جرم و انصاف

منی لانڈرنگ کی پاکستانی تحقیقات میں غیر قانونی فنڈز کا تعلق ایرانی حکام کے ساتھ

از زرق خان

16 مئی 2019 کو ایک پاکستانی شخص کراچی میں اپنی دکان پر رقم گنتے ہوئے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

16 مئی 2019 کو ایک پاکستانی شخص کراچی میں اپنی دکان پر رقم گنتے ہوئے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

اسلام آباد -- حال ہی میں سامنے آنے والی عدالتی دستاویزات کے مطابق، ایرانی خفیہ اداروں سے منسلک منی لانڈرنگ کرنے والوں اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والوں نے پاکستان میں ایک سابق ایرانی اہلکار کو فنڈز فراہم کیے۔

دسمبر 2020 اور جنوری 2021 میں کراچی میں پولیس کی جانب سے زینبیون بریگیڈ کے متعدد ارکان کو گرفتار کرنے کے بعد پاکستانی حکام نے منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے پاکستانیوں پر مشتمل ایک ملیشیا زینبیون بریگیڈ تشکیل دی تھی۔

تحقیقات کے ایک جزو کے طور پر، حکام نے جنوری میں کراچی میں حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کے ایک ریکیٹ کا پردہ فاش کیا، 13 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور کروڑوں روپے کے مساوی غیر ملکی اور مقامی کرنسیاں ضبط کیں۔

ماسک پہنے پاکستانی فوجی 25 فروری 2020 کو تافتان میں بند پاکستان-ایران سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔ اس وقت، ایران میں بڑھتی ہوئی کووڈ-19 کی عالمی وباء نے افغانستان اور پاکستان میں اعصاب چٹخائے ہوئے تھے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

ماسک پہنے پاکستانی فوجی 25 فروری 2020 کو تافتان میں بند پاکستان-ایران سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔ اس وقت، ایران میں بڑھتی ہوئی کووڈ-19 کی عالمی وباء نے افغانستان اور پاکستان میں اعصاب چٹخائے ہوئے تھے۔ [بنارس خان/اے ایف پی]

فروری میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اسی تحقیقات میں منی لانڈرنگ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر کراچی میں مقیم ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن (ایچ بی ایف سی)، ایک پاکستانی ہاؤسنگ فنانس کمپنی جو کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذیلی کمپنی ہے، کے ایک سینیئر اہلکار کو بھی گرفتار کیا تھا جو کوئٹہ میں بلوچستان حکومت کا ایک ملازم ہے۔

10 اپریل کو عرب نیوز نے خبر دی تھی کہ 10 فروری کو ایک فردِ جرم میں، ایف آئی اے نے الزام عائد کیا کہ ابوالفضل بہاؤالدینی، ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے پاکستان میں سابق نمائندے، ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے لانڈرنگ کردہ فنڈز وصول کیے تھے۔

دستاویز میں بتایا گیا کہ جنوری میں گرفتار کردہ 13 مشتبہ افراد میں سے ایک شخص علی رضا نے پوچھ گچھ کے دوران انکشاف کیا کہ وہ اپنے ساتھی سید وصال حیدر نقوی، ایچ بی ایف سی اہلکار کے ذریعے بہاؤالدینی کو ہر ماہ 2 لاکھ ڈالر فراہم کرتا تھا۔

خامنہ ای ایران کے تمام صوبوں اور بعض سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ممالک کے لیے ذاتی نمائندے مقرر کرتے ہیں، جن میں شیعہ برادری کی بڑی تعداد مقیم ہے۔

ایران کے ایک ذریعے نے عرب نیوز کو بتایا کہ بہاؤالدینی نے ممکنہ طور پر اگست 2021 اور اس سال فروری کے درمیان پاکستان چھوڑا تھا۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے جو فروری میں ہونے والے کریک ڈاؤن میں شامل تھا، نے کہا کہ ایرانی خفیہ ایجنسی غیر قانونی حوالہ اور ہنڈی نیٹ ورکس کے ذریعے تہران سے منسلک عسکریت پسند گروہوں جیسے کہزینبیون بریگیڈ اور سپاہِ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کو پاکستان میں فنڈ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "گرفتار کردہ افراد ایک ایرانی خفیہ ادارے کے لیے کام کر رہے تھے اور وہ ایک کرنسی ایکسچینج فرم کے ذریعے پاکستان اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے اپنے نیٹ ورکس کو رقوم اور ترسیلات بھیجنے میں ملوث تھے۔"

اہلکار نے کہا، "کئی پاکستانی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات میں تہران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر رہی ہیں۔"

ایرانی مداخلت

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خامنہ ای سے براہ راست روابط رکھنے والے ایک ایرانی اہلکار کی شمولیت پاکستان کی داخلی سلامتی میں تہران کی بڑھتی ہوئی مداخلت کی تازہ ترین علامت ہے۔

فروری کے اوائل میں بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کے حملوں کے بعد، پاکستانی حکام نے تہران پر الزام لگایا تھا کہ اس نے عسکریت پسند گروہوں کو ایران میں محفوظ پناہ گاہوں سے کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے 28 مارچ کو قومی اسمبلی کے سوالات کے جواب میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں تصدیق کی کہ کالعدم علیحدگی پسند گروہ ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کے راستے دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔

ایک دفاعی تجزیہ کار اور بلوچستان حکومت کے سابق مشیر جان اچکزئی نے کہا، "ایران نے پاکستان میں، خاص طور پر بلوچستان میں، اپنے سیاسی، اقتصادی اور پراکسی ٹولز کے ذریعے اپنی نرم طاقت کی حکمت عملی کو وسعت دی ہے۔"

انہوں نے 7 فروری کو گلوبل ولیج سپیس میگزین میں لکھا، "تہران نے متعدد سطحات پر اپنا [اثر و رسوخ] استعمال کرنا شروع کر دیا ہے... اور یہ اثر و رسوخ یقینی طور پر پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔"

بلوچ علیحدگی پسند گروہ، زینبیون بریگیڈ، فاطمیون ڈویژن -- افغانوں پر مشتمل ایک ملیشیا جو الاسد کی حمایت میں شام میں لڑنے کے لیے بھیجی گئی تھی -- اور مرحوم ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی قائم کردہ دیگر ملیشیائیں حال ہی میں فعال ہوئی ہیں اور اچکزئی کے مطابق، ملک میں امن و امان کی صورتحال میں مسئلہ پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔

آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر، سلیمانی نے عراق، شام، لبنان، یمن اور افغانستان سمیت پورے خطے میں متعدد توسیع پسند پراکسی جنگوں کی منصوبہ سازی کی تھی۔

وہ 3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

اس سال جنوری میں، اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے اور پاکستان بھر میں اس کے قونصل خانوں نے سلیمانی کی دوسری برسی کے موقع پر شہروں میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا اور فنڈز فراہم کیے، جس پر پاکستانیوں کی جانب سے تنقید اور غصہ کیا گیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500