مذہب

چینی حکام نے رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں پر پابندیاں عائد کر دیں

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

انڈونیشیا کی ایک مسجد میں 6 اپریل کو ایک شخص اپنے فون پر قرآن پاک کی ڈیجیٹل کاپی پڑھ رہا ہے۔ [چیدر محیالدین/ اے ایف پی]

انڈونیشیا کی ایک مسجد میں 6 اپریل کو ایک شخص اپنے فون پر قرآن پاک کی ڈیجیٹل کاپی پڑھ رہا ہے۔ [چیدر محیالدین/ اے ایف پی]

ریڈیو فری ایشیا (آر ایف اے) نے یکم اپریل کو رپورٹ کیا کہ انسانی حقوق کے گروپ سنکیانگ میں، مسلمانوں کی تعداد جسے مقدس مہینہ منانے کی اجازت ہو گی، پر پابندی لگانے کے لیے چینی حکام کے اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔

سنکیانگ کے علاقے میں حکام نے طویل عرصے سے، ایغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں کو رمضان المبارک کو مکمل طور پر منانے سے روکے رکھا ہے، جس میں طلباء، اساتذہ اور سرکاری ملازمین پر روزے رکھنے پر پابندی لگانا شامل ہے۔

مقامی منتظمین اور پولیس نے آر ایف اے کو بتایا کہ کچھ محلوں کی کمیٹیوں کو نوٹس موصول ہوئے ہیں کہ رمضان کے دوران صرف 10 سے 50 مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی اجازت ہوگی۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے رمضان کا آغاز یکم اپریل کو ہوا تھا۔

جو لوگ روزہ رکھ رہے ہیں انہیں بھی حکام کے پاس رجسٹریشن کروانی ہو گی۔

گزشتہ سال 22 اپریل کو، لندن میں ایغور کمیونٹی کی ایک رکن نے مظاہرے کے دوران ایسا کتبہ اٹھا رکھا ہے جس میں برطانوی پارلیمنٹ سے، ایغور مسلم اقلیت پر چینی ظلم و ستم کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دینے کے لیے ووٹ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ [جسٹن ٹیلس/اے ایف پی]

گزشتہ سال 22 اپریل کو، لندن میں ایغور کمیونٹی کی ایک رکن نے مظاہرے کے دوران ایسا کتبہ اٹھا رکھا ہے جس میں برطانوی پارلیمنٹ سے، ایغور مسلم اقلیت پر چینی ظلم و ستم کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دینے کے لیے ووٹ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ [جسٹن ٹیلس/اے ایف پی]

الی قازق خود مختار پریفیکچر میں غلجا کاؤنٹی کے ایک گاؤں کے منتظم نے کہا کہ ان کی کمیونٹی میں رجسٹریشن پہلے سے ہی جاری ہے۔

دس خاندانوں کی نگرانی کرنے والے منتظم، نے کہا کہ صرف بزرگوں اور بالغوں کو ہی روزہ رکھنے کی اجازت ہے جن کے اسکول جانے والے بچے نہیں ہیں۔

منتظم نے کہا کہ "یہ نظام بچوں کے ذہنوں کو مذہب کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس وقت اس کے بارے میں بہت پروپیگنڈہ ہو رہا ہے۔ گاؤں کا عملہ ایسے لوگوں کو رجسٹر کر رہا ہے جو روزہ رکھنے کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔"

ایک اور منتظم جو کزیلسو کرغیز خود مختار پریفیکچر کے آیوش شہر میں 10 خاندانوں کی نگرانی کرتے ہیں، نے کہا کہ انہیں مقامی حکام کی جانب سے پابندیوں کے بارے میں نوٹس موصول ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ان 10 خاندانوں میں سے جن کا میں انچارج ہوں، ایسے دو۔۔۔ افراد کی شناخت کی گئی ہے جو روزہ رکھ سکتے ہیں۔ دونوں بوڑھے ہیں اور گھر میں کوئی اولاد نہیں ہے۔"

'اویغوروں کے لیے کوئی رمضان نہیں'

