سلامتی

ہرات کی 1979 کی بغاوت کی یادگاری تقریب نے یوکرینی مزاحمت سے مماثلت اجاگر کی

از عمر

ہرات کے رہائشی 15 مارچ کو، ہرات شہر میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف 1979 کی بغاوت کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات کے رہائشی 15 مارچ کو، ہرات شہر میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف 1979 کی بغاوت کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات، افغانستان -- ہرات کے ہزاروں باشندوں نے گزشتہ منگل (15 مارچ) کو افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف بغاوت کی سالگرہ کی یاد منائی اور یوکرین پر روس کے حملے کے ساتھ اس کی مماثلت پر روشنی بھی ڈالی۔

ہرات شہر میں نامعلوم شہداء کے قبرستان میں 10,000 سے زیادہ لوگ 1979 کی ہرات کی بغاوت کی 43 ویں سالگرہ کے موقع پر جمع ہوئے۔

ہرات کے شہریوں نے 15 مارچ 1979 کو سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی جسے 24 ہاؤٹ کی بغاوت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

کچھ خبروں کے مطابق، بغاوت کے 24,000 سے زائد ارکان، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل تھے، بعد میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر ہوائی اور زمینی حملوں میں مارے گئے تھے۔

بغاوت کے چند دن بعد، سوویت حمایت یافتہ حکومت کے فوجیوں نے سینکڑوں مشتبہ افراد کو زندہ دفن کر دیا تھا۔

ہرات شہر کے ایک رہائشی محمد ادریس صدیق نے، حالیہ صورتِ حال کے ساتھ مماثلت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر روس کا حملہ "شٓر" ہے اور روس کو یقینی طور پر شکست ہو گی۔

روس نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "روس خون کا پیاسا ہے۔ دنیا نے اس تباہی کی چشم دید گواہ ہے جو وہ چالیس سال پہلے ہمارے ملک پر لے کر آیا تھا۔ روس کو یوکرین میں شکست ہو گی جیسے کہ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ "جس طرح افغانیوں نے روسی جارحیت سے جنگ کی تھی یوکرین کے لوگ بھی روسی جارحیت کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں اور اپنے ملک کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں"۔

صدیق نے کہا کہ "پوری دنیا کو اس غیر مساوی جنگ میں یوکرین کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور آج کی دنیا میں بلا جواز جارحیت کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔"

ہرات کے ایک رہائشی محمد ایوب نے کہا کہ افغانستان میں سوویت فوج کی طرح، یوکرین میں روسی فوجی خواتین اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر رہے ہیں اور عوامی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے عوام اور حکومت، روسی جارحیت کے خلاف بہادری سے اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یوکرین میں موجود روسیوں کو ایسا سبق سکھایا جانا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کریں"۔

تازہ زخم

افغانستان پر، سوویت یونین کے حملے کو چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی بھی افغان شہری سوویت ظلم کو یاد کرتے ہیں اور متاثرین کے اہل خانہ ابھی تک غمزدہ ہیں۔

سوویت یونین کے افغانستان پر دسمبر 1979 کے آخر میں شروع اور فروری 1989 میں ختم ہونے والے حملے میں، جو تقریباً ایک دہائی تک جاری رہا، 10 لاکھ سے زائد افغان اپنی جانیں گنوا بیٹھے، 20 لاکھ زخمی یا معذور ہوئے اور 50 لاکھ سے زیادہ ہمسایہ ممالک میں بے گھر ہو گئے۔

اس جنگ کے دوران، پاکستان اس بین الاقوامی اتحاد کا حصہ تھا جو سوویت یونین سے جنگ کرنے میں مجاہدین کی مدد کر رہا تھا۔ پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی تعداد کا اندازہ 2.7 ملین لگایا گیا ہے۔

