ٹیکنالوجی

تہران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے افغان حکام کی ایرانی سم کارڈ، کرنسی پر پابندی

از ایمان

صوبہ نمروز میں، افغان حکام نے اپریل 2022 میں ایک مہم شروع کی تھی، جس میں ایرانی ساختہ سم کارڈز اور انٹرنیٹ آلات کو اکٹھا کرنے اور ان کو غیر فعال کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی جو ان کے بقول ایرانی نگرانی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ [عبداللہ عزیزی]

ہرات -- نمروز میں افغان حکام نے، ایرانی ساختہ سم کارڈز اور انٹرنیٹ آلات کو اکٹھا کرنے اور ان کو غیر فعال کرنے کے لیے، ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد ایرانی نگرانی کا مقابلہ کرنا ہے۔

اس مہم کا آغاز 15 اپریل کو ہوا اور اس وقت سے اب تک، حکام نے ایرانی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کے ذریعے تقسیم کیے گئے سینکڑوں سم کارڈز اور وائی فائی ڈیوائسز اور ہزاروں پری پیڈ ٹاپ اپ کارڈز کو جمع اور غیر فعال کر دیا ہے۔

نمروز کے صوبائی ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر عبدالرحیم فیاض کے مطابق، مہم کا مقصد ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے کی جانے والی نگرانی اور مقامی آبادی میں ان کی دراندازی کو روکنا ہے۔

فیاض نے کہا کہ "یہ سم کارڈز مکمل طور پر، افغانستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے کنٹرول سے باہر ہیں اور نمروز کے رہائشیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔"

ایرانی ساختہ سم اور موبائل پری پیڈ ٹاپ اپ کارڈز 15 اپریل کو نمروز ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ حکام نے انہیں افغانستان میں ایرانی نگرانی کی کوششوں پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ضبط کر لیا تھا۔ [عبداللہ عزیزی]

ایرانی ساختہ سم اور موبائل پری پیڈ ٹاپ اپ کارڈز 15 اپریل کو نمروز ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ حکام نے انہیں افغانستان میں ایرانی نگرانی کی کوششوں پر کریک ڈاؤن کرنے کے لیے ضبط کر لیا تھا۔ [عبداللہ عزیزی]

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ "ایرانی سم کارڈز نے مقامی ٹیلیکام آپریٹرز کی سہولیات میں خلل ڈالا ہے" کہا کہ "ہم انہیں نمروز میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے"۔

صوبائی دارالحکومت، زرنج شہر کے رہائشی عبدالکریم محمدی نے کہا کہ "ایرانی حکومت نمروز کے حالات پر اثر انداز ہونے اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے، اپنے ٹیلی کام نیٹ ورکس کے ذریعے، لوگوں کی بات چیت کو سنتی رہی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے صوبے میں ایران کی جاسوسی کی کوششوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی سم کارڈز اور وائی فائی آلات افغان حریفوں کے مقابلے میں سستے داموں پیش کیے جا رہے تھے۔

زرنج کے ایک اور رہائشی عصمت اللہ مبشر نے کہا کہ "ایرانی حکومت پچھلے کئی سالوں سے... پری پیڈ موبائل ٹاپ اپ کارڈز سے بہت زیادہ منافع کما رہی ہے اور اسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔"

تومان پر پابندی

دریں اثنا، افغانستان کے مرکزی بینک، دا افغانستان بینک (ڈی اے بی) نے ملک بھر میں ایرانی تومان کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ڈی اے بی کے ترجمان صابر مومند نے 18 اپریل کو سلام ٹائمز کو بتایا کہ اب سے ایرانی کرنسی کا استعمال منع ہے اور اس پر جرمانہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ "تجارت میں ایرانی تومان کے استعمال نے نمروز میں افغانی کی قدر میں کمی کر دی ہے اور نمروز کے لوگ اپنے ملک کی اپنی کرنسی کے استعمال سے ناواقف رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی لین دین میں تومان کے استعمال سے ایران کو فائدہ پہنچا ہے اور زیادہ تر واقعات میں، یہ امریکی ڈالرز کے بدلے میں افغانستان میں داخل ہوا ہے۔

زرنج شہر کے ایک شہری، غلام شیخ نیازی نے تومان کے استعمال پر پابندی کو خوش آمدید کہا۔

"افغانی ہماری شناخت ہے اور روزمرہ کے لین دین میں تومان کے استعمال سے افغان معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر ایران میں افغانی استعمال نہیں ہوتا تو ایرانی کرنسی کو افغانستان میں کیوں استعمال کیا جائے؟"

انہوں نے کہا کہ "کچھ صوبوں میں -- مثال کے طور پر، ہرات اور قندھار جہاں زیادہ تر افغانی استعمال ہوتا ہے -- کاروباروں کو نقصان نہیں ہو رہا ہے تاہم نمروز اور فراہ کے کچھ علاقے، جہاں تومان میں لین دین ہوتا ہے، کاروباروں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں افغانی کی کوئی قدر نہیں ہے اس لیے، تومان سے افغانستان میں بھی ویسا ہی سلوک کیا جانا چاہیے"۔

زرنج شہر سے تعلق رکھنے والے ایک اقتصادی ماہر، محمد حسن مختار نے کہا کہ تومان کے استعمال پر پابندی لگانے سے، نمروز میں افغانی کی گردش اور قدر کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ "جب روزمرہ کے لین دین میں تومان کے استعمال پر پابندی ہوگی، تو افغان کرنسی اس کی جگہ لے کر، مارکیٹ میں گردش میں آ جائے گی۔ افغانی جتنی زیادہ گردش میں ہو گا ہماری قومی کرنسی کی قدر اتنی ہی زیادہ ہو گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی تومان دنیا کی سب سے بیکار کرنسیوں میں سے ایک ہے اور اسے افغان مارکیٹوں سے مکمل طور پر خارج کر دیا جانا چاہیے۔ "

ایرانی اثر و رسوخ کا انسداد

تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی کہ دونوں پابندیوں سے، نمروز میں ایران کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کار خالد سکندر نے کہا کہ ایرانی حکومت کچھ ہمسایہ صوبوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے میں کامیاب رہی ہے خصوصی طور پر نمروز میں جہاں ملک کی انٹیلیجنس نے بہت سے سرگرم کارکن رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت نے "صوبے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے اورمقامی ٹیلی کام آپریٹرز کو کمزور کرنے کے لیے" نمروز میں اپنے سم کارڈ کم قیمت پر برآمد کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم، اس وقت جاری کریک ڈاؤن کے ساتھ، نمروز میں ایرانی انٹیلیجنس کا اثر و رسوخ ختم ہو جائے گا"۔

سکندر نے کہا کہ "ایرانی سم کارڈز کی درآمد، ایرانی حکومت کا ایک منصوبہ ہے۔ جب وہ غیر فعال ہو جائیں گے، تو افغانستان میں ایران کی خفیہ سرگرمیاں بھی کم ہو جائیں گی۔"

زرنج شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن محمد اکبر حقدوست نے کہا کہ "ایرانی حکومت نے نمروز بازار کو بلیک مارکیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے افغانستان سے امریکی ڈالر یا دیگر قیمتی اشیاء درآمد کرکے فائدہ حاصل کرنے کے لیے، اپنی بے کار کرنسی کو مارکیٹ میں داخل کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "صوبہ نمروز میں تومان اور ایرانی سم کارڈز کے استعمال کو فروغ دینے میں ایران کے انٹیلی جنس کے کارکنوں کا بہت اہم کردار رہا ہے، لیکن اب ان حلقوں کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500