ان خبروں پر انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔

جرمنی میں عالمی اویغور کانگریس کی کمیٹی برائے مذہبی امور کے ڈائریکٹر تورگنجان الوودون نے کہا کہ "چین کا یہ نوٹس درد ناک اور افسوسناک ہے کہ صرف کچھ لوگ ہی روزہ رکھ سکتے ہیں۔"

"مسلم دنیا چین کے اس اقدام پر ہنسے گی اور روزہ داروں کے لیے کوٹہ مقرر کرنے کے قدم پر حیران رہ جائے گی"۔

واشنگٹن میں قائم ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ نے 13 مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ "اس سال وطن میں ایغوروں کے لیے کوئی رمضان نہیں ہو گا -- یا کسی بھی سال -- جب تک کہ چین کی نسل کشی کی مہم ختم نہیں ہو جاتی"۔

دی کیمپین فار اویغورز، جو بھی واشنگٹن میں واقع ہے، نے کہا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) سنکیانگ میں ایغوروں کو عبادت کرنے اور مذہبی تعطیلات منانے سے دوبارہ منع کر رہی ہے۔

گروپ نے 31 مارچ کو ایک بیان میں کہا کہ "اس ناانصافی میں اضافہ کرتے ہوئے، سی سی پی ایک جعلی تصویر کشی کرنے کے لیے، منتخب طور پر اسلام کو تعینات کرتی ہے"۔

گزشتہ برسوں میں حکام نے اویغور باشندوں کو خبردار کیا تھا کہ انہیں روزے رکھنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے جس میں سنکیانگ کے کسی حراستی کیمپ میں بھیجا جانا بھی شامل ہے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ریٹائرڈ شدہ افراد، رمضان سے پہلے عہد کریں کہ وہ وسیع تر کمیونٹی کے لیے ایک مثال قائم کرنے کے لیے، روزہ نہیں رکھیں گے یا نماز نہیں پڑھیں گے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کریں گے کہ دوسرے بھی ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔

'انسانیت کے خلاف جرائم'

انسانی حقوق کے گروہوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ "انسدادِ دہشت گردی، کے کریک ڈاون کے حصہ کے طور پر، سنکیانگ بھر میں "تعلیمِ نو" کے کیمپوں کے ایک نیٹ ورک میں، ایک ملین سے زیادہ ایغور اور ترک نژاد مسلمان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قید رکھا گیا ہے۔

سنکیانگ کے کیمپوں کے سابق قیدیوں کے ساتھ آزادانہ تحقیقات اور انٹرویوز سے کیمپوں کے اندر جسمانی اور ذہنی اذیتیں، برین واشنگ، منظم عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

مزید برآں، ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ اپریل میں ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا تھا کہ چینی حکام نے خطے کی دو تہائی مساجد اور دیگر مقدس اسلامی مقامات کو نقصان پہنچانے یا تباہ کرنے کے لیے مختلف حیلوں کو استعمال کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی حکومتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد --- جس میں امریکہ، کینیڈا، نیدرلینڈ، برطانیہ، بیلجیم اور فرانس شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں بیجنگ کی پالیسیاں "انسانیت کے خلاف جرائم" اور "نسل کشی" کے برابر ہیں۔

امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے 21 مارچ کو چینی حکام کی طرف سے، ملک کے اندر اور باہر نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو دبانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر نئی ویزا پابندیوں کا اعلان کیا۔

ایک بیان میں، جس میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں کہ کن اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائے گا، بلنکن نے چین سے سنکیانگ میں "انسانیت کے خلاف جاری نسل کشی اور جرائم کو ختم کرنے" کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی پابندیاں بنیادی طور پر ان چینی حکام کو نشانہ بناتی ہیں جو ایسی پالیسیوں میں ملوث ہیں جو اقلیتوں، منحرف افراد، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو دباتی ہیں۔

بلنکن نے چین کی طرف سے "نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو ہراساں کرنے، ڈرانے، نگرانی کرنے اور اغوا کرنے کی کوششوں پر تنقید کی جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بیرون ملک حفاظت کے خواہاں ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم دوبارہ [چینی] حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی جبر کی اپنی کارروائیاں بند کرے، جس میں ایغور نژاد امریکی کارکنوں اور دیگر ایغور افراد کو خاموش کرنے کی کوشش بھی شامل ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500