ہرات کے رہائشی 70 سالہ غلام حیدر احمدی جو 24 ہاؤٹ بغاوت میں اپنے والد، ایک بھائی اور دو چچاؤں سے محروم ہو گئے تھے، نے کہا کہ وہ اب بھی غمزدہ ہیں اور روس پر لعنت بھیج رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میرے بھائی اور دو چچا، جو بہت چھوٹے تھے، سب ایک ہی دن شہید ہو گئے تھے۔ میری ماں اپنے بیٹے اور دو بھائیوں کے نقصان کو برداشت نہیں کر سکی اور 24 ہاؤٹ بغاوت کے چند ماہ بعد مر گئی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میرے والد ایک مجاہد تھے جنہوں نے سوویت افواج سے جنگ کی تھی۔ وہ ہرات شہر میں سوویت یونین کے فضائی حملے میں اپنے متعدد ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے تھے۔"

احمدی نے کہا کہ وہ 24 ہاؤٹ بغاوت کا دن اور ہرات میں سوویت فوجیوں کی موجودگی ایک خوفناک خواب کی طرح یاد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری بدحالی کی جڑ روس ہے۔ سوویت حملے کے باعث، افغان شہری آج مصائب کا شکار ہیں۔ روسیوں نے ہمارے پاس موجود ہر چیز تباہ کر دی"۔

ہرات کے ایک رہائشی 65 سالہ حبیب اللہ زیارتجاہی نے کہا کہ سوویت افواج نے ہرات شہر اور اضلاع میں ہر روز خون بہایا اور وہ اس سے لطف اندوز بھی ہوتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ "تاریخ افغانستان میں سوویت یونین کی بزدلانہ بربریت کو نہیں بھولے گی۔ تاریخ کئی نسلوں تک روس کو ایک جارح کے طور پر یاد رکھے گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "سوویت حملے اور اس کے بعد کے اثرات نے ہر افغان کو متاثر کیا اور اس کے اثرات اب بھی ہمارے ملک میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔"

ناکامی لکھ دی گئی ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد روس کو سابقہ سوویت یونین جیسی قسمت کا ہی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ہرات کے ایک سیاسی تجزیہ کار عبدالقادر کامل نے کہا کہ آج کی دنیا میں، اقوام متحدہ کے ایک آزاد رکن ملک پر حملہ کرنا ایک بڑی غلطی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "جھوٹے غرور کے باعث، [روسی صدر] ولادیمیر پوٹن نے سوچا تھا کہ ان کی فوج 24 گھنٹوں میں یوکرین پر قبضہ کر لے گی لیکن ان کی توقعات کے برعکس، یوکرینی اپنے ملک کا دفاع کر رہے ہیں اور روس کی کامیابی کے امکانات کو ہر روز کم کر رہے ہیں۔"

کامل نے کہا کہ "روس کا یوکرین پر حملہ تمام بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور پوٹن کی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ جلد یا بدیر، پوٹن کو یوکرین میں شکست کا کڑوا مزا چکھنا پڑے گا"۔

ہرات میں مقیم سیاسی تجزیہ کار محمد رفیق شہیر نے کہا کہ روس کو افغانستان میں سوویت یونین کی شکست سے سبق سیکھنا چاہیے تھا اور اسے کبھی یوکرین پر حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

روس کے پاس اب بھی موقع موجود ہے کہ وہ یوکرین کی حکومت کے ساتھ ایک باوقار انخلاء کے لیے بات چیت کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ طویل تنازع کی صورت میں روسی فوجی بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد یوکرین چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "روس کے نقطہ نظر سے، یوکرین پر حملہ کرنا آسان لگتا ہے لیکن اس ملک کو فتح کرنا اور اس پرغلبہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اگر روسی مکمل طور پر یوکرین پر قابض ہو بھی جائیں تو بھی وہ اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ یہ ان کا گھر نہیں ہے۔"

شہیر نے کہا کہ "پوٹن یوکرین کے شہروں اور عوامی بنیادی ڈھانچے کو بموں سے تباہ کرنے کو کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں مگر درحقیقت یہ ان کی ناکامی ہے

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500