سلامتی

آئی آر جی سی کے تازہ حملے میں جنرل نشانہ، جنوب مشرقی ایران میں محافظ ہلاک

پاکستان فارورڈ

اس تصویر میں، جو کہ 23 مارچ کو جاری کی گئی، ایرانی سرحدی نگرانی کی فورسز کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

اس تصویر میں، جو کہ 23 مارچ کو جاری کی گئی، ایرانی سرحدی نگرانی کی فورسز کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

جنوب مشرقی ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ایک حالیہ حملہ، جس میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے ایک جنرل کو نشانہ بنایا گیا تھا، کو آئی آر جی سی کے اہلکاروں اور سینئر کمانڈروں کے خلاف حملوں کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے ایک حصہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جس سے حکومت کی پالیسیوں پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار ہوتا ہے۔

ایک نامعلوم مسلح شخص نے، 23 اپریل کو آئی آر جی سی کے جنرل کو لے کر جانے والی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ہونے والی جنگ میں اس کا محافظ ہلاک ہو گیا۔

بریگیڈ جنرل حسین الماسی، صوبہ سیستان و بلوچستان میں آئی آر جی سی کی سلمان فارسی بریگیڈ کے کمانڈر ہیں، کو اس حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ آئی آر جی سی سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے کہا کہ الماسی اس حملے میں بچ گئے اور وہ زخمی نہیں ہوئے ہیں۔

الماسی کا ہلاک ہونے والا محافظ، محمود ابسلان تھا، جو آئی آر جی سی کی سلمان فارسی بریگیڈ کے ڈپٹی کمانڈر، جنرل پرویز ابسلان کا بیٹا تھا۔

صوبے کے واچ ڈاگ "رساد بلوچ" ٹیلی گرام چینل پر جاری کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ محمود ابسلان کی لاش کو ہسپتال سے نکالا جا رہا ہے۔

سرکاری ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ نامعلوم حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

آئی آر جی سی کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے ایران-عراق جنگ کے آغاز میں سلیمان فارسی بریگیڈ قائم کی تھی۔ اس وقت سے یہ بریگیڈ سیستان و بلوچستان، کرمان اور ہرمزگان صوبے میں سرگرم رہی ہے۔

سلیمانی کو جنوری 2020 میں بغداد میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

حالیہ حملہ 5 مئی کو منعقد کی جانے والی تقریبات کی تیاریوں کے دوران کیا گیا ہے جو کہ 1979 میں آئی آر جی سی کے قیام کی سالگرہ ہے۔

سیستان و بلوچستان میں تنازعہ کی تاریخ

سنی اکثریتی رکھنے والا صوبہ، سیستان و بلوچستان طویل عرصے سے بدامنی کا شکار ہے۔

جنوب مشرقی صوبہ جو کہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ سرحد رکھتا ہے ، اکثر حملوں یا سیکورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی کا میدان بنتا ہے۔

منشیات کے اسمگلر اور منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ، جن میں سے زیادہ تر مسلح ہیں، زیادہ تر سیستان و بلوچستان میں سرگرم ہیں اور اکثر سرحد پر اور صوبے کو اندر، خاص طور پر دارالحکومت زاہدان میں، ان کی آئی آر جی سی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوتی ہیں۔

آئی آر جی سی کے کارکنوں اور اہلکاروں پر حملے خال خال نہیں ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی ذمہ داری بلوچ گروہ قبول کرتے ہیں جن کی شکایت امتیازی سلوک اور پسماندگی ہے۔

جنوری میں، آئی آر جی سی کے تین ارکان، ہلاک ہونے والے ان نو افراد میں شامل تھے جو علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے ایک ماہ قبل، سیکورٹی فورسز نے ایک ایسے مسلح شخص کو ہلاک کر دیا تھا جس نے آئی آر جی سی کے دیہی انٹیلیجنس دفتر پر حملہ کیا تھا۔

اور نومبر میں، ارنا نیوز ایجنسی نے کہا کہ سیکورٹی فورسز کے تین ارکان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

فروری 2019 میں، سیستان و بلوچستان میں نیم فوجی دستوں کو لے جانے والی بس میں ہونے والے بم دھماکے میں آئی آر جی سی کے کم از کم 27 ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔ ریاستی ذرائع ابلاغ نے کہا کہ سنی جیش العدل (انصاف کی فوج) نامی عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

نظرانداز صوبہ

سیستان و بلوچستان کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ بلوچ ہیں، جن میں اکثریت سنی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچوں کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک نسلی اقلیت ہیں۔

ایران کی سنی آبادی بھی اکثر امتیازی سلوک کی شکایت کرتی ہے، حکومت نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

حکومتی غفلت نے سیستان و بلوچستان میں شدید خشک سالی، فضائی آلودگی کی خطرناک سطح، پینے کے پانی کی قلت اور طویل لوڈشیڈنگ کو جنم دیا ہے۔

اس سے بلوچ آبادی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے، جو پہلے ہی بے روزگاری اور وسائل کی کمی کا شکار ہے۔

حکومتی اہلکار، جو مسلسل سنی مسلمانوں کو اپنے مساوی قرار دیتے رہتے ہیں، حقیقت میں طویل عرصے سے سنی اکثریتی صوبوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

سیستان و بلوچستان میں فروری 2021 میں اس وقت شورش دیکھی گئی جب سیکورٹی فورسز اور آئی آر جی سی کے ارکان نے ایران- پاکستان سرحد پر واقعہ قصبے ساراوان کے قریب، ایندھن کے کئی ترسیل کاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

اس حملے نے ایک پرتشدد بغاوت کو جنم دیا جس کے دوران حکومت نے مزید بدامنی کو روکنے کے لیے علاقے میں انٹرنیٹ کو بلاک کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ نے فروری 2021 میں کہا کہ سیستان و بلوچستان میں روزگار کے مواقع کی کمی کے باعث، اس کی بلوچ نژاد آبادی کے پاس، سرحد پار اپنے ساتھی بلوچوں کے ساتھ بلیک مارکیٹ میں کاروبار کرنے کے علاوہ، بہت کم متبادل چھوڑے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500