ مار کی گئی جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ روسی تھے۔
'تمام جنگی علاقوں میں چوری عروج پر'
شام میں، اپنی نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے استعمال کے ذریعے، ماسکو نے ان خطوں میں فوجی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جہاں تیل اور کان کنی کی صلاحیت موجود ہے، حریف ملیشیاؤں کو باہر دھکیل کر اور مستقبل کی تعمیر نو سے فائدہ اٹھانے کے لیے روس کو جگہ دے کر۔
سابق جاسوسی کمپنی کمانڈر مارات گبیدولن نے دسمبر 2020 میں آزاد روسی نیوز سائٹ میڈوزا کو بتایا کہ ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجیوں نے پامیرا میں یونیسکو کی سائٹ کو لوٹا تھا۔
انہوں نے شام میں ویگنر کے اڈوں پر "قدیم پتھروں" اور "ابھری ہوئی کندہ کاری" والے پتھروں کو دیکھنا یاد کیا۔
شام کے دیر الزور شہر میں، روسی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ مل کر لڑنے والی ملیشیائیں باقاعدگی سے جنگ سے بچنے کے لیے بھاگنے والوں کے گھروں کو لوٹنے میں مصروف تھیں۔ حتیٰ کہ وہ بازار بھی لگاتی تھیں اور چوری شدہ اشیاء کو سرِعام فروخت کرتی تھیں۔
قاہرہ میں مقیم شامی صحافی محمد العبداللہ نے 2017 میں دیارونا کو بتایا، "حکومت کی فوج اور اس کی ملیشیاؤں کی جانب سے کئے گئے کام تمام علاقوں میں ایک نمونہ بن گئے ہیں، کیونکہ تمام جنگی علاقوں میں چوری عروج پر ہے۔"
انہوں نے کہا کہ لوٹ مار کے اسی طرح کے نمونے حلب میں دیکھے گئے، جہاں کچھ گروہوں نے منظم چوری کی اور متعدد کارخانوں اور مکانات، حتیٰ کہ کچھ سرکاری ہیڈکوارٹرز اور عمارتوں کو بھی لوٹ لیا۔
جارجیا میں لوٹ مار
جارجیا کے لوگوں کے پاس 2008 کی تلخ یادیں ہیں، جب روسی فوجیوں نے ان کے ملک پر حملہ کیا اور ان کے ملک کے پانچویں حصے پر قبضہ کر لیا۔
روسیوں نے وہی طرزِ عمل اختیار کیا جو انہوں نے شام اور یوکرین میں کیا تھا۔
راتی مجیری اگست 2008 میں جارجین پبلک براڈکاسٹنگ (جی پی بی) کے لیے کام کر رہے تھے اور انہوں نے ٹی وی پر روس-جارجیا جنگ کور کی تھی۔ جارجیا کے صحافیوں نے گوری جیسے قصبوں میں کام کیا جہاں روسیوں نے انخلاء سے قبل قبضہ کر لیا تھا۔
مجیری، جو اب ایک مخالف ٹی وی چینل کے لیے کام کرتے ہیں، نے کہا، "میں ان کا جارجیا کے فوجی اڈوں سے بیت الخلا اکھاڑنے اور روسی فوجی ٹرکوں میں لادنا کبھی نہیں بھولوں گا۔ ہم نے ایک ویڈیو شوٹ کی تھی، جو [جی پی بی] آرکائیو میں ہے۔"
فریسی، شیدا کارتلی علاقے کی 63 سالہ ٹی موٹسیکولاشویلی نے اپنا بیٹا کھو دیا۔ "اگست کی 9 یا 10 تاریخ تھا جب میں گاؤں سے بھاگی۔ میرا لڑکا، باگرات بورتسوادزے وہیں رہ گیا ... وہ 24 سال کا تھا۔"
انہوں نے کہا، "باگراتی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ انہوں [روسیوں] نے اس کی لاش کو کئی دنوں تک سڑک پر پڑا رہنے دیا۔ اب بھی مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے۔ میرا گھر لوٹ لیا گیا اور بعد میں جلا دیا گیا ... انہیں جو پسند آیا وہ لے گئے اور باقی کو آگ لگا دی۔ "
نکوزی، شیدا کارتلی کے علاقے کی 82 سالہ لیلا کنڈیلاکی نے روسیوں کو اپنے گھر کو لوٹتے ہوئے بے بسی سے دیکھا تھا۔ اس نے اس وقت کے بارے میں کہا، ’’ہمیں کئی دنوں تک قید رکھا گیا تھا۔"
روسی "میری دادی کا بڑا، خوبصورت دیوان لے گئے ... انہوں نے میرے باورچی خانے کا سنک، میرے تمام موسم سرما کے کپڑے... میرا بہت ہی اچھا، مہنگا چھیلن لے لیا۔ جب وہ جا رہے تھے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے خوشی ہونی چاہیے کہ انہوں نے مجھے ہلاک نہیں کر دیا"۔
[ کیف سے اولہا چیپل نے مضمون میں حصہ لیا۔ میتھیو رتمین نے تبلیسی سے مضمون میں حصہ لیا۔]