سیاست

خفیہ اطلاعات کے مطابق چین روس کے حملے کے منصوبے سے باخبر تھا

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

آگ بجھانے والا عملہ 2 مارچ کو خارکیف، یوکرین میں، روس کی طرف سے حالیہ گولہ باری کے دوران لگنے والی کارازین خارکیف نیشنل یونیورسٹی کے شعبۂ معاشیات کی عمارت میں لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

آگ بجھانے والا عملہ 2 مارچ کو خارکیف، یوکرین میں، روس کی طرف سے حالیہ گولہ باری کے دوران لگنے والی کارازین خارکیف نیشنل یونیورسٹی کے شعبۂ معاشیات کی عمارت میں لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ [سرگئی بوبوک/اے ایف پی]

واشنگٹن -- ایسے شواہد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ روس نے ہفتوں کی تردیدوں اور سفارت کاری کے وعدوں کے باوجود یوکرین میں پہلے سے سوچی سمجھی جارحانہ جنگ شروع کی تھی -- اور یہ کہ چین کو اس منصوبے کا علم تھا۔

نیویارک ٹائمز نے بدھ (2 مارچ) کے روز خبر دی کہ چین کی اولین ترجیح عالمی امن کا تحفظ نہیں بلکہ اپنے سرمائی اولمپکس کو روس کی جانب سے اپنے ایک بہت چھوٹے سے پڑوسی ملک پر ایک اور حملے کی خبروں سے خراب ہونے سے بچانا تھا۔

سینیئر امریکی حکام اور ایک یورپی اہلکار، جن سبھی نے مغربی انٹیلیجنس کی خفیہ رپورٹ دیکھی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے ٹائمز نے خبر دی کہ، "سینیئر چینی حکام نے فروری کے اوائل میں سینیئر روسی حکام کو بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کے اختتام سے قبل یوکرین پر حملہ نہ کرنے کے لیے کہا تھا"۔

اے ایف پی اور ٹائمز نے بتایا ہے کہ چین، اپنی بدنامی کے ڈر سے، بار بار تردید کرتا رہا ہے کہ اس نے روس سے بیجنگ سرمائی اولمپکس کے بعد تک حملہ ملتوی کرنے کو کہا تھا۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں اپنی ملاقات کے دوران تصویر کھنچوانے پہنچ رہے ہیں۔ [الیکسی دروزینن / سپتنک / اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ 4 فروری کو بیجنگ میں اپنی ملاقات کے دوران تصویر کھنچوانے پہنچ رہے ہیں۔ [الیکسی دروزینن / سپتنک / اے ایف پی]

سرمائی کھیل 4 فروری کو شروع ہوئے اور 20 فروری کو ختم ہوئے تھے۔ 24 فروری کو روسی افواج نے کئی محاذوں سے یوکرین پر حملہ کیا تھا

منافقت اور ملی بھگت

رپورٹ میں طویل روسی اور چینی منافقت اور ملی بھگت کا ذکر کیا گیا ہے۔

خفیہ انٹیلیجنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹائمز نے کہا، "سینیئر چینی حکام کو گزشتہ ہفتے حملے شروع ہونے سے پہلے روس کے جنگی منصوبوں یا ارادوں کے بارے میں کچھ براہِ راست معلومات تھیں۔"

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ نے 4 فروری کو بیجنگ میں ملاقات کی تھی، جس میں عالمی سیاسی اور عسکری نظم کے "نئے دور" میں ایک ساتھ رہنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا.

ملاقات کے بعد جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں ان کا کہنا تھا، "دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی کوئی حد نہیں ہے۔ تعاون کے کوئی 'ممنوعہ' علاقے نہیں ہیں۔"

مزید برآں، حملے سے قبل مشرقِ بعید سے جنگی علاقے میں روسی فوجیوں کی نقل و حرکت نے "روسی اور چینی حکام کے درمیان اعلیٰ سطح پر اعتماد کی نشاندہی کی تھی"۔

گزشتہ سال کے اوائل میں جب سے یوکرینی سرحد کے ساتھ روسی فوجی جمع ہوئے تھے، روسی حکام مُصر تھے کہ فوجی وہاں صرف مشقیں کرنے کے لیے موجود ہیں۔

نومبر میں آغاز کرتے ہوئے، جب امریکی حکام نے اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ شروع کیا اور ان سے روسی حملے کو روکنے میں مدد کے لیے کہا تو چینیوں نے اصرار کیا کہ ایسا نہیں ہو گا۔

ٹائمز کے مطابق، اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ دسمبر میں، امریکی "اہلکاروں کو خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ بیجنگ نے ماسکو کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا تھا، جس میں روسیوں کو بتایا گیا تھا کہ امریکہ اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین روسی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گا"۔

یلغار کے بعد، چینی حکام بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تائیوان چین کا حصہ ہے.

وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ نے 23 فروری کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، "تائیوان ہمیشہ سے چین کی سرزمین کا ایک ناقابلِ تنسیخ حصہ رہا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی اور قانونی حقیقت ہے۔"

پیوٹن نے اپنی تاریخ دوہرائی ہے

یوکرین پر سنہ 2022 کا حملہ تیسری بار ہے جب پیوٹن حکومت نے کھیلوں کے مقابلوں کے دوران جنگ کا قصد کیا ہے۔

ٹائمز کے مطابق، 2008 میں، پیوٹن نے بیجنگ سرمائی کھیلوں کے دوران جارجیا پر حملہ کیا، جس پر "کچھ چینی حکام پریشان ہوئے تھے"۔ سرمائی اولمپکس ختم ہونے کا انتظار کر کے اس نے اس سال دوبارہ چین کو ناراض نہیں کیا۔

پہلی بار یوکرین پر حملہ کرنے اور کریمیا کا الحاق اپنے ساتھ کرنے کے لیے کھیلوں کے ان مقابلوں کے ختم ہونے کا انتظار کر کے، پیوٹن نے اپنے شوکیس، 2014 سوچی سرمائی کھیلوں کو نہیں بگاڑا۔

روس کے ساتھ کھڑے ہو کر، چین نے ایک مردود کی پشت پناہی کی۔

اے ایف پی کے مطابق، بدھ کے روز، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی جس میں روس سے یوکرین سے "فوری طور پر" نکل جانے کا "مطالبہ" کیا گیا ہے۔

193 ممالک میں سے 141 نے غیر واجبی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

چین ان 35 ممالک میں شامل تھا جنہوں نے خود کو اس سے الگ رکھا، جب کہ صرف پانچ ممالک – اریٹیریا، شمالی کوریا، شام، بیلاروس اور روس نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500